جوناتھن کے بعد سائمن یہاں کا حکمران بنا۔ اس نے۱۳۹ق م میں عکرہ (Akra) پر قبضہ کرکے اسے تاخت وتاراج کیا۔ اوراُس پہاڑی کو پیوند خاک کر دیاجس پر یہ قائم تھا۔ ۱۳۵ق م میں سائمن کا بیٹاجون ہائرکینس (John Hyrcanus) ۲۷ اُس کا جانشین بنا ۔اُس نے ۱۳۵ سے ۱۰۴ ق م تک یہودیہ پر حکومت کی۔
مکابی کی اصطلاح عام طور پر میتاتھیاس( Mattathias) اور اس کے بیٹوں کے لیے استعمال ہوتی ہے، جبکہ حسمونی (Hashmonean) کی اصطلاح جون ہائرکینس (John Hyrcanus) اور اس کی اولاد کے دورِ حکمرانی (۱۳۵ ۔۶۳ ق م) کے لیے مستعمل ہے۔ ۱۳۴ ق م میں انٹیوکس ہفتم (Antiochus VII Sidetes) نے یروشلم پہنچ کر جون ہائرکینس کا محاصرہ کرلیا۔ جون ہائرکینس نے یرغمالی اور بھاری خراج دے کر اپنی جان چھڑائی۔مکینزی (McKenzie )اپنی لغتِ بائبل میں لکھتا ہے:
After the death of Antiochus VII in 128 Judea was practically independent. John ruled with the title of ethnarch and high priest. He extended Jewish rule over E Palestine and Edom, where he forced the Edomeans to submit to circumcision. He attacked Samaria and destroyed the temple of Samaritans on Mt. Gerizim. The Pharisees, alarmed at his ambitions and secular character of his rule, broke with Hasmoneans during his reign.
Aristobulus I (105-104), son of John Hyrcanus: He imprisoned his mother, to whom the sovereignty had been bequeathed by the will of John, and imprisoned his brothers except Antigonus, whom he associated with himself in government but later assassinated. Aristobulus assumed the title of king.
Alexander Jannaeus (Jonathan), brother of Aristobulus I (104-76): Salome Alexandra, widow of Aristobulus, released her brothers-in-law from prison and set Jonathan, who preferred to go by his Greek name, upon the throne. Alexander extended the Jewish kingdom, in spite of a number of setbacks, almost to the limits of the ancient kingdom of David. (...). Alexander extended his rule over Philistia (capturing it from Ptolemy Lathyrus of Egypt\'s Control) and (..) some of the Hellenestic cities. In his expansion northward in Palestine he confronted the Nabatean king Obadath, who held Damascus and halted his advance in that direction. This defeat aroused his adversaries among his own people, who summoned help from the Selucid king Demetrius III Eukairos. Demetrius invaded Judea and defeated Alexander. The defeat, however, turned the patriotism of the Jews to sympathy with Alexander; Demetrius, thus deprived of support, was forced to withdraw. Alexander revenged himself by having 800 of his Jewish captives and their wives and children executed before their eyes; he himself dined with his concubines, watching the spectacle. Antiochus XII Dionysus, the successor of Demetrius III, invaded Palestine, and Alexander was unable to resist him; but after Antiochus was defeated and killed by the Nabateans, Alexander continued his conquest in E Palestine. (...).
Salome (75-67), widow of Alexander Jannaeus: She appointed Hyrcanus II, the elder son of Alexander, high priest and recognizing the unchecked ambition of Aristobulus II, the younger son, kept him in private life. After her death the civil war between Hyrcanus and Aristobulus led each brother to seek the assistance of Pompey, then engaged in his eastern conquests. Aristobulus, however, finally refused Roman arbitration; and Pompey attacked and took Jerusalem in 63 BC. He ended the Hasmonean monarchy, detached the territories conquered by earlier Hasmonean rulers, and made Judea part of the province of Syria. 28
۱۲۸ ق م میں انٹیوکس ہفتم کی موت کے بعد یہودیہ عملاً آزادہو گیا۔ جون نے قومی حکمران اور سردار کاہن کے لقب کے ساتھ حکمرانی کی۔ اُس نے مشرقی فلسطین اورادوم تک یہودی حکمرانی کی توسیع کی، جہاں اُس نے ادومیوں کو ختنہ کی رسم اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ اُس نے سامریہ پر حملہ کیااور کوہِ جریزیم (Gerizim) پر واقع سامریوں کا ہیکل تباہ کردیا۔ فریسیوں نے اُس کی امنگوں اور اُس کی حکمرانی کے لا دینی کردار سے بدک کر اُس کے دورِ حکومت میں حسمونیوں سے اپنا رابطہ منقطع کر لیا۔
جون ہائر کینس کے بیٹے ارسطوبیولس اول (Aristobulus I) نے، جو ۱۰۵ سے ۱۰۴ ق م تک حکمران رہا، اپنی والدہ کو گرفتار کر لیا جس کے حق میں جون ہائرکینس نے حکمرانی کی وصیت کی تھی۔اُس نے انٹی گونس (Antigonus) کے سوا اپنے تمام بھائیوں کو بھی گرفتارکر لیا۔ انٹی گونس کو اُس نے اپنے ساتھ شریکِ اقتدار کر لیا، لیکن بعد میں اُس کو بھی قتل کر دیا۔ ارسطوبیولس نے بادشاہ کا لقب اختیار کیا۔
