HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rafi Mufti

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

تیمم کا طریقہ

 

 

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبْزٰى قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلٰى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ: إِنِّيْ أَجْنَبْتُ فَلَمْ أُصِبِ الْمَاءَ فَقَالَ: عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَمَا تَذْكُرُ أَنَّا كُنَّا فِيْ سَفَرٍ أَنَا وَأَنْتَ فَأَمَّا أَنْتَ فَلَمْ تُصَلِّ وَأَمَّا أنا فَتَمَعَّكْتُ فَصَلَّيْتُ فَذَكَرْتُ ذٰلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيْكَ هٰكَذَا فَضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَفَّيْهِ الْأَرْضَ وَنَفَخَ فِيْهِمَا ثُمَّ مَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ. (بخارى، رقم 338)

حضرت عبدالرحمٰن بن ابزیٰ (رضی اللہ عنہ) سے روايت ہےكہ ایک شخص حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) کے پاس آیا اور عرض کی کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی ہےاور پانی نہیں مل رہا(تو میں اب کیا کروں)،اس پر عمار بن یاسر (رضی اللہ عنہ) نے عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) سے کہا: کیا آپ کو یاد نہیں جب میں اور آپ سفر میں تھے، ہم دونوں جنبی ہو گئے۔ آپ نے تو نماز نہیں پڑھی، لیکن میں نے زمین پر لوٹ پوٹ لیا، اور نماز پڑھ لی، پھر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ تجھے بس اتنا ہی کافی تھا كہ يوں كرتااورپهرآپ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے،انهیں پھونکا اور ان دونوں سے اپنےچہرے اور ہاتهوں کا مسح کیا۔

 

عَنْ شَقِيْقٍ قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ عَبْدُ اللهِ وَأَبِيْ مُوْسَى الْأَشْعَرِيِّ فَقَالَ لَهُ أَبُوْ مُوْسٰى: لَوْ أَنَّ رَجُلًا أَجْنَبَ فَلَمْ يَجِدِ الْمَاءَ شَهْرًا أَمَا كَانَ يَتَيَمَّمُ وَيُصَلِّي فَكَيْفَ تَصْنَعُوْنَ بِهٰذِهِ الْآيَةِ فِيْ سُوْرَةِ الْمَائِدَةِ {فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا} فَقَالَ عَبْدُ اللهِ: لَوْ رُخِّصَ لَهُمْ فِيْ هٰذَا لَأَوْشَكُوْا إِذَا بَرَدَ عَلَيْهِمْ الْمَاءُ أَنْ يَّتَيَمَّمُوا الصَّعِيْدَ قُلْتُ: وَإِنَّمَا كَرِهْتُمْ هٰذَا لِذَا؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ أَبُوْ مُوْسَٰى أَلَمْ تَسْمَعْ قَوْلَ عَمَّارٍ لِعُمَرَ بَعَثَنِي رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيْ حَاجَةٍ فَأَجْنَبْتُ فَلَمْ أَجِدِ الْمَاءَ فَتَمَرَّغْتُ فِي الصَّعِيْدِ كَمَا تَمَرَّغُ الدَّابَّةُ فَذَكَرْتُ ذٰلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيْكَ ... هٰكَذَا وَمَسَحَ وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ وَاحِدَةً.(بخارى، رقم 347 ۔ابوداؤد، رقم 321)

