نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو اذکار اور دعائیں منقول ہیں، ذیل میں ان سے متعلق احادیث لائی گئی ہیں ۔ یہ اذکار اور دعائیں ہمیں اس لیے سکھائی گئی ہیں تاکہ ہمارا دل ہر وقت خدا کی یاد سے معمور رہے۔انسان کا دل بلا شبہ خدا کی یاد ہی سے زندہ رہتا ہے اور جس دل میں اس کی یاد نہ ہو وہ مردہ ہوتا ہے۔دل کی یہ زندگی ہی انسان کی روحانی زندگی ہے۔جیسے ہماری مادی زندگی کے لیے ضروری ہے کہ ہم سانس لیتے رہیں اسی طرح ہماری روحانی زندگی کے لیے خدا کی یاد میں مداومت ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بھی اللہ کے ذکر کی بہت تاکید کی گئی ہے اور احادیثِ شریفہ میں بھی اس پر بہت زور دیا گیا ہے۔
ان احادیث میں مختلف اذکار پر آخرت میں جس اجرِ عظیم کا وعدہ کیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کلمات انسان کے ذہن و قلب میں خدا کی اُس یاد کو مستحضر کرتے ہیں جو اُس کے شعور کو ترقی، نفس کو پاکیزگی اور روح کو بالیدگی عطا کرتی ہے اور پھر اِس کے نتیجے میں وہ خدا کی اُس خالص بندگی کو عملاً اپنا لیتا ہے جس کے لیے وہ تخلیق کیا گیا ہے۔
عَنْ أَبِی هرَیْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَأَنْ أَقُولَ سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَکْبَرُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَیْهِ الشَّمْسُ۔(مسلم، رقم ۶۸۴۷)
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ’سبحان اللہ والحمد للہ ولا إلہ إلا اللہ واللہ أکبر‘ (اللہ پاک ہے، سارا شکر اللہ ہی کے لیے ہے، اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے) کہنا ان سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے۔‘‘
عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ فِی یَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ حُطَّتْ خَطَایَاهُ وَإِنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ۔(بخاری، رقم ۶۴۰۵)
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے دن میں سو مرتبہ ’سبحان اللہ وبحمدہ‘ (اللہ پاک ہے اور ستودہ صفات ہے) کہا ،اُس کے سارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘
عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَالَ حِینَ یُصْبِحُ وَحِینَ یُمْسِی سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ مِائَةَ مَرَّةٍ لَمْ یَأْتِ أَحَدٌ یَوْمَ الْقِیَامَةِ بِأَفْضَلَ مِمَّا جَاءَ بِهِ إِلَّا أَحَدٌ قَالَ مِثْلَ مَا قَالَ أَوْ زَادَ عَلَیْهِ۔(مسلم، رقم ۶۸۴۳)
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے صبح اور شام ’سبحان اللہ وبحمدہ‘ (اللہ پاک ہے اور ستودہ صفات ہے)کہا تو قیامت کے دن کوئی شخص اُس سے افضل عمل لانے والا نہ ہو گا، سوائے اُس کے جس نے یہی کلمات کہے ہوں گے یا انھی پر کچھ اضافہ کیا ہو گا۔‘‘
عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ کَلِمَتَانِ خَفِیفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ثَقِیلَتَانِ فِی الْمِیزَانِ حَبِیبَتَانِ إِلَی الرَّحْمَنِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِیمِ۔(بخاری، رقم ۶۶۸۲)، (مسلم، رقم ۶۸۴۶)
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دو کلمے ہیں جو زبان پر ہلکے، میزان میں بھاری اور اللہ کو بہت محبوب ہیں۔ یہ کلمے ’سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم‘ (اللہ پاک ہے اور ستودہ صفات ہے، اللہ پاک ہے عظمت والا) ہیں۔‘‘
عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ فِی یَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ کَانَتْ لَهُ عَدْلَ عَشْرِ رِقَابٍ وَکُتِبَتْ لَهُ مِائَةُ حَسَنَةٍ وَمُحِیَتْ عَنْهُ مِائَةُ سَیِّئَةٍ وَکَانَتْ لَهُ حِرْزًا مِنْ الشَّیْطَانِ یَوْمَهُ ذَلِکَ حَتَّی یُمْسِیَ وَلَمْ یَأْتِ أَحَدٌ بِأَفْضَلَ مِمَّا جَاءَ بِهِ إِلَّا أَحَدٌ عَمِلَ أَکْثَرَ مِنْ ذَلِک۔(بخاری، رقم ۳۲۹۳)