ارسطو بیولس کی بیوہ سلومی الیگزنڈرا (Salome Alexandra) نے ارسطوبیولس کے بھائی اور اپنے دیور سکندر جینیئس (Alexander Jannaeus or Jonathan) کو قید سے رہا کر کے اُسے تخت پر بٹھا دیا۔ اُس نے اپنے لیے جوناتھن کا یونانی نام اختیار کرنا پسند کیا۔ الیگزنڈر جوناتھن نے یہودی حکمرانی کو، متعدد مشکلات کے باوجود، قریباً قدیم سلطنتِ داوٗد کی حددو تک وسیع کر دیا۔ (...)۔ الیگزنڈر نے اپنی حدودِسلطنت کوبعض یونانی شہروں تک اور فلسطیہ تک، جسے اُس نے مصر کے بطلیموس لیتھائرس (Ptolemy Lathyrus)کے قبضے سے چھڑایا تھا،پھیلا دیا ۔ شمال کی طرف فلسطین میں اپنی توسیعی سرگرمیوں کے سلسلے میں اُس کو نبطیوں (Nabatean)کے بادشاہ عبودت (Obodath) کا سامنا کرنا پڑا جو دمشق پر قابض تھا۔ اُس نے اِس سمت میں جوناتھن کی پیش قدمی کو روک دیا۔ اِس شکست نے اُس کی اپنی قوم ہی میں سے اُس کے مخالفین پیدا کر دیے، جنھوں نے سیلوسی بادشاہ دیمتریئس سِوم یوکیراس (Demetrius III Eukairos) سے امداد طلب کر لی۔ دیمتریئس نے یہودیہ پر حملہ کر دیا اور الیگزنڈر کوشکست دی، تاہم اِس شکست نے یہودیوں میں جذبۂ قومیت بیدار کرکے اُن کے دل میں الیگزنڈر کے لیے ہمدردی پیدا کر دی۔ اِس طرح اُن کی مدد سے محروم ہوکر دیمتریئس کو دُم دبا کر بھاگنا پڑا۔ الیگزنڈر نے اپنے ۸۰۰ یہودی اسیروں اور اُن کے بیوی بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے تہ تیغ کرا کے اپنی آتشِ انتقام کوٹھنڈاکیااوراِس دوران میں وہ اِس منظر سے لطف اندوزہوتے ہوئے اپنی کنیزوں کے ساتھ ناؤ ونوش کے مزے لیتارہا۔ دیمتریئس سِوم کے جانشین انٹیوکس دوازدہم ڈائیونائی سس (Antiochus XII Dionysus) نے فلسطین پر حملہ کیا اور الیگزنڈر اُس کا مقابلہ نہ کر سکا، لیکن نبطیوں کے ہاتھوں انٹیوکس کے شکست کھانے اور مارے جانے کے بعد الیگزنڈر نے مشرقی فلسطین میں اپنی فتوحات جاری رکھیں۔ (...)۔
الیگزنڈر کی بیوہ سلومی (۷۵ ۔ ۶۷ ق م) نے الیگزنڈر کے بیٹے ہائرکینس دوم کوسردار کاہن مقررکیا اور اُس کے چھوٹے بیٹے ارستو بیولس دوم کی غیر محدود امنگوں کو بھانپتے ہوئے اُسے منظر عام پرنہ آنے دیا ۔ سلومی کی موت کے بعد اُن دونوں بھائیوں میں خانہ جنگی شروع ہو گئی جس کی وجہ سے ہر ایک پومپی (Pompey)سے مددکا طالب ہوا، جو اُس وقت اپنی مشرقی فتوحات میں مصروف تھا، تاہم بالآخر ارستو بیولس نے رومیوں کی ثالثی قبول کرنے سے انکار کر دیا اور پومپی نے ۶۳ ق م میں یروشلم پر حملہ کر کے اِس پر قبضہ کر لیا۔ اُس نے حسمونیوں کی حکمرانی ختم کر دی، قدیم حسمونی حکمرانوں کے مفتوحہ علاقوں کو اِس سے الگ کر دیا اور یہودیہ کو شام کے صوبے کا حصہ بنا دیا۔
یونانی حکومت کے زوال کے بعد اس مقدس سرزمین پر رومیوں کی فرماں روائی قائم ہوگئی۔ رومی دورِ حکومت میں خطۂ اسرائیل کو فلسطین (Palestine) کے نام سے موسوم کیا جانے لگا اور یروشلم شہر کو ایلیاکے نام سے۔
رومی فرماں روا پومپی ( Pompey)نے ہائرکینس ( Hyrcanus) کو سردار کاہن کے منصب پرتوبرقرار رکھا، لیکن اُسے ’بادشاہ‘ کا لقب اختیار کرنے سے منع کر دیا۔ اس نے احتراماً ہیکل کے خزانے پر کوئی دست درازی نہ کی، البتہ شہر پربہت معمولی سا ٹیکس عائد کر دیا اور شہر کی فصیل کو منہدم کرادیا، ارستوبیولس دوم ( Aristobulus II ) کو قیدی بنا کر روم منتقل کردیاگیا اور شہر رومی سلطنت کا باج گزار بن گیا۔پومپی نے احتراماً ہیکل کا جو خزانہ وغیرہ محفوظ رہنے دیاتھا، اُسے ایک لالچی رومی جرنیل کراسس (Crassus) نے۵۴ ق م میں تاخت وتاراج کر دیا۔
انٹی پیٹر (Antipater) کی مصر میں رومی بادشاہ جولیس سیزر (Julius Caesar)کے لیے گراں قدر خدمات کے عوض میں ۴۷ ق م میں اُسے ملک کا نگران مقرر کردیا گیا۔ اسی دوران میں سیزر نے ہائرکینس کو فصیل شہر کی تعمیر نو کی اجازت بھی دے دی۔ انٹی پیٹر نے اپنے بڑے بیٹے فیسیلس (Phasealus) کو یروشلم کا گورنر بنایا اور چھوٹے بیٹے ہیرڈ (Herod) کو گلیلی (Galilee) کا تخت سونپ دیا۔
جولیس سیزر نے ہائر کینس کوسردار کاہن کے طور پر برقرار رکھا ۔اس کے علاوہ اسے قومی حکمران کے اختیارات بھی تفویض کردیے۔اُس نے ہیرود کے باپ انٹی پیٹر ادومی کو اس کا وزیراعظم اور یہودیہ کا نگران مقرر کیا۔انٹی پیٹر کے قتل پر اُس کے بیٹوں ہیرود اور فیسیلس نے ہائر کینس کے ساتھ مل کر (ہائر کینس کے بھتیجے اورارسطوبیولس کے بیٹے) انٹی گونس(Antigonus) کا مقابلہ کیا۔ جس نے ایک پارتھی (Parthians) فوج کے ساتھ یروشلم پر چڑھائی کردی۔ ہیرود بچ نکلا۔
۴۰ ق م میں رومی سلطنت کی سینیٹ کے حکم سے ہیرود کو اس کے باپ کے بعد یہودیہ کے نگران کے طور پر اُس کا جانشین مقرر کر دیا گیا، لیکن اسی سال پیکورس (Pacorus) اوربرزافارنیز (Barzapharnes) کی سربراہی میں پارتھیوں نے یروشلم پر قبضہ کرکے یہاں خوب لوٹ مار کی۔ اور انٹی گونس کو دوبارہ یروشلم کی حکومت سونپ دی۔ انتھونی نے۳۷ ق م میں ہیرودکو یہودیہ کا حاکم مقرر کردیا ۔ اس نے پانچ ماہ کے محاصرے کے بعد یروشلم کو فتح کرلیا۔ انتھونی کے حکم پر انٹی گونس کو قتل کردیاگیا۔ ہیرود نے حسمونی سرداروں کو، یہودیوں کی فقہی کونسل (Sanhedrim) کے تمام اراکین کو، اوربالآخر آخری حسمونی سردارہائر کینس کوبھی قتل کردیا ۔
