جیسا کہ بآسانی سمجھا جاسکتا ہے ، دسواں باب کتاب کا سب سے اہم حصہ ہے، کیونکہ یہ ’خدا کی اس بادشاہت‘ کے آغاز کی پیشین گوئی کرتا ہے جو حضرت موسیٰ ؑ کی وفات سے ۱۷۵۰ سال بعد قائم ہونا تھی۔ جس شخصیت کے ہاتھوں ’خداکی بادشاہت‘ کے قیام کی یہ پیشین گوئی پوری ہوناتھی، اس کے تعین کے لیے سب سے پہلے تو ہمیں تاریخِ عالَم میں وہ نقطہ تلاش کرنا ہوگا جو حضرت موسیٰ ؑ کی وفات کے ۱۷۵۰ سال بعدرونما ہواہو۔ اگرچہ حضرت موسیٰ ؑ کی وفات کی تاریخ کی ٹھیک ٹھیک نشان دہی تو نہیں کی جاسکتی، تاہم علما نے تاریخِ عالَم کے ماہ وسنین کے دستیاب مواد کی مدد سے اس واقعے کے وقت کے ٹھیک ٹھیک تعین کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔
’دی اوکسفرڈبائبل اٹلس‘ کا دعویٰ ہے کہ اسرائیلیوں کا حضرت موسیٰ ؑ کی نگرانی میں مصر سے خروج انیسویں خاندان کے اس مصری فرعون رعمِسِس دوم (Rameses II) کے دَور میں ہوا جو ۱۲۹۰ ق م سے ۱۲۲۴ ق م تک حکمران رہا:
The oppression of Israel and the Exodus from Egypt took place most probably under Rameses II (1290-24). ۳۰
اسرائیل پر ظلم و ستم اور ان کا مصر سے خروج غالباً رعمِسِس دوم ( ۱۲۹۰ ق م سے ۱۲۲۴ ق م) کے تحت ہوا تھا۔
برنارڈ ڈبلیو اینڈرسن۳۱ اور جان برائٹ ۳۲ نے بھی یہی (۱۲۹۰ ق م تا ۱۲۲۴ ق م) تواریخ تجویز کی ہیں۔
جے اے ولسن نے ’انٹر پریٹرز ڈکشنری آف دی بائبل‘ میں درج کیا ہے کہ رعمِسِس دوم کا عہدِ حکمرانی ۱۲۹۰ ق م سے ۱۲۲۴ ق م پر محیط رہا:
The long reign of Rameses II (1290-24) left an indelible mark upon Egypt. (...), he is the traditional Pharaoh of Oppression. (....). Rameses II was succeeded by his son Merneptah. ۳۳
رعمِسِس دوم کے طویل عہدِ حکمرانی (۱۲۹۰ تا ۱۲۲۴ ق م) نے مصر پر انمٹ نقش چھوڑا ہے۔ ( ...)، وہ اسرائیلیوں پر ظلم وستم کرنے والاروایتی فرعون ہے۔ ( ...)۔ رعمِسِس دوم کا بیٹا مرنِفتاح اس کا جانشین بنا۔
پال جانسن کا دعویٰ ہے:
Indeed there is pretty convincing evidence that the period of Egyptian oppression, which finally drove the Israelites to revolt and escape, occurred towards the last quarter of the second millennium BC, and almost certainly in the reign of the famous Rameses II (...). This [the victory stele of Pharaoh Merneptah, who was the son and successor of Rameses II, which has been dated 1220 BC] is the first non-Biblical reference to Israel. Taken in conjunction with other evidence, such as calculations based on I Kings 6:1 and Judges 11:26, we can reasonably be sure that the Exodus occurred in the thirteenth century BC and had been completed by about 1225 BC.۳۴