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ’لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیء قدیر‘ (اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں؛ وہ تنہا ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں؛ بادشاہی اُس کی ہے اور حمد بھی اُسی کے لیے ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتاہے) کے کلمات سے دن میں سو مرتبہ اللہ کا ذکر کرے، اُس کے لیے دس غلاموں کو آزاد کرنے کے برابر اجر ہوتا ہے، سو نیکیاں اُس کے نامۂ اعمال میں لکھ دی جاتی ہیں، اُس کے سو گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور شام تک وہ شیطان سے (اللہ کی) پناہ میں ہوتا ہے۔ (قیامت کے دن) کوئی شخص بھی اس سے افضل عمل والا نہ ہو گا سوائے اُس کے جس نے یہی ذکر اس سے زیادہ کیا ہو گا۔‘‘
عَنْ أَبِی مُوسَی الْأَشْعَرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ ۔۔۔أَشْرَفَ النَّاسُ عَلَی وَادٍ فَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ بِالتَّکْبِیرِ اللَّهُ أَکْبَرُ اللَّهُ أَکْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ارْبَعُوا عَلَی أَنْفُسِکُمْ إِنَّکُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا إِنَّکُمْ تَدْعُونَ سَمِیعًا قَرِیبًا وَهُوَ مَعَکُمْ وَأَنَا خَلْفَ دَابَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعَنِی وَأَنَا أَقُولُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ فَقَالَ لِی: یَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَیْسٍ قُلْتُ لَبَّیْکَ یَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: أَلَا أَدُلُّکَ عَلَی کَلِمَةٍ مِنْکَنْزٍ مِنْ کُنُوزِ الْجَنَّةِ قُلْتُ بَلَی یَا رَسُولَ اللَّهِ فَدَاکَ أَبِی وَأُمِّی قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ۔(بخاری، رقم ۴۲۰۵)
’’ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ۔۔۔ (کسی سفر کے دوران میں) لوگ ایک وادی میں داخل ہوئے اور بلند آواز سے کلمہ تکبیر ’اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ‘ (اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں) کہنے لگے ، تو آپ نے فرمایا اپنی آوازوں کو پست کرو، تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے، تم اُسے پکار رہے ہو جو سننے والا ہے، قریب ہے اور تمھارے ساتھ ہے۔ (ابو موسی کہتے ہیں کہ) میں اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے پیچھے تھا اور میں ’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‘ (ہمت اور قدرت، سب اللہ ہی کی عنایت سے ہے) کہہ رہا تھا، تو آپ نے مجھ سے کہا اے عبداللہ ابن قیس! میں نے کہا لبیک یا رسول اللہ (میں حاضر ہوں اے اللہ کے رسول) آپ نے فرمایا کیا میں تمھیں وہ کلمہ نہ بتاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ میں نے کہا کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ نے فرمایا: ’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‘ (ہمت اور قدرت، سب اللہ ہی کی عنایت سے ہے)۔‘‘
عَنْ شَدَّادَ بْنِ أَوْسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: سَیِّدُ الِاسْتِغْفَارِ أَنْ تَقُولَ اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّی لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِی وَأَنَا عَبْدُکَ وَأَنَا عَلَی عَهْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ أَبُوءُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَأَبُوءُ لَکَ بِذَنْبِی فَاغْفِرْ لِی فَإِنَّهُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْت قَالَ: وَمَنْ قَالَهَا مِنْ النَّهَارِ مُوقِنًا بِهَا فَمَاتَ مِنْ یَوْمِهِ قَبْلَ أَنْ یُمْسِیَ فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَمَنْقَالَهَا مِنْ اللَّیْلِ وَهُوَ مُوقِنٌ بِهَا فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ یُصْبِحَ فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ۔(بخاری، رقم ۶۳۰۶)