ہیرود کا سب سے نمایاں کارنامہ ہیکل کو نئے سرے سے اس کی اصل بنیادوں سے تعمیر کرنا تھا۔ اس کی تعمیر نو کے کام کا آغاز۱۹ یا۲۰ ق م میں ہوا۔ قریباً ایک ہزار خصوصی طور پر تربیت یافتہ کاہنوں کی مدد سے اس مقدس عبادت گاہ کی تعمیر۱۰ یا۱۱ ق م میں مکمل ہوئی۔ ہیکل سے متصل ایوان کی تعمیر۹ ق م میں پایۂ تکمیل کو پہنچی، تاہم ہیکل کی تعمیر کی حتمی تکمیل ہیرود اگرپا دوم (Herod Agrippa II) اور نگران حکمران البائینس (Albinus)کے زیرانتظام ۶۳ء یا ۶۴ء میں ہوئی۔ ہیرود اول نے قدیمی فصیل پرچار عظیم برج بھی تعمیر کیے تھے۔ ۴ ق م میں ہنگامے شروع ہو گئے اور تھوڑے عرصے بعد ہی ہیرود اول فوت ہوگیا۔ اس کا انتقال حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدایش کے چند مہینے بعد ہواتھا۔ حضرت یسوع مسیح علیہ السلام کی پیدایش ۱ ۔ ۵ عیسوی کے دوران میں کسی وقت ہوئی تھی۔ آپ کی وفات کے متعلق فوسٹ کی لغاتِ بائبل میں درج ہے :
At the Passover A.D. 30 our Lord\'s crucifixion and resurrection took place. 29
سن ۳۰ عیسوی میں عید فصح کے موقع پر ہمارے خداوند کی سولی اور قیامت کا واقع رونما ہوا تھا۔
رومی بادشاہ کیلیگولا ( Caligula) ۳۰ نے حکم دیا کہ ہیکل میں اس کا مجسمہ تعمیر کیا جائے۔ یہود نے اس مشرکانہ حرکت کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ بالآخر اگرپا (Agrippa)کی مداخلت کے نتیجے میں کیلیگولااپنا حکم واپس لینے پر راضی ہوگیا۔ ۴۵ عیسوی میں فلسطین شدید قحط سالی کا شکار ہوگیا جو قریباً دو سال تک جاری رہا۔
رومی بادشاہ جیسیس فلورس ( Gessius Florus) نے اہل یہودیہ کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس نے تمام شہروں کو تاخت و تاراج کرایا اور لٹیروں کو بلا خوف عقوبت تمام جرائم کی کھلی چھٹی دے دی۔ اس نے ہیکل سے بھی خزانہ لوٹنے کی کوشش کی، لیکن شہر کے بالائی حصے کی لوٹ مار کے بعداس میں ناکام رہا۔ انانیاس (Ananias)کے جواں سال بیٹے الیعزر ( Eleazer) کے زیر قیادت اہل یہودیہ کے ایک گروہ نے رومی بادشاہ کو باقاعدہ نذرانے پیش کرنے سے انکار کردیا۔ ان کایہ انکار دراصل رومیوں کی وفا داری سے انکار کے مترادف تھا۔ اس بغاوت کے نتیجے میں رومیوں کی آخری جنگ کا آغاز ہوگیا۔ باغیوں نے اپنی مسلح بغاوت کا آغاز ہیکل اور شہر کے نشیبی علاقے سے کیا۔ انھوں نے ’شہر کے حساس اور اعصابی مراکز‘ یعنی حسمونی محل،سردار کاہن کی رہائش گاہ اور سرکاری دستاویزات محفوظ کرنے کی جگہ کو نذرِ آتش کردیا۔ انھوں نے رومی فوجی دستوں کو قتل کردیا اور انطونیا کو جلا دیا۔ سردارکاہن اور اس کے بھائی کی لاشیں پانی فراہم کرنے والی گزرگاہ سے ملیں۔
کیسٹیس گیلس (Cestius Gallus) شہر پر حملہ آور ہوا، لیکن اسے ہیکل کی شمالی دیوار کے قریب سے سکوپس (Scopus) کی طرف واپس ہٹنا پڑاجہاں اُسے نومبر ۶۶ء میں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔کیسٹیس گیلس کی پہلی پیش قدمی اور پسپائی نے عیسائیوں کو فرار ہونے کا موقع فراہم کیا، جیساکہ حضرت مسیح علیہ السلام نے انھیں مشورہ دیا تھا کہ ’جب تم یروشلم پر فوجوں کا ہجوم دیکھو تو جو لوگ بھی یہودیہ میں ہوں وہ پہاڑوں کی طرف فرار ہو جائیں‘ (متی ۲۴: ۱۶)۔ جب تک اکتوبر یا نومبر ۶۷ ء میں گستالہ (Gistala) فتح نہیں ہو گیا، ویسپیسین (Vespasian) شمالی علاقوں کو زیرِ نگیں کرنے میں مصروف رہا۔ لاوی کا بیٹا جون بچ کر یروشلم کی طرف فرار ہو گیا۔اڑھائی سال بعد (۷۰ ء میں) ٹائیٹس (Titus) نے محاصرہ شروع کر دیا۔ اُس وقت پرجوش گروہ معتدل مزاج گروہ پر غالب آ چکا تھا۔ پر جوش اور انتہا پسندوں کے دو گروہ تھے: ایک گروہ جون آف جسکالہ(John of Giscala) اور الیعزر کے ماتحت تھا جو ہیکل اورانطونیا پر قابض تھااور اِس میں ۸۴۰۰ لوگ تھے۔ دوسرا گروہ شمعون برجیعورس (Simon Burgioras) کی سربراہی میں برج پر متعین تھا، بالائی شہرکینا کولم (Coenaculum) سے لاطینی کونونٹ تک اور زیریں شہر کی وادی اور ہیکل کے شمال میں عکرہ اُس کے قبضے میں تھے۔ یہ دس ہزار(یہودی) افراد اور پانچ ہزار ادومیوں پر مشتمل تھا۔ اجنبی اور حجاج کی تعداد بڑھ کر چھ لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔ جوزیفس کہتا ہے کہ اس محاصرے میں دس لاکھ افراد کام آئے اور چالیس ہزارکو دیہاتی علاقوں کی طرف جانے دیا گیا۔ اِس کے علاوہ ایک بڑی تعداد فوج کے ہاتھوں فروخت کر دی گئی۔ پوری جنگ کے دوران میں ستانوے ہزار لوگوں کو اسیر بنا لیا گیا، لیکن یہ تعداد مبالغہ آرائی پر مشتمل نظر آتی ہے۔۳۱
۷؍ ستمبر ۷۰ء کو یروشلم پر ویسپیسین (Vespasian) کے بیٹے ٹائیٹس (Titus) نامی رومی جرنیل کا قبضہ ہو گیا۔ رومی سپاہیوں نے شہر کو نذرآتش کر دیااور تیسرے ہیکل(Herode\'s Temple) کا اکثر حصہ تباہ و برباد کر دیا ۔ صرف ایک دیوار گریہ (Wailing Wall)کھڑی رہنے دی گئی۔ رومیوں نے یہودیوں کی کہانتِ اعلیٰ اور فقہی کونسل (Sanhedrin) کا خاتمہ کردیا۔
