عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِی قَالَ: أُمُّک، قَالَ: ثُمَّ مَنْ، قَالَ: ثُمَّ أُمُّکَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ، قَالَ: ثُمَّ أُمُّکَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ، قَالَ: ثُمَّ أَبُوکَ۔(بخاری،رقم۵۹۷۱)، (مسلم، رقم ۶۵۰۱)
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا اے اللہ کے رسول! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے۔ آپ نے فرمایا: تمھاری ماں، اس نے کہا پھر کون ہے آپ نے فرمایا: پھر تمھاری ماں، اس نے کہا پھر کون ہے آپ نے فرمایا: پھر تمھاری ماں، اس نے کہا پھر کون ہے آپ نے فرمایا: پھر تمھارا باپ۔‘‘
قَالَ (عبدُاللهِ) سَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَیُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللَّهِ قَالَ: الصَّلَاةُ عَلَی وَقْتِهَا قَالَ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ: ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قَالَ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ: الْجِهَادُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ۔(بخاری، رقم۵۲۷) ، (مسلم، رقم۲۵۲)
’’عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سا عمل سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ آپ نے فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا ، پوچھا اس کے بعد ، آپ نے فرمایا: والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، پھر پوچھا اس کے بعد، آپ نے فرمایا:اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔‘‘
عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: رَغِمَ أَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ قِیلَ مَنْ یَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: مَنْ أَدْرَکَ أَبَوَیْهِ عِنْدَ الْکِبَرِ أَحَدَهُمَا أَوْ کِلَیْهِمَا فَلَمْ یَدْخُلْ الْجَنَّة۔(مسلم،رقم ۶۵۱۰)
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُس شخص کے لیے ذلت ہے، اُس شخص کے لیے ذلت ہے، اُس شخص کے لیے ذلت ہے۔لوگوں نے پوچھا: کس کے لیے، یا رسول اللہ؟ آپ نے فرمایا: جس کے ماں باپ یا اُن میں سے کوئی ایک اُس کے پاس بڑھاپے کو پہنچا اور وہ اِس کے باوجود (اُن کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہو سکا۔
عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا یَقُولُ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَهُ فِی الْجِهَادِ فَقَالَ: أَحَیٌّ وَالِدَاک قَالَ نَعَمْ قَالَ: فَفِیهِمَا فَجَاهِدْ۔(بخاری، رقم ۳۰۰۴)
’’عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے جہاد کی اجازت چاہی۔ آپ نے پوچھا: تمھارے والدین زندہ ہیں؟ عرض کیا: جی ہاں۔ فرمایا: پھر اُن کی خدمت میں رہو ، یہی جہاد ہے۔‘‘
عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ أَنَّ رَجُلًا هَاجَرَ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْیَمَنِ فَقَالَ: هَلْ لَکَ أَحَدٌ بِالْیَمَنِ قَالَ أَبَوَایَ قَالَ: أَذِنَا لَک قَالَ لَا قَالَ: ارْجِعْ إِلَیْهِمَا فَاسْتَأْذِنْهُمَا فَإِنْ أَذِنَا لَکَ فَجَاهِدْ وَإِلَّا فَبِرَّهُمَا۔(ابو داود، رقم۲۵۳۰)
’’ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ یمن کے لوگوں میں سے ایک شخص (جہاد کی غرض سے) ہجرت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا۔ آپ نے پوچھا : یمن میں کوئی عزیز ہے؟ عرض کیا: میرے ماں باپ ہیں۔ فرمایا: اُنھوں نے اجازت دی ہے؟ عرض کیا:نہیں ۔ فرمایا: جاؤ اور اُن سے اجازت لو، اگر دیں تو جہاد کرو، ورنہ اُن کی خدمت کرتے رہو۔‘‘
عَنْ مُعَاوِیَةَ بْنِ جَاهِمَةَ السَّلَمِیِّ أَنَّ جَاهِمَةَ جَاءَ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَدْتُ أَنْ أَغْزُوَ وَقَدْ جِئْتُ أَسْتَشِیرُکَ فَقَالَ: هَلْ لَکَ مِنْ أُمٍّ قَالَ نَعَمْ قَالَ: فَالْزَمْهَا فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَیْهَا۔(نسائی،رقم ۳۱۰۶)
’’معاویہ اپنے باپ جاہمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ ، جہاد کے لیے جانا چاہتا ہوں اور آپ سے مشورے کے لیے حاضر ہوا ہوں ۔ آپ نے پوچھا: تمھاری ماں زندہ ہے؟ عرض کیا: جی ہاں۔ فرمایا: تو اُس کی خدمت میں رہو، اِس لیے کہ جنت اُس کے پاؤں کے نیچے ہے۔‘‘
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: رِضَی الرَّبِّ فِی رِضَی الْوَالِدِ وَسَخَطُ الرَّبِّ فِی سَخَطِ الْوَالِدِ۔(ترمذی،رقم ۱۸۹۹)
’’عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پروردگار کی خوشی باپ کی خوشی میں اور اُس کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے۔‘‘
________