’’شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ سید الاستغفار دعا یہ ہے:
’’اے اللہ، تو میرا پروردگار ہے؛ تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں؛ تونے مجھے پیدا کیا ہے اور میں تیرا بندہ ہوں اور اپنی استطاعت کے مطابق تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں؛ میں اپنے اعمال کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں؛ اپنے اوپر تیری نعمتوں کا اعتراف اور اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں؛ تو مجھے بخش دے، اِس لیے کہ گناہوں کو تیرے سوا کوئی معاف نہیں کرتا۔
آپ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی یقین کے ساتھ یہ دعا دن میں کرے اور اُسی دن شام سے پہلے دنیا سے رخصت ہو جائے تو اُس کے لیے جنت ہے اور رات میں کرے اور صبح سے پہلے رخصت ہو جائے تو اُس کے لیے جنت ہے۔‘‘
عَنْ حُذَیْفَةَ بْنِ الْیَمَانِ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَوَی إِلَی فِرَاشِهِ قَالَ: بِاسْمِکَ أَمُوتُ وَأَحْیَا وَإِذَا قَامَ قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی أَحْیَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَیْهِ النُّشُورُ۔(بخاری، رقم ۶۳۱۲)، (مسلم، رقم ۶۸۸۷)
’’حذیفۃ بن یمان رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ جب اپنے بستر پر لیٹتے تو کہتے، اے اللہ میں تیرے نام ہی سے مرتا اور زندہ ہوتا ہوں اور جب آپ بیدار ہوتے تو کہتے اُس اللہ ہی کے لیے شکر ہے جس نے ہم کو موت کے بعد پھر زندگی عطا فرمائی اور ایک دن اُسی کی طرف لوٹنا ہے۔‘‘
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمْسَی قَالَ: أَمْسَیْنَا وَأَمْسَی الْمُلْکُ لِلَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ، اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ مِنْ خَیْرِ هَذِهِ اللَّیْلَةِ وَخَیْرِ مَا فِیهَا وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّهَا وَشَرِّ مَا فِیهَا اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْکَسَلِ وَالْهَرَمِ وَسُوءِ الْکِبَرِ وَفِتْنَةِ الدُّنْیَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ۔(مسلم، رقم ۶۹۰۹)
’’عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شام کے وقت یہ دعا کیا کرتے : ہم نے شام کی اور خدا کی بادشاہی بھی شام میں داخل ہو گئی ہے۔ شکر اللہ کے لیے ہے اور اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں؛ وہ اکیلا ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں؛ بادشاہی اُس کی ہے اور حمد بھی اُسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اے اللہ، میں اِس رات کی بھلائی چاہتا ہوں اور اُس کی بھلائی بھی جو اِس میں ہے؛ اور رات کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اُس کی برائی سے بھی جو اِس میں ہے۔ اے اللہ، میں سستی سے، بڑھاپے سے، بڑھاپے کی برائی سے، دنیا کی آزمایش سے اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘
عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا أَخَذْتَ مَضْجَعَکَ فَتَوَضَّأْ وُضُوءَکَ لِلصَّلَاةِ ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلَی شِقِّکَ الْأَیْمَنِ ثُمَّ قُلْ اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْلَمْتُ وَجْهِی إِلَیْکَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِی إِلَیْکَ وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِی إِلَیْکَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَیْکَ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْکَ إِلَّا إِلَیْکَ آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِی أَنْزَلْتَ وَبِنَبِیِّکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ وَاجْعَلْهُنَّ مِنْ آخِرِ کَلَامِکَ فَإِنْ مُتَّ مِنْ لَیْلَتِکَ مُتَّ وَأَنْتَ عَلَی الْفِطْرَةِ ۔۔۔وَإِنْ أَصْبَحَ أَصَابَ خَیْرًا۔(مسلم، رقم ۶۸۸۲)
’’براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم سونے لگو تو اپنا نماز والا وضو کرو، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹو اور کہو، اے اللہ، میں نے اپنے آپ کو تیرے حوالے کر دیا ہے اور اپنا معاملہ تیرے سپرد کر دیا ہے اور تجھ سے ٹیک لگالی ہے، تیری عظمت سے لرزتے ہوئے اور تیرے اشتیاق میں بڑھتے ہوئے۔ تجھ سے بھاگ کر کہیں پناہ اور کہیں ٹھکانا نہیں، اور اگر ہے تو تیرے ہی پاس ہے۔ پروردگار میں تیری کتاب پر ایمان لایا ہوں جو تونے نازل کی ہے اور تیرے نبی پر ایمان لایا ہوں جسے تو نے رسول بنا کر بھیجا ہے۔ آپ نے فرمایا: تم کوشش کرو کہ سونے سے پہلے تمھارے آخری کلمات یہی ہوں،پھر اگر تم اُسی رات وفات پا گئے تو تمھاری موت فطرت (اسلام) پر ہو گی ۔۔۔ اور اگر صبح بیدار ہوئے توخیر پر بیدار ہو گے۔‘‘
عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُنَا إِذَا أَخَذْنَا مَضْجَعَنَا أَنْ نَقُولَ: اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَرَبَّ الْأَرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْءٍ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوَی وَمُنْزِلَ التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِیلِ وَالْفُرْقَانِ أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْءٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِهِ اللَّهُمَّ أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْءٌ وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْءٌ وَأَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْءٌ وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُونَکَ شَیْءٌ اقْضِ عَنَّا الدَّیْنَ وَأَغْنِنَا مِنْ الْفَقْرِ۔(مسلم، رقم ۶۸۹۰)
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ جب ہم سونے کے لیے لیٹیں تو یہ دعا پڑھیں:
اے اللہ، آسمانوں کے پروردگار، زمین کے پروردگار اور عرشِ عظیم کے پروردگار، ہمارے پروردگار اور ہر چیز کے پروردگار؛ دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والے، تورات و انجیل اور فرقان کے نازل کرنے والے؛ میں اُن سب چیزوں کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں جن کی پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے۔ اے اللہ، تو اول ہے، تجھ سے پہلے کوئی چیز نہیں اور توآخر ہے، تیرے بعد کوئی چیز نہیں؛ تو ظاہر ہے، تیرے اوپر کوئی چیز نہیں اورتو باطن ہے، تیرے نیچے کوئی چیز نہیں۔ تو ہمارے قرض ادا فرما اور ہماری محتاجی کو دور کر کے ہمیں غنی کردے۔‘‘
عَنْ عَلِیٍّ الْأَزْدِیِّ ۔۔۔أَنَّ ابْنَ عُمَرَ عَلَّمَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا اسْتَوَی عَلَی بَعِیرِهِ خَارِجًا إِلَی سَفَرٍ کَبَّرَ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ: سُبْحَانَ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا کُنَّا لَهُ مُقْرِنِینَ وَإِنَّا إِلَی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُکَ فِی سَفَرِنَا هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَی وَمِنْ الْعَمَلِ مَا تَرْضَی اللَّهُمَّ هَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَا هَذَا وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَهُ اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِیفَةُ فِی الْأَهْلِ اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَکَآبَةِ الْمَنْظَرِ وَسُوءِ الْمُنْقَلَبِ فِی الْمَالِ وَالْأَهْلِ ۔۔وَإِذَا رَجَعَ قَالَهُنَّ وَزَادَ فِیهِنَّ۔۔آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُون۔(مسلم، رقم ۳۲۷۵)