اس وقت شہر اپنے باشندوں کی شدید باہمی آویزشوں کی وجہ سے سراسیمگی کی حالت میں تھا۔ جنگجو یہودیوں کے ایک گروہ کے سربراہ سائمن نے شہر کے بالائی اور زیریں حصوں پر اپنا قبضہ مستحکم کر لیا تھا، جبکہ جون آف جسکالہ نے ہیکل اوراوفیل ( Ophel) کو اپنا مرکز بنالیا۔ ادومی (Idumeans)،جو انتہا پسند یہودی گروہ (Zealots) کے پروردہ تھے، محض اپنے دفاع کے لیے برسر پیکار رہے، تاہم اہل یہود کے ایک نسبتاً کمزور گروہ نے فاتح رومی افواج کے ساتھ مفاہمت کا رویہ اپنایا۔ اگر بروقت یہی رویہ رومی جرنیل ٹائیٹس کے ساتھ روا رکھا جاتا تو غالب امکان یہی ہے کہ ٹائیٹس ایسی بربریت اور غم و غصے کا مظاہرہ نہ کرتا۔ محاصرے کی صعوبتیں اورجانی ومالی نقصانات جتنے فاتحین کے ہاتھوں ہوئے تھے، اتنے ہی خود یہودیوں کے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ تھے۔ محاصرے کے پندرھویں دن ’اگرپا‘کی تعمیر کردہ تیسری دیوار پر رومی قبضہ ہوگیا۔ محاصرے کے چوبیسویں دن شہر کی دوسری دیوار بھی رومیوں کے قبضے میں آگئی۔ بہترویں دن ہیکل سے متصل انطونیا کا قلعہ بھی یہودیوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔ سقوطِ انطونیا کے بارھویں دن ہیکل کے دامن میں قربان گاہ پر قربانی کی رسم کا خاتمہ ہو گیا۔ ۱۰۵ دن بعد ہیکل اور زیریں شہر کو جلا دیا گیا اوربعد میں پورا شہر ہی نذرِ آتش کردیا گیا۔
تمام شہر اور ہیکل مکمل طور پر تباہ وبرباد کردیے گئے۔ صرف بالا ئی شہر کی مغربی دیواراور ہیرود اعظم کے تعمیر کردہ تین عظیم برج ہی اس تباہی کے چشم دید گواہ کے طور پر قائم رہے۔ یہ تباہی صرف عمارتوں تک ہی محدود نہ رہی، بلکہ شہر میں مقیم بوڑھے اور کمزور تہ تیغ کردیے گئے۔ سترہ سال سے کم عمر کے بچے غلام بنا کر فروخت کردیے گئے۔ باقی ماندہ افراد کو مصر کی کانوں ، روم اور دیگر مقامات کی تماشا گاہوں میں خوں خوارجانوروں سے لڑائی کے تماشے کا حصہ بننے کے لیے بھیج دیا گیا۔ رومی افواج کی مشہورِ زمانہ دسویں لجن (10th Legion) نے شہر کو اس انداز سے کھود کر ہموار کر دیا اوراس طرح اپنے ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا کہ یروشلم آنے والا کوئی شخص یہ باور نہ کر پاتا تھا کہ یہ شہر کبھی آباد بھی رہا ہو گا۔ شہنشاہ ہیڈرین (Hadrian) نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیشین گوئی کے مطابق اس شہر کے بچے کھچے کھنڈروں کو بھی بالکل مسمار کردیا۳۲ اور ہیکل کی بنیادوں کو کھدوا کر اس کا نام و نشان ہی مٹادیا۔
اس تباہی کے ساٹھ سال بعد تک یروشلم شہرِ خموشاں کا منظر پیش کرتا رہا۔ یہاں محافظ فوج تو بھیجی جاتی رہی، البتہ اس کی تعمیر نو پر بالکل توجہ نہ دی گئی، ۱۳۰ء میں رومی شہنشاہ ہیڈرین نے یہاں کا دورہ کیا اور اسے صرف چند ہی عمارتیں کھڑی نظر آئیں۔ دو سال بعد (۱۳۲ ء ۔ ۱۳۵ء) یہودیوں کی آخری او ر عظیم بغاوت برپا ہوئی۔ اس بغاوت کا روح رواں بار کوکبہ (Bar Kokeba) تھا جسے مشہور مذہبی پیشوا ربی عقیبہ( Rabbi Akiba) کی سرپرستی حاصل تھی، تاہم یہ بغاوت بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکی اور رومی جرنیل جولیس سیویرس ( Julius Severus) کے ہاتھوں یہود کی آزادی کی آخری کوشش کے خاتمے کے ساتھ ہی یہودیت کے باقی ماندہ آثار بھی مٹ گئے، بلکہ یہاں تک کہاجاتا ہے کہ ٹی۔ اینیئس روفس (T. Annius Rufus) نے ہیکل کے مقام پر ہل چلا کراسے برابر کردیا۔ بعدازاں ہیکل کے مقام پر زحل ( Jupitar)دیوتا سے منسوب ایک قربان گاہ تعمیر کردی گئی اور یہودیوں کو اس شہر سے بے دخل کردیا گیا۔
۱۳۸ء میں ہیڈرین نے شہر کو ازسرنو تعمیر کیا اور شہر کا نام یروشلم کے بجاے ایلیاکیپیٹولینا (Aelia Capitolina) رکھا۔ ہیکل کے قدس الاقداس (Holy of Holies)کی جگہ پر ہیڈرین کا گھوڑے پر سوار ایک مجسمہ ایستادہ کردیا گیا۔ یا تو بذاتِ خود ہیڈرین نے، یا انطونی حکمرانوں میں سے کسی نے، شمال مغربی پہاڑی کے مقام پر زہرہ (Venus) دیوی کا ایک معبد تعمیر کیا۔ جہاں بعد میں مشہور کلیسیاے مقدس سیپلکر (Church of Holy Sepulchre) تعمیر کیا گیا۔ لگتا یہ ہے کہ ان مقدس مقامات کی زیارت کی روایت غالباً اسی دوسری صدی عیسوی میں شروع ہوئی جو اگلی دو صدیوں کے دوران میں خوب رواج پا گئی۔
’ انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ بائبل انسائیکلوپیڈیا‘ لکھتا ہے:
In 362 Julian is said to have attempted to rebuild the temple, but the work was interrpted by an explosion. The story is doubtful. 33
ایک قول کے مطابق ۳۶۲ء میں جو لین نے ہیکل کی تعمیر نو کی کوشش کی، لیکن ایک (ناگہانی) دھماکے کی وجہ سے (تعمیر نوکا)کام منقطع ہو گیا۔ یہ روایت مشکوک ہے۔
’فاسیٹس بائبل ڈکشنری‘ (Fausset\'s BD)نے ان واقعات کو درج ذیل الفاظ میں بیان کیاہے:
