عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بنِ الصَّامِتِ قال قال أبو ذَرٍّ یا بن أَخِی صَلَّیْتُ سَنَتَیْنِ قبل مَبْعَثِ النبی صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قُلْتُ فَأَیْنَ کُنْتَ تَوَجَّهُ قال حَیْثُ وَجَّهَنِیَ الله۔ (مسلم، رقم ۶۳۶۱)
’’عبداللہ بن صامت سے روایت ہے کہ ابوذر نے انھیں بتایا: اے میرے بھتیجے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دو سال پہلے ہی نماز پڑھنے لگ گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں میں نے پوچھا کہ آپ نماز میں کس طرف رخ کیا کرتے تھے؟ انھوں نے کہا کہ جدھر اللہ میرا رخ کر دیتا تھا، میں اُس طرف نماز پڑھ لیا کرتا۔‘‘
عَنْ عَاءِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ کَانَ یَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَیْشٌ فی الْجَاهِلِیَّةِ وکان رسول اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَصُومُهُ فلما قَدِمَ الْمَدِینَةَ صَامَهُ وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ فلما فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَکَ یوم عَاشُورَاءَ فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ وَمَنْ شَاءَ تَرَکَهُ۔ (بخاری، ۲۰۰۲)، (مسلم، رقم۲۶۴۱)
’’عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ قریش جاہلیت کے زمانے میں یومِ عاشورا کا روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپ مدینہ آئے تو یہاں بھی آپ نے یہ روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا۔ لیکن رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد آپ نے یہ روزہ ترک کر دیااور مسلمانوں سے بھی کہہ دیا کہ اب جس کا جی چاہے وہ رکھے اور جس کا نہ چاہے نہ رکھے۔
عَنْ جُبَیْرِ بن مُطْعِمٍ قال أَضْلَلْتُ بَعِیرًا لی فَذَهَبْتُ أَطْلُبُهُ یوم عَرَفَةَ فَرَأَیْتُ النبی صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَاقِفًا بِعَرَفَةَ فَقُلْتُ هَذَا وَاللَّهِ مِنَ الْحُمْسِ فَمَا شَأْنُهُ هَاهُنَا۔ (بخاری، رقم۱۶۶۴)، (مسلم، رقم ۲۹۵۶)
’’جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ میرا اونٹ کھو گیا اور میں اسے ڈھونڈنے کے لیے عرفہ کے دن نکلا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میدانِ عرفہ میں کھڑے دیکھا، تو میں نے کہا، بخدا، یہ تو قریشی ہیں، پھر یہ یہاں کیوں ہیں۔‘‘
________