’’علی ازدی سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنھما نے انھیں بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر کے لیے نکلتے ہوئے اپنے اونٹ پر اچھی طرح بیٹھ جاتے تو تین دفعہ تکبیر کہتے اور پھر یہ کہتے:
پاک ہے وہ ذات جس نے اِس سواری کو ہمارے لیے تابع فرمان بنا دیاہے، ورنہ ہم اِس پر غلبہ حاصل نہیں کر سکتے تھے، اور حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے رب ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ اے اللہ ، ہم اپنے اِس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ کی توفیق مانگتے ہیں اور ایسے عمل کی توفیق مانگتے ہیں جو تجھے راضی کر دے۔ اے اللہ، تو ہمارے اِس سفر کو ہم پر سہل کر دے اور اِس کی درازی سمیٹ دے۔ اے اللہ، تو سفر میں ساتھی ہے اور پیچھے اہل وعیال میں رکھوالا ہے۔ اے اللہ، میں اِس سفر کی مشقت سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اِس سے بھی کہ کوئی برا منظر میرے سامنے آئے اور اِس سے بھی کہ جب میں اپنے اہل وعیال اور اموال میں لوٹوں تو کوئی خرابی میری منتظر ہو۔
پھر جب آپ سفر سے واپس آتے تو انھی الفاظ کے ساتھ مزید ان کلمات کا اضافہ کرتے:
ہم لوٹنے والے ، توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے اور اپنے رب ہی کی حمد کرنے والے ہیں۔‘‘
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرَةَ أَنَّهُ قَالَ لِأَبِیهِ یَا أَبَتِ إِنِّی أَسْمَعُکَ تَدْعُو کُلَّ غَدَاةٍ اللَّهُمَّ عَافِنِی فِی بَدَنِی اللَّهُمَّ عَافِنِی فِی سَمْعِی اللَّهُمَّ عَافِنِی فِی بَصَرِی لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ تُعِیدُهَا ثَلَاثًا حِینَ تُصْبِحُ وَثَلَاثًا حِینَ تُمْسِی فَقَالَ إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدْعُو بِهِنَّ فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَسْتَنَّ بِسُنَّتِهِ قَالَ عَبَّاسٌ فِیهِ وَتَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ تُعِیدُهَا ثَلَاثًا حِینَ تُصْبِحُ وَثَلَاثًا حِینَ تُمْسِی فَتَدْعُو بِهِنَّ فَأُحِبُّ أَنْ أَسْتَنَّ بِسُنَّتِهِ قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: دَعَوَاتُ الْمَکْرُوبِ اللَّهُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُو فَلَا تَکِلْنِی إِلَی نَفْسِی طَرْفَةعَیْنٍ وَأَصْلِحْ لِی شَأْنِی کُلَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْت۔(ابو داود، رقم ۵۰۹۰)
’’عبدالرحمن بن ابی بکرہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد سے کہا کہ میں آپ کو ہر روز یہ دعاکرتے ہوئے سنتا ہوں: ’اللّٰہم عافنی فی بدنی اللّٰہم عافنی فی سمعی اللّٰہم عافنی فی بصری لا إلہ إلا أنت‘ (اے اللہ! مجھے میرے بدن میں عافیت دے، اے اللہ میری سماعت میں عافیت دے، اے اللہ میری بصارت میں عافیت دے، تیرے سوا کوئی الہ نہیں ہے)۔ آپ ان کلمات کو صبح شام تین تین دفعہ پڑھتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ انھوں نے یہ بتایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو انھی کلمات کے ساتھ دعا کرتے ہوئے سنا ہے اور مجھے یہ پسند ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اپناؤں۔