In the apostate Julian\'s reign the Jews at his instigation attempted with great enthusiasm to rebuild the temple; but a whirlwind and earthquake shattered the stones of the former foundation, and a fire from the temple mount consumed their tools. Ammianus Marcellinus (23:1), the emperor's friend, attests the fact. Providence baffled Julian's attempt to falsify Christ's words. 34
جو لین کی مشرکانہ حکومت میں یہودیوں نے اس کی تحریک پر نہایت جوش و خروش سے ہیکل کو تعمیر کرنے کی کوشش کی، لیکن ہوا کے ایک طاقت ور بگولے اور زلزلے نے پہلے سے موجود بنیادوں کو بھی درہم برہم کر دیا۔ ہیکل کے احاطے سے بلند ہونے والی آگ نے ان کے اوزاروں کو جلا کر راکھ کر دیا۔ شہنشاہ (جولین)کا دوست امیانس مارسیلنس (Ammianus Marcellinus) ان واقعات کی تصدیق کرتا ہے۔ منشاے ایزدی نے جولین کی جانب سے مسیح کی پیشین گوئی کو جھٹلانے کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔
’انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ بائبل انسا ئیکلوپیڈیا‘میں مذکور ہے:
The site of the temple itself appears to have remained in ruins down to the seventh century. 35
لگتا یہ ہے کہ بذاتِ خود ہیکل کی جاے وقوع ساتویں صدی تک کھنڈرات کی صورت میں برقرار رہی۔
۶۱۴/۶۱۵ء میں فارس کے بادشاہ خسرو دوم (Chosroes II) نے فلسطین فتح کرلیا۔ یہ واقعہ محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت کے مکی دور اور قیصرِ روم ہِرَقل کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔ قرآنِ مجید کی سورۂ روم میں اس واقعے کے تناظر میں ایک اہم پیشین گوئی کی گئی ہے۔ یہ معجزانہ طور پر حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ اس کا تفصیلی مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں۔ اس کے لیے ملاحظہ کیجیے مولانا وحید الدین خان، علم جدید کا چیلنج(کراچی:مجلس نشریات اسلام) ۱۹۸۴ء، صفحات ۱۹۸ ۔ ۲۱۱؛ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن(لاہور: سروسز بک کلب)،۱۹۸۷ء، جلد۳،صفحات ۷۲۴۔ ۷۲۸ (تعارف سورۂ روم)۔خسرو نے یروشلم کو تباہ کردیا اورہولی سپلکر چرچ کو زمین بوس کرنے کے بعد اِس میں محفوظ اُس اصل صلیب کوبھی مالِ غنیمت کے طور پر اپنے ساتھ لے گیا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اسی صلیب پر سزاے موت دی گئی تھی۔ خسرو نے اس پیش قدمی میں ہزاروں مذہبی اور روحانی پیشواؤں کو قتل کیا۔ یہ تمام واقعات روم کی عیسائی سلطنت کے لیے انتہائی شرم ناک تھے۔ انھوں نے ذلت کا یہ داغ دھونے کے لیے خوب تیاری کی اور جوابی حملہ کیا۔
یروشلم پر رومیوں کے ایک مرتبہ پھر قبضے کے متعلق ’انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ بائبل انسا ئیکلوپیڈیا‘ رقم طراز ہے:
In 629 Heracleus, (...), reached Jerusalem in triumph, bearing back the captured fragment of the cross, (...). The triumph of Christendom was but short. Seven years earlier had occured the historic flight of Mohammad from Mecca (the Higira), and in 637 the victorious followers of the Prophet appeared in the Holy City. After a short siege, it capitulated, but the Khalif [or 'khalifah'?] Omar treated the Christians with generous mercy. The Christian sites were spared, but upon the temple-site, which up to this [time] had apparently been occupied by no important Christian building but was of peculiar sanctity to the Moslems through Mohammad\'s alleged visions there, a wooden mosque was erected, capable of accommodating 3,000 worshippers. 36
۶۲۹ء میں ہرقل(...) فاتحانہ انداز سے چھینی ہوئی صلیب کا ٹکڑا اٹھائے یروشلم میں داخل ہوا۔ (...)۔ مسیحیت کی یہ فتح بہت قلیل عرصے پر محیط رہی۔ سات سال قبل ہی [حضرت] محمد [ﷺ]کی مکہ سے[مدینہ کی جانب] ہجرت کا عظیم واقعہ پیش آیا تھا۔ ۶۳۷ء میں پیغمبر کے پیروکار فاتحانہ انداز سے شہر یروشلم میں داخل ہوئے۔ ایک مختصر محاصرے کے بعد انھوں[اہلِ شہر] نے ہتھیار ڈال دیے، لیکن خلیفہ[ حضرت] عمر[رضی اللہ تعالیٰ عنہ] نے مسیحیوں کے ساتھ نہایت فراخ دلانہ رحم دلی کا سلوک کیا۔ مسیحی مقدس مقامات کو نقصان نہ پہنچایا گیا ۔ ہیکل کے مقام پر اس وقت تک کوئی قابل ذکر مسیحی عمارت موجود نہ تھی، لیکن یہ مقام مسلمانوں کے لیے اس وجہ سے خصوصی تقدیس کا حامل تھا، کیونکہ اِس جگہ کا [حضرت] محمد [ﷺ] کے سفرِ معراج سے تعلق مشہور تھا، اِس لیے اُس جگہ لکڑی کی ایک مسجد تعمیر کی گئی، جس میں قریباً تین ہزار اشخاص عبادت کر سکتے تھے۔
حضرت عمرؓ کی پیش قدمی کی بابت ’فاسیٹس بائبل ڈکشنری‘ میں درج ہے:
Caliph Omar (637 A.D.) took the city from the Patriarch Sophronius, who said, 'Verily, this is the abomination of desolation spoken of by Daniel the prophet, standing in the holy place.' Christians were allowed liberty of worship. 37