حقیقت یہ ہے کہ اس بات کی کافی حد تک اطمینان بخش شہادت موجود ہے کہ مصریوں کے اس ظلم و ستم کا زمانہ، جس کے نتیجے میں اسرائیلی بالآخر بغاوت اور فرار پر مجبور ہوئے، دوسرے ہزارے ق م کی آخری چوتھائی کے قریب اور قریباً یقینی طور پر مشہور رعمِسِس دوم کا دَورِ حکومت ہی تھا(...)۔یہ (یعنی اس فرعون مرنفتاح کی فتح کا کتبہ جو رعمِسِس دوم کا بیٹا اور اس کا جانشین تھا، اور جس کتبے کا زمانہ ۱۲۲۰ ق م شمار کیاجاتا ہے) اسرائیل کا پہلا خارج از بائبل حوالہ ہے۔ دوسری شہادتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، جیسے کہ وہ اعدادو شمار ہیں جو سلاطین ۶:۱ و قضاۃ ۱۱:۲۶ پر مبنی ہیں، ہم معقول حد تک اس بات پر یقین کرسکتے ہیں کہ خروج تیرھویں صدی ق م میں وقوع پذیر ہوا اور قریباً ۱۲۲۵ ق م تک مکمل ہوچکا تھا۔
’نیو بائبل اٹلس‘ آثار قدیمہ کی تحقیق کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ خروج کا واقعہ قریباً ۱۲۳۰ سے ۱۲۲۰ کے زمانے سے متعلق ہے:
Among the L. B. [Late Bronze Age: 1550-1200 BC] towns destroyed at the end of the period are some listed among Israel's conquest: Lachish (Tell ed-Duweir), Eglon (Tell el-Hesi), Debir (Tell- el-Beit Mirsim) and Hazor. Many scholars have therefore interpreted these destructions as the archaeological evidence for Israel's entry into Canaan, dating the event c. 1230/20 BC. The relatively poor Iron Age I [1200-330 BC] culture which followed has therefore been labelled 'Israelite'. (....). It appears from the latest evidence that Lachish was also destroyed c. 1175 BC rather than 1230/20 BC.۳۵
کانسی کے عہد آخر (۱۵۵۰تا ۱۲۰۰ ق م) کے دوران میں اس دَور کے خاتمے کے قریب تباہ کردہ شہروں میں سے بعض کی فہرست فتح اسرائیل میں درج ہے : لاکیش (تل الدویر ) عجلون (تل الحیسی ) دَیبر(تل البیت مِرصیم) اور حیضر۔ اس لیے بہت سے علما نے ان تباہیوں کو اسرائیل کے کنعان میں داخلے کی آثار قدیمہ کی شہادت سے تعبیر کیا ہے اور اس واقعے کی تاریخ ۱۲۳۰ تا ۱۲۲۰ ق م بتائی ہے۔ایسااس لیے ہے کہ پتھر کے زمانۂ اول (۱۲۰۰تا۳۳۰ق م) کی نسبتاً اس کم مایہ تہذیب کو ’جو اس کے بعد میں آئی‘ اسرائیلی تہذیب کہاگیاہے۔ (....)۔ تازہ ترین شہادت سے ظاہرہوتا ہے کہ لاکیش بھی ۱۲۳۰ تا ۱۲۲۰ ق م کے بجائے قریباً ۱۱۷۵ ق م میں تباہ ہوگیا تھا۔
’پکٹوریل ببلیکل انسائیکلوپیڈیا‘ کا بیان ہے:
The work was begun by Seti I (1312-1289 BCE) and continued by his son, Rameses II (1289-1224 BCE), using the forced labour of the Delta\'s nomadic population.۳۶
یہ کام سیتی اول (۱۳۱۲تا ۱۲۸۹ق م) نے شروع کروایا تھا اور ا س کے بیٹے رعمِسِس دوم (۱۲۸۹ تا ۱۲۲۴ ق م) نے ڈیلٹا کی خانہ بدوش آبادی کی جبری مشقت استعمال کرکے اسے جاری رکھا۔
’دی نیو جیروسیلم بائبل‘ میں لکھاہے:
