عَنْ أَبِی شُرَیْحٍ الْعَدَوِیِّ قَالَ سَمِعَتْ أُذُنَایَ وَأَبْصَرَتْ عَیْنَایَ حِینَ تَکَلَّمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُکْرِمْ جَارَهُ وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَهُ جَاءِزَتَهُ قَالَ وَمَا جَاءِزَتُهُ یَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: یَوْمٌ وَلَیْلَةٌ وَالضِّیَافَةُ ثَلَاثَةُ أَیَّامٍ فَمَا کَانَ وَرَاءَ ذَلِکَ فَهُوَ صَدَقَةٌ عَلَیْهِ وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ۔(بخاری، رقم ۶۰۱۹)
’’ابو شریح عدوی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے کانوں نے سنا اور آنکھوں نے دیکھا ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے تھے: جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتاہے، اُسے چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے اور جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتاہے، اُسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کا (خاطر داری کے) دستور کے مطابق اکرام کرے ، لوگوں نے پوچھا ، اے اللہ کے رسول دستور کے موافق کب تک، آپ نے فرمایا (خاطر داری) ایک دن اور ایک رات تک اور میزبانی تین دن تک کی ہے۔اس کے بعد جو کچھ ہو گا وہ صدقہ ہو گا، اورجو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتاہے، اُسے چاہیے کہ وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔‘‘
عَنْ أَبِی شُرَیْحٍ الْکَعْبِیِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَهُ جَاءِزَتُهُ یَوْمٌ وَلَیْلَةٌ وَالضِّیَافَةُ ثَلَاثَةُ أَیَّامٍ فَمَا بَعْدَ ذَلِکَ فَهُوَ صَدَقَةٌ وَلَا یَحِلُّ لَهُ أَنْ یَثْوِیَ عِنْدَهُ حَتَّی یُحْرِجَهُ۔۔۔(وَ) مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ۔(بخاری، رقم ۶۱۳۵)
’’ابو شریح کعبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتاہے، اُسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے ، اس کی خاطر داری بس ایک دن اور ایک رات کی ہے اور میزبانی تین دن تک ہے۔اس کے بعد جو کچھ ہو گا وہ صدقہ ہو گا۔ مہمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے پاس اتنے دن ٹھہر جائے کہ اُسے تنگ کر ڈالے۔ جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتاہے، اُسے چاہیے کہ وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔‘‘
________