(۶۳۷ء میں) [حضرت] عمرؓ(خلیفہ ثانی)نے اسقفِ اعظم سفرانیئس(Patriarch Sophronius) سے شہرکی چابی وصول کی۔ [اس موقع پر] سفرانیس نے کہا :’یقیناًیہ وہ مذموم بے کسی ہے جس کا دانیال نبی نے اس مقدس مقام پر کھڑے ہو کر ذکر کیا تھا۔‘ مسیحیوں کو اپنی عبادت کی انجام دہی کی مکمل آزادی دے دی گئی۔
ڈاکٹر طارق السویدان نے فلسطین پر اپنی معروف کتاب میں اس واقعے کو درج ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے:
جب اسقفِ اعظم[سفرانیئس] نے یہ منظر دیکھا تو وہ بہت متاثر ہوا اور [اس کے دل میں] اسلام کی عظمت کا نقش اور زیادہ گہرا ہو گیا۔ اس نے اپنے ہم وطنوں سے کہا کہ زمین پر کوئی بھی اس قوم کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اپنی جانوں کو نجات دلانے کے لیے ان کے سامنے سر تسلیم خم کر دو۔ فریقین کے درمیان ایک معاہدہ لکھا گیا۔ [حضرت] عمر نے ان کو شہر میں حفاظت اور سلامتی عطا کی۔ انھوں نے اس بات کی ضمانت دی کہ ان کی عبادت گاہیں، کلیسیا اور مقدس مقامات کو چھوا جائے گااور نہ تباہ کیا جائے گا۔ یوں اس شہر نے اپنی تاریخ کے سب سے رحم دل فاتح [کے رحم] کا مظاہرہ دیکھا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اس مقدس شہر کی تاریخ میں جب کسی فاتح نے یہاں غلبہ حاصل کیا، اس نے اسے مکمل طور پر تباہ کر دیا اور اس کے باشندوں کو تہِ تیغ کر دیا۔۳۸
ڈاکٹر طارق مزید لکھتے ہیں:
اس معاہدے کے بعد مقدس شہر کے دروازے[حضرت] عمرؓ بن خطاب کے لیے کھول دیے گئے اور آپ اس میں داخل ہو گئے۔ آپ نے شہر کا دورہ کیا۔ جب آپ کلیسیا ے مقدس سپلکر کے نزدیک پہنچے تو اذان کی آواز بلند ہوئی۔ اسقف اعظم نے آپ سے کہا کہ یہیں کلیسیا ہی میں نماز ادا فرمالیں۔[حضرت] عمرؓ نے اس سے کہا:’نہیں، اگر میں نے اس جگہ نماز ادا کی تو ہو سکتا ہے کہ بعد کے زمانے میں مسلمان تم سے یہ جگہ چھین لیں۔ ‘یہ کہہ کر آپ نے (دوسرے مقام پر) نماز ادا فرمائی۔ (....)۔ [حضرت] عمرؓ مسجد اقصیٰ کی تلاش میں شہر میں گھومتے رہے، لیکن اُسے تلاش نہ کر سکے۔[بالآخر]آپ نے اسقف اعظم سے [اس کی بابت] دریافت فرمایا۔ اس نے پوچھا: ’کیایہ وہ [مقام] تو نہیں جو یہودیوں کے لیے مقدس ہے۔‘[حضرت] عمرؓ نے اِثبات میں جواب دیا۔ وہ آپ کو اس مقام کی جانب لے گیا۔ وہاں آپ نے دیکھا کہ مسیحیوں نے [اہل یہود سے نفرت کے باعث] اس مقام کو جاے غلاظت بنا رکھا ہے۔ [حضرت] عمرؓ نے اپنی آستین چڑھائی اور اس جگہ کی صفائی کرنے لگے۔ مسلمان سرداروں اور فوجی دستوں نے جب یہ دیکھا تو سب مل کر اس مقدس مقام کی صفائی میں مصروف ہوگئے۔ (...)۔ بعد ازاں [حضرت] عمرؓ نے اپنا جبہ اتارا اور [اسے بچھا کر] اس پر نماز ادا کی اور اسے وہیں پڑا رہنے دیا۔[معراج کے موقع پر] پیغمبر اسلام [محمد ﷺ]کی مسجد اقصیٰ میں نماز کے بعدوہاں کسی مسلمان کی یہ پہلی نماز تھی۔ (...)۔ آلایشوں اور گندگی کے ڈھیر ہٹانے کے بعد[حضرت] عمرؓ نے اس مقام پر مسجد الاقصیٰ کی تعمیر شروع کرنے کا حکم دیا۔(...) ۔۳۹
حضرت عمرؓبن خطاب کے ہاتھوںیروشلم شہر کی فتح کے دو سال بعد (قریباً ۶۴۰ء میں) حضرت امیر معاویہؓ کو ملک شام اور فلسطین میں موجود اسلامی فوج کا سپہ سالار مقرر کردیا گیا۔ انھوں نے قریباً چالیس سال اس علاقے پر حکمرانی کی، ابتدائی مرحلے میں بطور عامل (Governor) اور بعد ازاں بطور خلیفہ۔ ذیل میں’ انسا ئیکلوپیڈیا آف اسلام‘ سے بعض دیگر اہم واقعات پیش کیے جاتے ہیں:
During the long rule of Mu'awiya, the Muslim place of worship on the Temple area, approximately described by Bishop Arculfus in ca. 680 must have taken shape. (...) Mu\'awiya built the Muslim sanctuary there "after 'Umar". It stands also to reason that the plan for erection of the Dome of the Rock, which needed immense preparations, was made during the protracted and orderly rule of Mu\'awiya. The inscription in the dome bears the year 72/691-2, but the beginning of 'Abd al-Malik reign (65-86/685-705) was extremely turbulent. 'Abd al-Malik had good reasons to make efforts towards the completion of the building, which would show him as the great champion of Islam, but the early years of his caliphate were hardly suited for both conceiving such an enormous undertaking and carrying it out to its very end during a comparatively short period. Contrari-wise Mu'awiya is known also by his extensive buying and building activities in Mecca, in which he was not followed by later Umayyads. (....).
The real urge for the erection of the Dome of the Rock on the site where it stands and in the form which it has, was religious, in addition, of course, to the natural acculturation of the Arabs to an environment, where magnificent edifices were the eloquent witnesses of a triumphant Church and of great rulers. (....).