The reference indicates Rameses II (1290-1224) as the oppressive Pharaoh and gives an approximate date for the Exodus.۳۷
ظالم فرعون کی حیثیت سے یہ حوالہ رعمِسِس دوم (۱۲۹۰ تا ۱۲۲۴ ق م) کی طرف اشارہ کرتاہے اور خروج کی ایک تخمینی تاریخ دیتا ہے۔
’دی نیو جیروسیلم بائبل پاکٹ ایڈیشن‘ مطبوعہ ۱۹۹۰ ء نے کتاب کے آخر میں کرونو لو جیکل ٹیبل دیاہے، اس میں رعمِسِس دوم کا عہد ۱۲۹۰ سے ۱۲۲۴ ق م لکھا ہے۔۳۸
’دی جیوئش پیپل ‘نامی کتاب نے بھی یہی تاریخ درج کی ہے۔۳۹
کے اے کچن اور ٹی سی مچل نے بھی اپنے مقالے ’کرانولوجی آف دی اوٹی‘ میں رعمِسِس دوم کا یہی زمانہ (۱۲۹۰ تا ۱۲۲۴ ق م) تجویز کیا ہے، انھوں نے متبادل کے طو رپر ۱۲۷۹ تا ۱۲۱۳ ق م بھی ذکر کیاہے ۔۴۰
اس طر ح ہم دیکھتے ہیں کہ مندرجہ ذیل مستند علما و مآخذنے فرعون رعمِسِس دوم کا عہدِ حکومت ۱۲۹۰ تا ۱۲۲۴ ق م قرار دیا ہے ، جس سے یہ صاف ظاہر ہوجاتاہے کہ محمد رسول اللہﷺ کی آمد کی تاریخ حضرت موسیٰ ؑ کی وفات سے ٹھیک ’سی سی ایل ٹائمز ‘(۱۷۵۰سال ) بعد ہے:
1. Understanding the OT by Bernard W. Anderson.
2. A History of Israel by John Bright.
3. New Bible Dic. 2nd Edition.
4. Interpreter\'s Dic. of the Bible, Vol. IV.
5. The New Jerusalem Bible.
6. The New Jerusalem Bible Pocket Edn., 1990.
7. Pictorial Biblical Enc.
8. Oxford Bible Atlas.
9. New Bible Dic.
10. The Jewish People.
اب اگر یہ فرعون رعمِسِس دوم (۱۲۹۰ تا ۱۲۲۴ ق م ) وہی فرعون ہو جس کے دَور میں بائبل کے علما کے اتفاقِ رائے کے مطابق اسرائیلیوں نے حضرت موسیٰ ؑ کی معیت میں مصر سے ہجرت کی تھی، تو وہ اسرائیلیوں کے تعاقب کے دوران میں لازماً ڈوب گیا ہوگا اور یہی اس کی تاریخِ وفات ہوگی ۔ بائبل میں یہ واقعہ قدرے تفصیل سے مندرج ہے:
جب مصر کے بادشاہ کو خبر ملی کہ وہ لوگ چل دِیے تو فرعون اور اُس کے خادموں کا دِل اُن لوگوں کی طرف سے پھر گیا اور وہ کہنے لگے کہ ہم نے کیا کِیا کہ اسرائیلیوں کو اپنی خدمت سے چھٹی دے کر اُن کو جانے دیا۔تب اُس نے اپنا رتھ تیار کروایا اور اپنی قوم کے لوگوں کو ساتھ لیا۔ اور اُس نے ۶۰۰ چُنے ہوئے رتھ بلکہ مصر کے سب رتھ لیے اور اُن سبھوں میں سرداروں کو بٹھایا۔اور خُدا وند نے مصر کے بادشاہ فرعون کے دل کو سخت کر دیا اور اُس نے بنی اسرائیل کا پیچھا کیا کیونکہ بنی اسرائیل بڑے فخر سے نکلے تھے۔ اور مصر ی فوج نے فرعون کے سب گھوڑوں اور رتھوں اور سواروں سمیت اُن کا پیچھا کیا اور اُن کو سمندر کے کنارے فی ہخیروت (Pihahiroth) کے پاس بعل صفون کے سامنے ڈیرالگا رہے تھے جا لیا۔ اور جب فرعون نزدیک آگیا تب بنی اسرائیل نے آنکھ اُٹھا کر دیکھاکہ مصری اُن کا پیچھا کیے چلے آتے ہیں اور وہ نہایت خوف زدہ ہو گئے۔ تب بنی اسرائیل نے خداوند سے فریاد کی۔ اور موسیٰ سے کہنے لگے کیا مصر میں قبریں نہ تھیں جو تُو ہم کو وہاں سے مرنے کے لیے بیابان میں لے آیا ہے؟ تُو نے ہم سے کیا کِیا کہ ہم کو مصر سے نکال لایا؟ کیا ہم تجھ سے مصر میں یہ بات نہ کہتے تھے کہ ہم کو رہنے دے کہ ہم مصریوں کی خدمت کریں؟ کیونکہ ہمارے لیے مصریوں کی خدمت کرنا بیابان میں مرنے سے بہتر ہوتا۔ تب موسیٰ نے لوگوں سے کہا ! ڈرو مت۔ چپ چاپ کھڑے ہو کر خداوند کی نجات کے کام کو دیکھو جو وہ آج تمھارے لیے کرے گا کیونکہ جن مصریوں کو تم آج دیکھتے ہو اُن کو پھر کبھی ابد تک نہ دیکھو گے۔ خداوند تمھاری طرف سے جنگ کرے گا اور تم خاموش رہو گے۔ اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ تُو کیوں مجھ سے فریاد کر رہا ہے؟ بنی اسرائیل سے کہہ کہ وہ آگے بڑھیں۔ اور تُو اپنی لاٹھی اُٹھا کر اپنا ہاتھ سمندر کے اُوپر بڑھا اور اُسے دو حصے کر اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل جائیں گے۔ اور دیکھ میں مصریوں کے دل سخت کر دوں گا اور وہ اُن کا پیچھا کریں گے اورمیں فرعون اور اُس کی سپاہ اور اُس کے رتھوں اور سواروں پر ممتاز ہوں گا۔ اور جب میں فرعون اور اُس کے رتھوں اور سواروں پر ممتاز ہو جاؤں گا تو مصری جان لیں گے کہ میں ہی خدا وند ہوں۔
(....)۔ پھر موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور خداوند نے رات بھر تُند پُوربی آندھی چلا کر سمندر کو پیچھے ہٹا کر اُسے خشک زمین بنا دیا اور پانی دو حصے ہو گیا۔ اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل گئے اور اُن کے داہنے اور بائیں ہاتھ پانی دیوار کی طرح تھا۔ اور مصریوں نے تعاقب کیا اور فرعون کے سب گھوڑے اور رتھ اور سوار اُن کے پیچھے پیچھے سمندر کے بیچ میں چلے گئے۔
(....)۔ اور خداوند نے موسیٰ سے کہا اپنا ہاتھ سمندر کے اُوپر بڑھا تاکہ پانی مصریوں اور اُن کے رتھوں اور سواروں پر پھر بہنے لگے۔ اور موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اُوپر بڑھایا اور صبح ہوتے ہوتے سمندر پھر اپنی اصلی قوت پر آگیا اور مصری اُلٹے بھاگنے لگے اور خداوند نے سمندر کے بیچ ہی میں مصریوں کو تہ وبالا کر دیا۔ اور پانی پلٹ کر آیا اور اُس نے رتھوں اور سواروں اور فرعون کے سارے لشکر کو جو اسرائیلیوں کا پیچھا کرتا ہوا سمندر میں گیاتھا غرق کر دیا اور ایک بھی اُن میں سے باقی نہ چھوٹا۔۴۱
اس سے ظاہر ہوتاہے کہ جس فرعون نے سمندر کی خشک تہ پر اسرائیلیوں کا تعاقب کیاتھا، وہ بھی ڈوب گیا تھا ، اور بچایا نہیں گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں اسرائیلی جزیرہ نماے سینائی میں داخل ہوئے۔ اس طرح یہ خروج ۱۲۲۴ ق م میں عمل میں آیا او ریہی وہ سال بھی ہے جس میں فرعون رعمِسِس دوم بھی اسرائیلیوں کیبچ نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے گروہ کے سرگرم تعاقب میں ڈوب کرمرا تھا۔ فرعون اور اس کے لاؤ لشکر کی تباہی کے بعد اسرائیلی جزیرہ نماے سینائی میں داخل ہوئے ۔ مصرمیں طویل عرصہ غلامی میں گزارنے کے بعد غلامی اُن کے مزاج میں کچھ ایسی رچ بس گئی تھی کہ آزادی کی فضا انھیں راس نہ آئی۔ وہ مسلسل خداوند تعالیٰ کے خلاف شکوہ وشکایت کرتے اور بڑ بڑاتے رہتے تھے۔ بائبل کی کتاب خروج ، احبار اورگنتی میں ان کے اس دَور کے حالات کافی تفصیل سے درج ہیں۔ اس دَور میں جزیرہ نماے سینائی میں ان کا خانہ بدوشانہ سفر بھی جاری رہا۔ کچھ عرصہ ایک جگہ گزارنے کے بعد کسی دوسری جگہ چل پڑتے اور کچھ عرصہ کے بعد وہاں سے کسی اور طرف چل دیتے۔ ان کی تعداد بھی لاکھوں میں تھی، اس لیے سفر کے آغاز ، اختتام اور دَورانِ سفر میں انھیں کافی وقت لگتا تھا۔ اس پورے عرصے میں ان کا رویہ زیادہ تر ایک نافرمان اور ناشکری قوم کا رہا، یہاں تک کہ وہ واقعہ پیش آیا جس کا کتاب خروج کے باب ۱۳،۱۴میں ذکر ہے او رجس کے نتیجے میں انھیں چالیس سالہ صحرا نوردی کی سزادی گئی ۔ ذیل میں بائبل سے اس کے متعلق ایک اقتباس درج ہے:
اور خدا وند نے موسیٰ اور ہارون سے کہا ۔ میں کب تک اس خبیث گروہ کی جو میری شکایت کرتی رہتی ہے برداشت کروں؟ بنی اسرائیل جو میرے برخلاف شکایتیں کرتے رہتے ہیں میں نے وہ سب شکایتیں سُنی ہیں۔ سو تم اُن سے کہہ دو خدا وند کہتا ہے مجھے اپنی حیات کی قسم ہے کہ جیسا تم نے میرے سُنتے کہا ہے میں تم سے ضرور ویسا ہی کروں گا۔ تمھاری لاشیں اسی بیابان میں پڑی رہیں گی اور تمھاری ساری تعداد میں سے یعنی ۲۰ برس سے لے کر اُس سے اُوپر اُوپر کی عمر کے تم سب جتنے گنے گئے اور مجھ پر شکایتیں کرتے رہے، ان میں سے کوئی اُس ملک میں جس کی بابت میں نے قسم کھائی تھی کہ تم کو وہاں بساؤں گا جانے نہ پائے گا سوا یفُنّہ کے بیٹے کالب اور نون کے بیٹے یشوع کے۔اور تمھارے بال بچے جن کی بابت تم نے یہ کہا کہ وہ تو لوٹ کا مال ٹھہریں گے اُن کو میں وہاں پہنچاؤں گا اور جس ملک کو تم نے حقیر جانا وہ اُس کی حقیقت پہچانیں گے اور تمھارا یہ حال ہو گا کہ تمھاری لاشیں اسی بیابان میں پڑی رہیں گی۔ اور تمھارے لڑکے بالے ۴۰ برس تک بیابان میں آوارہ پھرتے اور تمھاری زناکاریوں کا پھل پاتے رہیں گے جب تک کہ تمھاری لاشیں بیابان میں گل نہ جائیں۔ اُن ۴۰ دنوں کے حساب سے جن میں تم اُس ملک کا حال دریافت کرتے رہے تھے۔ اب دن پیچھے ایک ایک برس یعنی ۴۰ برس تک تم اپنے گناہوں کا پھل پاتے رہو گے تب تم میرے مخالف ہوجانے کو سمجھو گے۔ میں خداوند یہ کہہ چکا ہوں کہ میں اس پوری]یا ’پورے‘؟[ خبیث گروہ سے جو میری مخالفت پر متفق ہے قطعی ایسا ہی کروں گا۔ ان کا خاتمہ اسی بیابان میں ہو گا اور وہ یہیں مریں گے۔۴۲
