عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَیْرِ أَنَّ امْرَأَةً سَرَقَتْ فِی عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی غَزْوَةِ الْفَتْحِ فَفَزِعَ قَوْمُهَا إِلَی أُسَامَةَ بْنِ زَیْدٍ یَسْتَشْفِعُونَهُ قَالَ عُرْوَةُ فَلَمَّا کَلَّمَهُ أُسَامَةُ فِیهَا تَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَتُکَلِّمُنِی فِی حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ قَالَ أُسَامَةُ اسْتَغْفِرْ لِی یَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَمَّا کَانَ الْعَشِیُّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ خَطِیبًا فَأَثْنَی عَلَی اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّمَا أَهْلَکَ النَّاسَ قَبْلَکُمْ أَنَّهُمْ کَانُوا إِذَا سَرَقَ فِیهِمْ الشَّرِیفُ تَرَکُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِیهِمْ الضَّعِیفُ أَقَامُوا عَلَیْهِ الْحَدَّ وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَهَا ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِتِلْکَ الْمَرْأَةِ فَقُطِعَتْ یَدُهَا فَحَسُنَتْ تَوْبَتُهَا بَعْدَ ذَلِکَ وَتَزَوَّجَتْ قَالَتْ عَائِشَةُ فَکَانَتْ تَأْتِی بَعْدَ ذَلِکَ فَأَرْفَعُ حَاجَتَهَا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۔(بخاری، رقم 4304)، (مسلم، رقم 4410)
’’ عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں فتح مکہ کے موقع پر ایک عورت نے چوری کی، اُس کی قوم کے لوگ گھبرائے ہوئے اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما کے پاس آئے، تاکہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اُس کی سفارش کریں (کہ اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے)۔ عروہ کہتے ہیں کہ جب انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اُس کی بات کی تو آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپ نے کہا: کیا تم اللہ کی قائم کردہ حدوں میں سے ایک حد کے بارے میں مجھ سے سفارش کرنے آئے ہو؟ اسامہ نے کہا: یا رسول اللہ! میرے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کیجیے۔ پھر دوپہر کے بعد آپ نے لوگوں سے خطاب فرمایا۔ اُس میں اللہ کے شایانِ شان اُس کی تعریف کی اور پھر فرمایا کہ تم سے پہلے لوگ اس وجہ سے ہلاک کر دیئے گئے کہ جب اُن میں سے کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اُس پر حد قائم کر دیتے۔ اُس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، اگر محمد کی بیٹی فاطمہ نے بھی چوری کی ہوتی تو میں لازماً اُس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔ پھر آپ نے اُس عورت پر حد قائم کرنے کا حکم دیا، تو اُس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ (راوی کہتے ہیں کہ) اس نے بہت خالص توبہ کی تھی چنانچہ اُس کی وہ توبہ بہت عمدہ رہی۔ پھر اُس نے شادی بھی کر لی۔ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد بھی یہ عورت میرے پاس آیا کرتی تھی تو میں اس کی ضرورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا کرتی تھی۔‘‘
________