The end of Umayyad rule was for Jerusalem (ca. 750 AD), (...), a period of great tribulations. In the wake of a rebellion against the last Umayyad Marwan II, the walls of Jerusalem were pulled down and its inhabitants punished. Earthquakes aggravated the situation. 40
احاطۂ ہیکل میں مسلمانوں کی عبادت گاہ کا حتمی تعین، جیسا کہ بشپ آرکلفس ( Bishop Arculfus) نے قریباً ۶۸۰ء کے دوران میں اندازاً بیان کیا ہے،[حضرت] معاویہ کے طویل دورِ حکمرانی میں ہو گیا تھا۔ (...)۔ [حضرت] معاویہ نے [حضرت]’عمرکے تتبُّع میں‘وہاں مسلمانوں کی مقدس عبادت گاہ تعمیر کی۔ یہ بات بھی قرین قیاس ہے کہ قبۃ الصخریٰ، جس کی تعمیرکا منصوبہ طویل توجہ اور تیاری کا متقاضی تھا، [حضرت] معاویہ کے طویل اور منظم دور حکمرانی ہی میں پایۂ تکمیل کو پہنچ سکتا تھا۔ قبہ میں موجود ایک کتبے پر سال [تعمیر] ۷۲ھ/۶۹۱ء ۔۶۹۲ء درج ہے۔ عبدالملک کا عرصۂ حکمرانی (۶۵ھ ۔۸۶ ھ/ ۶۸۵ء ۔ ۷۰۵ء) بہت پرآشوب تھا۔ عبدالملک کے لیے خود کو اسلام کاعظیم ہیرو ثابت کرنے کے لیے یہ بہت اہم موقع تھا کہ وہ اس عمارت کی تکمیل کے لیے پوری کوشش کرے، لیکن اس کی خلافت کے ابتدائی سال اس بات کے لیے قطعاً سازگار نہ تھے کہ وہ نسبتاً ایک تھوڑے وقت میں ایسی عظیم ذمہ داری کے متعلق سوچے اور اُس پر عمل درآمد کرکے اُسے پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔ اس کے بر عکس [حضرت]معاویہ مکہ میں تعمیری اشیا کی بڑی مقدار میں خریداری اور تعمیراتی سرگرمیوں کی وجہ سے مشہور تھے۔ اس معاملے میں بعد کے اموی خلیفہ ان کی پیروی نہ کر سکے۔ (...)۔
قبۃ الصخریٰ جس حالت میں اور جس مقام پر تعمیر ہوا، اس کی بنیاد میں مذہبی داعیہ موجود تھا۔ مزید براں یہ یقیناًاس ماحول میں عربوں کے تہذیبی نفوذ کے لیے ایک اہم کاوش تھی جہاں [مسیحیوں کے] عظیم حکمرانوں اور ایک فاتح کلیسیا کی کامیابیوں کی شہادت کے طور پر بڑی بڑی عظیم الشان عمارتیں قائم تھیں۔ (....)۔
یروشلم کے لیے اموی خلافت کے آخری ایام [قریباً ۷۵۰ء] بڑے پر آشوب تھے۔ آخری اموی حکمران مروان ثانی کے خلاف بغاوت کے آغاز میں یروشلم کی فصیلیں مسمار کر دی گئیں اور اس کے باشندوں کو سخت سزائیں دی گئیں۔ زلزلوں نے اس صورت حال کو مزید نا گفتہ بہ بنا دیا تھا۔
ڈاکٹر طارق السویدان لکھتے ہیں:
عبدالملک بن مروان نے مسجد اقصیٰ کی مکمل تعمیر کا آغاز کیا اور قبۃ الصخریٰ نامی ایک عظیم عمارت بنوائی۔ (....)، لیکن عبدالملک اس عمارت کی تکمیل سے پہلے ہی انتقال کر گیا۔ اس کی وفات کے بعد اس کے بیٹے الولید نے اسے مکمل کیا۔۴۱
مسجدِ عمر اَب بھی مسجدِ اقصیٰ کے جنوب مشرقی کونے پر واقع ہے۔ سلیمان بن عبد الملک نے، جبکہ وہ ابھی ولی عہدِ سلطنت ہی تھا، صوبہ فلسطین کے دارالحکومت کے طور پر رملہ۴۲ کی تعمیر شروع کرا دی تھی۔
اموی دور کے خاتمے کے بعد ۷۵۰ء سے ۹۶۹ء تک یروشلم پر عباسی خاندان کی حکومت قائم رہی۔ ۸۷۰ء میں بطریق تھیودوسیس (Patriarch Theodosius) نے اس بات پر مسلمانوں کی تعریف کی کہ انھوں نے مسیحیوں کو کلیسیا تعمیر کرنے اور بغیر کسی ظلم وتشدد کے اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت دی تھی۔
۹۶۹ء سے۱۰۹۹ ء تک یروشلم فاطمیوں، ترکمانوں اور سلجوقیوں کے زیر اقتدار رہا۔ فوسٹ اپنی لغت میں لکھتا ہے:
The crusaders [laid siege on June 6, and] took Jerusalem in A.D. 1099, July 15th, and it remained in Christian possession 88 years, [until] Saladin retook it in 1187. 43
صلیبی جنگجوؤں نے [۶؍ جون کو شہر کا محاصرہ کیا] اور۱۵؍جولائی۱۰۹۹ء میں یروشلم پر قبضہ کر لیا۔ اور مسیحیوں کا یہ قبضہ۸۸ سال تک برقر ار رہا [حتیٰ کہ] صلاح الدین نے اسے۱۱۸۷ء میں دوبارہ واگزار کر ایا۔
’انسا ئیکلوپیڈیا آف اسلام‘ میں بیان کیا گیا ہے:
The massacre of the Muslims and the Jews in the town was perpetrated out of military and religious considerations alike. (....). There was a gruesome bloodbath, no doubt. (...). Jerusalem became a Christian city, where no Muslim or Jewish cult was permitted and no non-Christian could take residence permanently. The mosques were turned into churches or used as secular buildings. The newly-founded kingdom was appropriately called the kingdom of Jerusalem, since the conversion of the Holy City into a Christian sanctuary had been the purpose of its erection. (...). Jerusalem remained closed to Muslims and Jews, but, in the course of time, they were permitted to come there for business and prayer. (...).