چالیس سالہ صحر ا نوردی کی یہ سزااسرائیلیوں کے جزیرہ نما سینائی میں داخل ہونے کے فوری بعد ہی شروع نہیں ہوگئی تھی ۔ اس سے پہلے ایک قدرے طویل عرصے پر پھیلے ہوئے اسرائیلیوں کی ناشکری، نافرمانی ، اور بدکاریوں کے متعدد واقعات رونما ہوچکے تھے۔ جو اس بھاری سزا کی وجۂ جواز بنے۔ اس عرصے کے واقعات کا بیان بائبل میں کتاب خروج کے چھبیس ابواب ، احبار کی پوری کتاب (ستائیس ابواب) اور کتاب گنتی کے چودہ ابواب، یعنی کل سڑسٹھ ابواب پر محیط ہے۔ اسرائیلیوں کی ان گناہ آلودسرگرمیوں کے نتیجے میں صحرائے سینائی کی چالیس سالہ صحرا نوردی کی سزا کے اعلان کے لیے کم از کم چار سال کا عرصہ تو لازماً لگا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہو اکہ چالیس سالہ صحرا نوردی کی سزا فرعون رعمِسِس دوم کے غرق ہونے سے چار سال بعد شروع ہوئی ہوگی۔ رعمِسِس دوم ۱۲۲۴ ق م میں غرقاب ہوا تھا۔ اس سے ظاہرہوا کہ اسرائیلیوں کے چالیس سالہ صحرا نوردی کا آغاز ۱۲۲۰ ق م میں ہوا تھا ۔ اس کا یہ مطلب بھی ہو اکہ حضرت موسیٰ ؑ فرعون رعمِسِس دوم کے مرنے سے جو ۱۲۲۴ ق م میں مرا تھا چوالیس سال بعد فوت ہوئے۔ اس طرح حضرت موسیٰ ؑ کا سال وفات ۱۱۸۰ ق م بنتاہے (۱۲۲۴۔۴۴=۱۱۸۰)۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوجاتاہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی وفات اور حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدایش کے درمیان ۱۱۸۰ سال کا وقفہ ہے۔
یہ بات قریباً متفق علیہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ ۵۷۰ ء میں پیدا ہوئے تھے۔ جارج ڈبلیو گلمور اپنے مقالے ’محمد اور محمدیت‘ میں لکھتا ہے :
Mohammed [pbAh], 'The Praised,' the posthumous son of Abdu Allah, a member of the Koraish tribe, by Aminah, was born at Mecca Aug. 20, 570, and died at Medina June 8, 632.۴۳
محمد]ﷺ[ جس کے معنی ہیں’جس کی تعریف کی گئی ہو‘ آمنہ کے بطن سے قبیلۂ قریش کے ایک فرد عبداللہ کے ہاں ان کی وفات کے بعد مکے میں ۲۰اگست ۵۷۰ ء کو پیدا ہوئے اور مدینے میں ۸جون ۶۳۲ ء کو فوت ہوئے۔
مائیکل ایچ ہارٹ رقم طراز ہیں:
The majority of the persons in this book had the advantage of being born and raised in centers of civilization, highly cultured or politically pivotal nations. Muhammad [pbAh], however, was born in the year 570, in the city of Mecca, in southern Arabia, at that time a backward area of the world, far from the centers of trade, art, and learning.۴۴
اس کتاب میں مذکور اشخاص کی اکثریت کو تہذیب و تمدن کے مراکز اور انتہائی متمدن یا سیاسی لحاظ سے مرکزی حیثیت کی حامل اقوام میں پیدا ہونے او رنشو ونماپانے کا شرف حاصل تھا۔ لیکن محمد[ﷺ] ۵۷۰ء میں جنوبی عرب کے شہر مکہ میں پید اہوئے، جو اس زمانے میں دنیا کا ایک پس ماندہ علاقہ تھا اور تجارت اور علوم و فنون کے مراکز سے الگ تھلگ اور دُورتھا۔