عباس راوی کہتے ہیں کہ ان الفاظ کے ساتھ عبدالرحمن بن ابی بکرہ کے یہ الفاظ بھی تھے: ’تقول اللهم إنی أعوذ بک من الکفر والفقر اللهم إنی أعوذ بک من عذاب القبر لا إله إلا أنت‘ (آپ کہتے ہیں،اے اللہ میں کفر اور محتاجی سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اے اللہ میں عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں،تیرے سوا کوئی الہ نہیں ہے)۔
آپ ان کلمات کو صبح شام تین تین دفعہ پڑھتے اور ان کے ساتھ دعا کرتے ہیں۔( تو انھوں نے کہا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کلمات پڑھتے ہوئے سنا ہے ،)چنانچہ میں پسند کرتا ہوں کہ آپ کے طریقے کو اپناؤں۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مصیبت زدہ آدمی کی دعا یہ ہے:
’اللهم رحمتک أرجو فلا تکلنی إلی نفسی طرفة عین وأصلح لی شأنی کله لا إله إلا أنت‘ (اے اللہ میں تجھ سے تیری رحمت کا امید وار ہوں، تو مجھے ایک لمحے کے لیے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کر اور میرے تمام کاموں کو سنوار دے، تیرے سوا کوئی الہ نہیں)۔‘‘
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ وَالْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَضَلَعِ الدَّیْنِ وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ۔(بخاری، رقم ۶۳۶۹)
’’انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اے اللہ، میں تیری پناہ مانگتا ہوں، فکر اور غم سے، عاجزی اور سستی سے ، بزدلی اور بخل سے اور قرض کے بوجھ اور لوگوں کے غلبے سے۔‘‘
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْکَسَلِ وَالْهَرَمِ وَالْمَغْرَمِ وَالْمَأْثَمِ اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَفِتْنَةِ النَّارِ وَفِتْنَةِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَشَرِّ فِتْنَةِ الْغِنَی وَشَرِّ فِتْنَةِ الْفَقْرِ وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّ قَلْبِی مِنْ الْخَطَایَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الْأَبْیَضُ مِنْ الدَّنَسِ وَبَاعِدْ بَیْنِی وَبَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ۔(بخاری، رقم ۶۳۷۵)
’’عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اے اللہ، میں سستی سے، بڑھاپے سے اور تاوان اور گناہ سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ، میں پناہ مانگتا ہوں، آگ کے عذاب سے، آگ کی آزمایش سے، قبر کی آزمایش سے، قبر کے عذاب سے، دولت کی آزمایش کے شر سے، فقر کی آزمایش کے شر سے اور مسیح دجال کی آزمایش کے شر سے۔ اے اللہ، تو میرے گناہوں کو برف اور اولوں کے پانی سے دھو دے اور میرے دل کو گناہوں سے پاک کر دے، جس طرح سفید کپڑا میل سے پاک کیا جاتا ہے، اور میرے اور میری خطاؤں کے درمیان میں ایسی دوری پیدا کردے، جیسی دوری تو نے مشرق اور مغرب میں پیدا کر رکھی ہے۔‘‘
عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ لَا أَقُولُ لَکُمْ إِلَّا کَمَا کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَیَقُولُ کَانَ یَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَالْهَرَمِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ اللَّهُمَّ آتِ نَفْسِی تَقْوَاهَا وَزَکِّهَا أَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکَّاهَا أَنْتَ وَلِیُّهَا وَمَوْلَاهَا اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ وَمِنْ قَلْبٍ لَا یَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ وَمِنْ دَعْوَةٍ لَا یُسْتَجَابُ لَهَا۔(مسلم، رقم ۶۹۰۶)