After the decisive victory of Hattin (July 1187), Saladin advanced towards Jerusalem and laid siege on the city. After prolonged negotiations, in which the defenders threatened to kill the Muslim prisoners and all non-combatants, to burn all the valuables and to destroy the buildings on the Haram al-Sharif, an agreement was reached in November 1187, which permitted the inhabitants to ransom themselves after surrender. Only the Eastern Christians remained, and Jerusalem soon assumed the character of a predominantly Muslim city. (....). The influx of Learned Jews from France attested for the period ca. 1210-15 in both literary texts and Geniza letters proves that Ayyubid rule at that time must have had a reputation of an orderly government able to guarantee the safety of foreigners. (...). The Khwarazmians over-ran Syria and Palestine, took Jerusalem in August 1244 and plundered and murdered in the town, desecrating the Holy Sepulchre and other churches. 44
شہر میں مسلمانوں اور یہودیوں کے قتل عام کے پیچھے مذہبی اور دفاعی تحفظات یکساں طور پر کارفرما تھے۔ (....)۔ بلاشبہ ہولناک خوں ریزی کا بازار گرم کیا گیا۔ (...)۔ یروشلم [اس تباہی کے نتیجے میں مکمل طور پر] مسیحی شہر بن گیا۔ یہاں کسی مسلمان یا یہودی کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کی اجازت نہ تھی اور کوئی بھی غیر مسیحی وہاں مستقل رہائش اختیار نہیں کر سکتا تھا۔ مساجد کو کلیسیاؤں میں تبدیل کر دیا گیا۔ انھیں دنیاوی ضرورت کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ یہ نئی قائم شدہ [مسیحی] بادشاہت بجا طور پر سلطنت یروشلم کہلائی جانے لگی، کیونکہ اس سلطنت کے قیام کا اصل مقصد ہی اس مقدس شہر کو مسیحی مقدس مقام میں تبدیل کرناتھا۔ (...)۔ [جو شہر یہودیوں اور مسلمانوں ہی کا شہر تھا] اب اس میں یہودیوں اور مسلمانوں کا داخلہ ممنوع قرار پایا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انھیں یہاں صرف عبادت اور کاروبار کی غرض سے آنے کی اجازت دے دی گئی۔ (...) ۔
(جولائی ۱۱۸۷ء میں) حطین کی فیصلہ کن فتح کے بعدصلاح الدین ایوبی نے یروشلم کی طرف پیش قدمی کی اور شہر کا محاصرہ کر لیا۔ طویل گفت وشنید کے بعد نومبر ۱۱۸۷ء میں ایک معاہدہ طے پایا جس میں وہاں کے باشندوں کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ ہتھیار ڈالنے کے بعد معاوضہ دے کر اپنے آپ کو آزاد کرا لیں۔ اس گفت وشنید میں زیر محاصرہ مسیحیوں نے مسلمان قیدیوں اور تمام غیر محاربین کو قتل کرنے، تمام قیمتی اشیا کو نذر آتش کرنے اور حرم الشریف کی تمام عمارتوں کو تباہ وبرباد کرنے کی دھمکی دی تھی۔ صرف مشرقی مسیحی ہی شہر میں باقی رہ گئے اور یروشلم نے جلد ہی غالب طور پر ایک مسلمان شہر کی حیثیت اختیار کر لی۔ (...)۔ فرانس سے آنے والے بکثرت یہودی علما نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ قریباً ۱۲۱۰ء۔ ۱۲۱۵ء کے بارے میں ادبی متون اور جنیزہ (Geniza) کے خطوط دونوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اُس دور کی ایوبی حکمرانی کی شہرت ایک منظم سلطنت کی تھی جو غیر ملکیوں کے تحفظ کی ضمانت دینے کی پوری صلاحیت رکھتی تھی۔ (...)۔ خوارزمیوں نے فلسطین اور شام کو تاخت وتاراج کیا، اگست ۱۲۴۴ء میں یروشلم پر قبضہ کر لیا، شہر میں لوٹ مار اور قتل وغارت کا بازار گرم کیا، کلیسیاے مقدس سپلکر اور دوسرے کلیسیاؤں کی بے حرمتی کی ۔
________
۲۷ جون ہائرکینس یا یوحانن (John Hyrcanus or Johanan: 135-140 BC ) جو شمعون مکابی (Simon Maccabeus) کا بیٹا تھا، ہیکل کا سردار کاہن اور حسمونی(Hasmonean) خاندان کا ایک شہزادہ تھا۔ وہ عقل مند اور منصف مزاج حکمران اور ماہر جنگجو تھا۔
28. John L. McKenzie, Dic. of the Bible (1984), 340.
29. A. R. Fausset, Bible Dic. (Albaney: AGES Software, Version 1.0, 2000), 2:434.
۳۰ کیلی گُولا(Caligula) جو قیصر اوگسٹس (Caesar Augutus) کے نام سے مشہور ہے ، سلطنت روم کا تیسرا بادشاہ تھا۔ وہ ۳۱ ؍ اگست ۱۲ء میں پیدا ہوا اور ۲۴؍ جنوری ۴۱ ء کو روم میں قتل ہوگیا۔ اس کی یہودی بادشاہ اگرپا ( Agrippa) کے ساتھ گہری دوستی تھی۔ اس نے اپنی خدائی کا دعویٰ کردیا تھا۔ اس نے مختلف مقامات پر ایسی قربان گاہیں تعمیر کروائیں جن پر اس کے نام کی قربانی دی جاتی تھی اور اس کی عبادت کی جاتی تھی (Jewish Enc., 3:514)۔
۳۱ ماخوذ از : A. R. Fausset, Bible Dic., 2:435-36
۳۲ جب نزدیک آ کر شہر کو دیکھا تو اُس پر رویا اورکہا(...)، اور تجھ میں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ چھوڑیں گے(لوقا ۱۹: ۴۱، ۴۴)۔
33. International Standard Bible Enc., s.v. 'Jerusalem,' by Geerhardus Vos, 6:247.
34. A. R. Fausset, Bible Dic., 2:437-38.
35. International Standard Bible Enc., s.v. 'Jerusalem,' by Geerhardus Vos, 6:248.
36. International Standard Bible Enc., s.v. 'Jerusalem,' by Geerhardus Vos, 6:248, 49.
37. A. R. Fausset, Bible Dic., (2000), 2:438.
۳۸ ڈاکٹر طارق السویدان، فلسطین: التاریخ المصور، (الابداع الفکر، کویت، ۲۰۰۴ء)، صفحہ۸۴۔
۳۹ ڈاکٹر طارق السویدان، فلسطین: التاریخ المصور،(الابداع الفکر، کویت،۲۰۰۴ء)، صفحات ۸۵، ۸۶۔
40. The Enc. of Islam New (1986) edn, s.v. 'al-Kuds' by O. Graber, Harvard Univ. 5:324-26.
۴۱ ڈاکٹر طارق السویدان، فلسطین : التاریخ المصور،(الابداع الفکر، کویت، ۲۰۰۴ء)،صفحہ ۹۰۔
۴۲ رملہ ( Ramla) شہر یروشلم کے شمال مشرق میں قریباً ۴۰ کلومیٹر کی مسافت پر ساحلی میدان میں واقع ہے۔ خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور حکومت میں اس کا بھائی سلیمان بن عبدالملک ارض فلسطین کا والی تھا۔ اپنے والد کی تعمیر کردہ مشہور عمارت ’قبۃ الصخریٰ‘ سے متاثر ہو کر سلیمان نے رملہ شہر بسایا اوراُسے صوبائی دارالحکومت کا درجہ دے دیا۔
43. A. R. Fausset, Bible Dic., 2:438.
44. The Enc. of Islam, s.v. 'al-Kuds' by O. Graber, 5:330-31.
____________