اس طرح یہ بات بآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی وفات سے حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدایش تک ۱۱۸۰ سال کا عرصہ بنتا ہے، اور حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدایش سے محمد رسول اللہ ﷺ کی پیدایش تک ۵۷۰ سال کا عرصہ بنتا ہے ۔ ۱۱۸۰ کو ۵۷۰ میں جمع کیا جائے تو ۱۷۵۰ بنتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے’صعودِ موسیٰ‘ میں درج شدہ اپنی پیشین گوئی میں محمد رسول اللہ ﷺ کی پیشگی خبردی ہے، یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ’صعودِ موسیٰ‘ کی یہ پیشین گوئی تاریخ کے ماہ و سال کی صرف ایک ہی نمایاں شخصیت کی ذات پر حرف بہ حرف پوری اترتی ہے اور وہ شخصیت محمد رسول اللہ ﷺکے علاوہ کوئی اور نہیں۔ آپؐ حضرت موسیٰ ؑ کی وفات کے ٹھیک ۱۷۵۰ سال بعد پیدا ہوئے۔ اس طرح کسی دیانت دار ، غیر جانب دار اور غیرمتعصب شخص کے لیے محمدرسول اللہﷺ کی نبوت کے انکار کی کوئی وجۂ جواز باقی نہیں رہتی۔
اس مضمون کے بعض اَہم نِکات بطور یاد دہانی ذیل میں دہرائے جاتے ہیں:
۱۔ ’صعودِ موسیٰ‘ یا ’میثاقِ موسیٰ‘ نامی کتاب میں حضرت موسیٰ ؑ اپنے شاگرد اور خلیفہ حضرت یوشعؑ بِن نون کو تاریخِ انسانی میں رونما ہونے والے پہلے اور بعد کے اہم واقعات سے روشناس کراتے ہیں۔
۲۔ کتاب کے آخرمیں حضرت موسیٰ ؑ بالکل غیر مبہم ، دو ٹوک اور متعین الفاظ میں اطلاع دیتے ہیں کہ اُن کی وفات سے ٹھیک ۱۷۵۰ سال بعد ’خدا کی بادشاہت‘ پوری مخلوقِ الٰہی پر نمودار ہوگی اور’خدا کی بادشاہت‘ کا یہ علم بردار غیر یہودی اقوام کو سزادے گا اور ان کے تمام بت تباہ و برباد کرے گا۔ یہ تمام باتیں محمد رسول اللہﷺ کی ذات میں حرف بہ حرف پوری ہوئی ہیں اور دنیابھر کی تاریخ کی کوئی شخصیت اس کی مصداق نہیں ۔
۳۔ جس فرعون مصر کے عہد میں بنی اسرائیل مصر کی غلامی سے چھٹکارا پانے اور مصر سے نکلنے میں کامیاب ہوئے، اس کا نام رعمِسِس دوم ہے۔ وہ ۱۲۲۴ ق م میں اسرائیلیوں کا تعاقب کرتے ہوئے ڈوب کر مرگیا ، اس کے چند سال بعد تک اسرائیلی جزیرہ نماے سینائی میں کسی مناسب ٹھکانے کی تلاش میں گھومتے رہے ۔ یہ عرصہ غالباً چار سال پر پھیلا ہوا تھا۔
۴۔ اس عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں کنعان فتح کرنے کا اشارہ دیا۔ ان کی نافرمانی پر انھیں چالیس سال کی صحرا نوردی کی سزا دی گئی ۔ چالیس سالہ صحرا نوردی کے اختتام پر حضرت موسیٰ ؑ فوت ہوگئے ۔ اس طرح ان کی وفات فرعون رعمِسِس دوم کے مرنے سے چوالیس سال بعد ہوئی۔ ۱۲۲۴ میں سے چوالیس نفی کرنے پر ۱۱۸۰ سال باقی بچے، یعنی حضرت موسیٰ ؑ کی وفات حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدایش سے ۱۱۸۰ سال پہلے واقع ہوئی۔
۵۔ مستند تاریخی حوالوں سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ رعمِسِس دوم کی موت ۱۲۲۴ ق م میں واقع ہوئی تھی۔
۶۔ کتاب’صعودِ موسیٰ‘ کے ایڈیٹر نے واضح کیا ہے کہ اس کتاب کا اصل نسخہ عبرانی زبان میں ۷ء تا ۲۹ ء کے درمیان لکھا گیا تھا۔محمد رسول اللہ ﷺیا آپؐ کے اصحابؓ میں سے کوئی شخص اپنی پیدایش سے پانچ چھ سو سال سے بھی زیادہ پہلے اس کتاب میں اپنی مرضی کی کوئی چیز شامل نہیں کرسکتا تھا۔