حضرت شفيق (رضی اللہ عنہ)  كہتے ہيں كہ میں عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) اور ابوموسیٰ اشعری (رضی اللہ عنہ) کی خدمت میں حاضر تھا۔ ابوموسیٰ( رضی اللہ عنہ) نے عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے کہا کہاگر ایک شخص کو غسل کی حاجت ہو اور مہینہ بھر پانی نہ پائے تو کیا وہ تیمم کر کے نماز نہ پڑھے؟ شقیق کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود نے جواب دیا کہ وہ تیمم نہ کرے ،اگرچہ وہ ایک مہینہ تک پانی نہ پائے (اور نماز موقوف رکھے)، ابوموسیٰ( رضی اللہ عنہ) نے اس پر کہا کہ پھر سورۂ مائدہ کی اس آیت کا کیا مطلب ہو گا اگر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی پر تیمم کر لو۔ عبداللہ بن مسعود بولے کہ اگر لوگوں کو اس کی اجازت دے دی جائے تو جلد ہی یہ حال ہو جائے گا کہ جب ان کو پانی ٹھنڈا معلوم ہو گا تو وہ مٹی سے تیمم ہی کر لیں گے۔ اعمش نے کہا: میں نے شقیق سے کہا تو تم نے جنبی کے لیے تیمم اس لیے برا جانا؟ انھوں نے کہا: ہاں، پھر ابوموسیٰ اشعری (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ کیا آپ کو عمار کا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ قول معلوم نہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام کے لیے بھیجا تھا۔ سفر میں مجھے غسل کی ضرورت ہو گئی، لیکن پانی نہ ملا۔ اس لیے میں مٹی میں جانور کی طرح لوٹ پوٹ لیا۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا کہ تمھارے لیے صرف اتنا کرنا کافی تھا ... اور پهرآپ نے اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کا ایک ہی مرتبہ مسح کیا۔

 

عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ أَبْزٰي قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنَّا نَكُوْنُ بِالْمَكَانِ الشَّهْرَ وَالشَّهْرَيْنِ فَقَالَ عُمَرُ: أَمَّا أَنَا فَلَمْ أَكُنْ أُصَلِّي حَتّٰى أَجِدَ الْمَاءَ قَالَ: فَقَالَ عَمَّارٌ: يَا أَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ أَمَا تَذْكُرُ إِذْ كُنْتُ أَنَا وَأَنْتَ فِي الْإِبِلِ فَأَصَابَتْنَا جَنَابَةٌ فَأَمَّا أَنَا فَتَمَعَّكْتُ فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذٰلِكَ لَهُ فَقَالَ: إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيْكَ أَنْ تَقُوْلَ هٰكَذَا وَضَرَبَ بِيَدَيْهِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ نَفَخَهُمَا ثُمَّ مَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ إِلٰى نِصْفِ الذِّرَاعِ؟ فَقَالَ عُمَرُ: يَا عَمَّارُ اتَّقِ اللهَ فَقَالَ: يَا أَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ إِنْ شِئْتَ وَاللهِ لَمْ أَذْكُرْهُ أَبَدًا فَقَالَ عُمَرُ: كَلَّا وَاللهِ لَنُوَلِّيَنَّكَ مِنْ ذٰلِكَ مَا تَوَلَّيْتَ.(ابوداؤد، رقم 322)

حضرت عبدالرحمن بن ابزیٰ (رضی اللہ عنہ)  سے روایت ہے کہ میں حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے پاس تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا کہ ہم ماہ دو ماہ ایک جگہ قیام کرتے ہیں (اور وہاں پانی نہیں ہوتا اور ہم جنبی ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں ہم کیا کریں)؟ اس پر حضرت عمر نے فرمایا کہ میں تو اس وقت تک نماز نہ پڑھوں گا، جب تک کہ پانی نہ ملے گا، یہ سن کر حضرت عمار (رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ اے امیر المومنین، کیا آپ کو یاد نہیں کہ میں اور آپ اونٹوں میں تھے اور ہم جنبی ہو گئے تھے تو میں مٹی میں لوٹ پوٹ گیا تھا، پھر ہم نے واپس آکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے واقعہ عرض کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا کہ ایسی صورت میں تمھیں صرف ایسا کرنا کافی تھا اور آپ نے اپنے ہاتھ زمین پر مار کر پھونک ماری اور اپنے چہرے پر اور ہاتھوں پر نصف ذراع تک پھیر لیا؟ عمر(رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: اے عمار اللہ سے ڈرو، انھوں نے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو یہ بات میں کبھی ذکر نہ کروں، عمر نے فرمایا: نہیں بخدا میرا یہ مطلب نہیں ہے، بلکہ تمھیں اپنی بات کہنے کا اختیار ہے۔

________

 

B