’’ روایت ہے کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے کہا کہ میں تمھیں وہی دعا سکھاتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے: اے اللہ میں عاجزی، سستی، بزدلی، بخل، بڑھاپے اور عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اے اللہ مجھے متقی اور پاکیزہ نفس بنا دے ، یقیناً تو ہی بہترین پاک کرنے والا ہے، تو ہی اس (نفس) کا آقا اور مولیٰ ہے۔ اے اللہ، میں تیری پناہ مانگتا ہوں ایسے علم سے جو نفع نہ دے اور ایسے دل سے جس میں خشوع نہ ہو اور ایسے نفس سے جو سیر نہ ہو اور ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو۔‘‘
عَنْ أَبِی مُوسَی الْأَشْعَرِیِّ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ کَانَ یَدْعُو بِهَذَا الدُّعَاءِ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِی خَطِیئَتِی وَجَهْلِی وَإِسْرَافِی فِی أَمْرِی وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُبِهِ مِنِّی اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِی جِدِّی وَهَزْلِی وَخَطَئِی وَعَمْدِی وَکُلُّ ذَلِکَ عِنْدِی اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِی مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَاأَعْلَنْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّی أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ وَأَنْتَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ۔(مسلم، رقم ۶۹۰۱)
’’ابو موسیٰ اشعری روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اے اللہ، تو میری خطا اور نادانی اور معاملات میں میری زیادتی کو معاف فرما دے اور اُن سب چیزوں کو بھی جنھیں تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ اے اللہ، میں نے جو کچھ سوچ سمجھ کر کیا ہے اور جو کچھ ہنسی مذاق میں کیا ہے اور جو دانستہ کیا ہے اور جو کچھ نادانستہ کیا ہے، سب معاف فرما دے، یہ سب میری ہی طرف سے ہے۔ اے اللہ، تو بخش دے جو کچھ میں نے آگے بھیجا ہے اور جو کچھ پیچھے چھوڑا ہے، اور جو کچھ چھپایا اور جو کچھ علانیہ کیا ہے، اور وہ بھی جسے تو مجھ سے زیادہ جانتاہے۔ تو ہی آگے کرنے والا اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے، اور تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ کَانَ یَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْهُدَی وَالتُّقَی وَالْعَفَافَ وَالْغِنَی وَالْعِفَّة۔(مسلم، رقم ۶۹۰۴)
’’عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اے اللہ، میں تجھ سے ہدایت، تقویٰ، پاکدامنی، استغنا اور نفس کی پاکیزگی کا سوال کرتا ہوں۔‘‘
عَنْ طَارِقِ بْنِ أَشِیمَ الأَشْجَعِیِّ قَالَ کَانَ الرَّجُلُ إِذَا أَسْلَمَ عَلَّمَهُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ ثُمَّ أَمَرَهُ أَنْ یَدْعُوَ بِهَؤُلَاءِ الْکَلِمَاتِ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِی وَارْحَمْنِی وَاهْدِنِی وَعَافِنِی وَارْزُقْنِی۔(مسلم، رقم ۶۸۵۰)
’’طارق بن اشیم اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب کوئی آدمی مسلمان ہوا کرتا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے نماز سکھایا کرتے اور آپ اسے فرماتے کہ ان الفاظ کے ساتھ دعا کیا کرو: اے اللہ، تو مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے ہدایت دے، عافیت دے اور رزق عطا فرما۔‘‘
عَنْ أَنَسٍ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: اللَّهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔(بخاری، رقم ۴۵۲۲)
’’انس ضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے: اے اللہ، ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی ، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچالے۔‘‘
سَأَلَ قَتَادَةُ أَنَسًا أَیُّ دَعْوَةٍ کَانَ یَدْعُو بِهَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَکْثَرَ قَالَ کَانَ أَکْثَرُ دَعْوَةٍ یَدْعُو بِهَا یَقُولُ: اللَّهُمَّ آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ قَالَ وَکَانَ أَنَسٌ إِذَا أَرَادَ أَنْ یَدْعُوَ بِدَعْوَةٍ دَعَا بِهَافَإِذَا أَرَادَ أَنْ یَدْعُوَ بِدُعَاءٍ دَعَا بِهَا فِیهِ۔(مسلم، رقم ۶۸۴۰)