۷۔ حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی وفات اور اس موعود شخص کی پیدایش کے درمیان ’سی سی ایل ٹائمز‘ کا وقفہ بتایا ہے۔ زیر بحث کتاب کے ایڈیٹر نے واضح کیاہے کہ اس سے ۲۵۰ ہفت سالے (۲۵۰x۷=۱۷۵۰)یعنی ۱۷۵۰ سال مراد ہیں۔
۸۔ محمد رسول اللہ ﷺ کی پیدایش ۵۷۰ ء میں ہوئی اور حضرت موسیٰ ؑ کی وفات ۱۱۸۰ ق م میں۔ ان دونوں اعداد کو جمع کیاجائے تو مجموعہ ۱۷۵۰ بنتا ہے۔
۹۔ اس تمام تحقیقی مواد سے ثابت ہوگیا کہ موعود شخص نے حضرت موسیٰ ؑ کی وفات کے ۱۷۵۰ سال بعد پیدا ہونا ہے۔ اور تاریخ انسانی میں محمدرسول اللہ ﷺ کے علاوہ متعلقہ اوصاف کا کوئی قابلِ ذکر شخص حضرت موسیٰ ؑ کی وفات سے ۱۷۵۰ بعد پیدا نہیں ہوا۔ چنانچہ واضح دلائل سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضر ت موسیٰ ؑ نے اپنی اس آخری وصیت اور پیغام میں محمدرسول اللہ ﷺ کی آمد ہی کی اطلاع دی ہے۔
فبأیّ حدیثٍ بعدہٗ یؤمنون.
_______
30. Oxf. Bible Atlas, 3rd Edn, ed Herbert G. May (NY: Oxf. Univ. Press, 1984), 16.
31. Bernhard W. Anderson, Understanding the OT, 3rd Edn. (New Jersey: Prentice-Hall, Inc. Englewood Cliffs, 1975), in the 'Comprehensive Chronological Chart', 602.
32. John Bright, A History of Israel (London: SCM Press Ltd, Bloomsbury Street, 1967), 'Chronological Charts', 465.
33. The Interpreter\'s Dic. of the Bible, ed. George Arthur Buttrick (NY: Abingdon Press, 1962), 4:11.
34. Paul, Johnson, A Hist. of the Jews (NY: HarperPerennial, 1988), 25f.
35. New Bible Atlas, Ed. Bimson, J.J. (Leicester: Trinity College, Bristol; Kane, J.P., Univ. of Manchester, Inter-Versity Press, 1985), 38.
36. Pictorial Biblical Enc, ed. Gaalyahu, Cornfeld (NY: The Macmillan Co., 1964), 301.
37. The New Jerusalem Bible, ed. Alexander Jones (Bombay: Bombay Saint Paul Society, 1993), 81.
38. The New Jesusalem Bible ed. Henry Wans brough (london: Darton , Longman and Todd, 1990), p. 1450.
39.Max Wurmbrand and Cecil Roth, The Jewish People (NY: Adura Books 306 West 38th Street 1986), p. 13,14.
40. The New Bible Dic. 2nd ed. K.A Kitchen and T.C Miteholl ( Leicester: Inter-Varsity Press, 1982) p. 195.
۴۱ ’کتابِ مقدس‘، خروج ۱۴: ۵ تا ۱۸؛ ۲۱ تا ۲۳؛ ۲۶ تا ۲۸۔
۴۲ ’کتابِ مقدس‘ ،گنتی ۱۴: ۲۶ تا ۳۵۔
43. The New Schaff-Herzog Enc. (12 volumes), ed. Samuel Jackson Macauley (NY: Funk & Wagnalls Company, 1910), p. 436.
44. Michael H. Hart, The 100, A Ranking of thw Most Influential Persons in History (NY: Hart Publishing Co, Inc.), p. 34.
____________