’’قتادہ نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات کون سی دعا کیا کرتے تھے۔انھوں نے کہا کہ آپ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے:
’اے اللہ، ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی ، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچالے۔‘
خود انس رضی اللہ عنہ بھی جب دعا کرتے تھے تو یہی دعا کیا کرتے تھے اور اگر انھیں کوئی اور دعا کرنا ہوتی تو آپ اس کے اندر یہ دعا بھی کر لیا کرتے تھے۔‘‘
عَنِ السَّائِبِ قَالَ صَلَّی بِنَا عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ صَلَاةً فَأَوْجَزَ فِیهَا فَقَالَ لَهُ بَعْضُ الْقَوْمِ لَقَدْ خَفَّفْتَ أَوْ أَوْجَزْتَ الصَّلَاةَ فَقَالَ أَمَّا عَلَی ذَلِکَ فَقَدْ دَعَوْتُ فِیهَا بِدَعَوَاتٍ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا قَامَ تَبِعَهُ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ هُوَ أُبَیٌّ غَیْرَ أَنَّهُ کَنَی عَنْ نَفْسِهِ فَسَأَلَهُ عَنْ الدُّعَاءِ ثُمَّ جَاءَ فَأَخْبَرَ بِهِ الْقَوْمَ اللَّهُمَّ بِعِلْمِکَ الْغَیْبَ وَقُدْرَتِکَ عَلَی الْخَلْقِ أَحْیِنِی مَا عَلِمْتَ الْحَیَاةَ خَیْرًا لِی وَتَوَفَّنِی إِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاةَ خَیْرًا لِی اللَّهُمَّ وَأَسْأَلُکَ خَشْیَتَکَ فِی الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ وَأَسْأَلُکَ کَلِمَةَ الْحَقِّ فِی الرِّضَا وَالْغَضَبِ وَأَسْأَلُکَ الْقَصْدَ فِی الْفَقْرِ وَالْغِنَی وَأَسْأَلُکَ نَعِیمًا لَا یَنْفَدُ وَأَسْأَلُکَ قُرَّةَ عَیْنٍ لَا تَنْقَطِعُ وَأَسْأَلُکَ الرِّضَاءَ بَعْدَ الْقَضَاءِ وَأَسْأَلُکَ بَرْدَ الْعَیْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَأَسْأَلُکَ لَذَّةَ النَّظَرِ إِلَی وَجْهِکَ وَالشَّوْقَ إِلَی لِقَائِکَ فِی غَیْرِ ضَرَّاءَ مُضِرَّةٍ وَلَا فِتْنَةٍ مُضِلَّةٍ اللَّهُمَّ زَیِّنَّا بِزِینَةِ الْإِیمَانِ وَاجْعَلْنَا هُدَاةً مُهْتَدِین۔(نسائی، رقم ۱۳۰۶)
’’سائب کہتے ہیں کہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے ہمیں ایک نماز پڑھائی اور اس میں اختصار سے کام لیا، بعض لوگوں نے کہا کہ آپ نے ہلکی یا مختصر نماز پڑھائی ہے۔ اُنھوں نے کہا: اس کے باوجود میں نے اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی ہوئی کئی دعائیں پڑھی ہیں۔
پھر جب وہ اٹھ کھڑے ہوئے تو لوگوں میں سے ایک آدمی ان کے پیچھے پیچھے گیا ، (عطا کہتے ہیں کہ یہ میرے والد سائب ہی تھے، لیکن انھوں نے یہ روایت بیان کرتے ہوئے اپنا نام نہیں لیا) اور ان سے وہ دعا پوچھی اور پھر آکر لوگوں کو بتائی۔ وہ دعا یہ تھی: اے اللہ، تو اپنے علم غیب اور مخلوق پر اپنی قدرت کے وسیلے سے مجھے اُس وقت تک زندگی دے جب تک تو جینے کو میرے لیے بہتر جانے؛ اور اُس وقت دنیا سے لے جا، جب تو لے جانے کو بہتر جانے۔ اے اللہ، اور میں کھلے اور چھپے میں تیری خشیت مانگتا ہوں؛ اور خوشی اور رنج میں سچی بات کی تو فیق چاہتا ہوں؛ اور فقروغنا میں میانہ روی کی درخواست کرتا ہوں؛ اور ایسی نعمت چاہتا ہوں جو تمام نہ ہو اور آنکھوں کی ایسی ٹھنڈک جو کبھی ختم نہ ہو۔ اور تیرے فیصلوں پر راضی رہنے کا حوصلہ مانگتا ہوں اور موت کے بعد زندگی کی راحت مانگتا ہوں؛ اور تجھ سے ملاقات کا شوق اور تیرے دیدار کی لذت مانگتا ہوں، اس طرح کہ نہ تکلیف دینے والی سختی میں رہوں اور نہ گم راہ کر دینے والے فتنوں میں۔ اے اللہ، تو ہمیں ایمان کی زینت عطا فرما اور ایسا بنا دے کہ خود بھی ہدایت پر رہیں اور دوسروں کو بھی ہدایت دیں۔‘‘
________