عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ ثَمَانِینَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ مَکَّةَ هَبَطُوا عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ جَبَلِ التَّنْعِیمِ مُتَسَلِّحِینَ یُرِیدُونَ غِرَّةَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ فَأَخَذَهُمْ سِلْمًا فَاسْتَحْیَاهُمْ۔(مسلم، رقم 4679)، (ابو داود، رقم 2688)
’’انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مکہ کے ۸۰آدمیوں نے تنعیم کی طرف سے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ پر شب خون مارنا چاہا، لیکن آپ نے اُن کو پکڑ لیا اور پھر آپ نے اُنھیں چھوڑ دیا۔‘‘
عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَیْلًا قِبَلَ نَجْدٍ فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِی حَنِیفَةَ یُقَالُ لَهُ ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ فَرَبَطُوهُ بِسَارِیَةٍ مِنْ سَوَارِی الْمَسْجِدِ فَخَرَجَ إِلَیْهِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا عِنْدَکَ یَا ثُمَامَةُ فَقَالَ عِنْدِی خَیْرٌ یَا مُحَمَّدُ إِنْ تَقْتُلْنِی تَقْتُلْ ذَا دَمٍ وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَی شَاکِرٍ وَإِنْ کُنْتَ تُرِیدُ الْمَالَ فَسَلْ مِنْهُ مَا شِئْتَ ۔۔۔فَقَالَ أَطْلِقُوا ثُمَامَةَ ۔۔۔۔(بخاری، رقم 4372)، (مسلم، رقم 4589)
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی جانب ایک گھڑ سوار دستہ بھیجا۔ وہ بنو حنیفہ کے ایک آدمی ثمامہ بن اُثال کو پکڑ لائے اور اُسے مسجد نبوی کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے پاس آئے اور فرمایا: ثمامہ تیرا کیا خیال ہے (میں تیرے ساتھ کیا سلوک کروں گا)؟ اُس نے کہا میرا گمان تو اچھا ہی ہے (لیکن اس کے باوجود) اگر آپ مجھے قتل کرتے ہیں تو آپ ایک خونی ہی کو قتل کریں گے اور اگر آپ احسان کریں گے تو ایک شکرگزار شخص پر احسان کریں گے، البتہ اگر آپ مال چاہتے ہیں تو جتنا مال چاہیں مجھ سے طلب کر سکتے ہیں ۔۔۔ آپ نے صحابہ کرام سے فرمایا: ثمامہ کو رہا کر دو۔‘‘
عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَیْرِ أَنَّ مَرْوَانَ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَاهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَامَ حِینَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ مُسْلِمِینَ فَسَأَلُوهُ أَنْ یَرُدَّ إِلَیْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْیَهُمْ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَعِی مَنْ تَرَوْنَ وَأَحَبُّ الْحَدِیثِ إِلَیَّ أَصْدَقُهُ فَاخْتَارُوا إِحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ إِمَّا السَّبْیَ وَإِمَّا الْمَالَ وَقَدْ کُنْتُ اسْتَأْنَیْتُ بِکُمْ وَکَانَ أَنْظَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِضْعَ عَشْرَةَ لَیْلَةً حِینَ قَفَلَ مِنْ الطَّائِفِ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ غَیْرُ رَادٍّ إِلَیْهِمْإِلَّا إِحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ قَالُوا فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْیَنَا فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْمُسْلِمِینَ فَأَثْنَی عَلَی اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ إِخْوَانَکُمْ قَدْ جَاءُونَا تَائِبِینَ وَإِنِّی قَدْ رَأَیْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَیْهِمْ سَبْیَهُمْ فَمَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ یُطَیِّبَ ذَلِکَ فَلْیَفْعَلْ وَمَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ یَکُونَ عَلَی حَظِّهِ حَتَّی نُعْطِیَهُ إِیَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا یُفِیئُ اللَّهُ عَلَیْنَا فَلْیَفْعَلْ فَقَالَ النَّاسُ قَدْ طَیَّبْنَا ذَلِکَ یَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا لَا نَدْرِی مَنْ أَذِنَ مِنْکُمْ فِی ذَلِکَ مِمَّنْ لَمْ یَأْذَنْ فَارْجِعُوا حَتَّی یَرْفَعَ إِلَیْنَا عُرَفَاؤُکُمْ أَمْرَکُمْ فَرَجَعَ النَّاسُ فَکَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ ثُمَّ رَجَعُوا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ قَدْ طَیَّبُوا وَأَذِنُوا۔(بخاری، رقم 4318،4319)
’’مروان اور مسور بن مخرمہ سے روایت ہے کہ جب قبیلۂ ہوازنکا وفد مسلمان ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے اپنے مال اور قیدی لوٹانے کا مطالبہ کیا، تو آپ انھیں رخصت دینے کے لیے کھڑے ہو گئے اور اُن سے فرمایا: میرے ساتھ جو لوگ ہیں تم انھیں دیکھ ہی رہے ہو۔ میرے نزدیک پسندیدہ بات وہی ہے جو سچی ہو۔ تم اپنے مالوں اور قیدیوں میں سے کسی ایک چیز کو چن لو ، میں نے تم لوگوں کا خیال کرتے ہوئے (قیدیوں کی تقسیم میں) تاخیر کی تھی ۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے واپس آ کر تقریباً دس دن اِن کا انتظار کیا تھا ۔۔۔ جب اِن لوگوں پر واضح ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُنھیں دو چیزوں (مال اور قیدی) میں سے ایک ہی واپس کریں گے تو انھوں نے کہا، ہمیں اپنے قیدی چاہییں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے خطاب کیا اور خدا کی شایانِ شان حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا:تمھارے یہ بھائی توبہ کر کے (اور مسلمان ہو کر) ہمارے پاس آئے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ میں اِن کے قیدی اِن کے سپرد کر دوں، چنانچہ تم میں سے جسے یہ پسند ہو کہ وہ (بغیر کسی دنیوی صلہ کے) اِن کے قیدی انھیں واپس کر دے تو وہ ایسا کرے اور جسے یہ پسند ہو کہ وہ اپنے حصے کو اپنے پاس ہی رکھے یہاں تک کہ ہم آئندہ ملنے والی غنیمت میں سے اُسے اُس کا بدل دے دیں، تو وہ بھی چھوڑ دے۔ لوگوں نے کہا ، اے اللہ کے رسول ہم خوشی سے واپس کرنے کو تیار ہیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس طرح ہمیں اِس کا علم نہیں ہوا کہ کون خوشی سے دے رہا ہے اور کون نہیں دے رہا۔ اس لیے سب لوگ جائیں اور آپ کے سردار آپ لوگوں کا فیصلہ ہمارے پاس لائیں۔چنانچہ لوگ چلے گئے اور اُن کے سرداروں نے اُن سے بات کی۔ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بتایا کہ (ہمارے) لوگوں نے قیدی واپس کرنے کی اپنی خوشی سے اجازت دے دی ہے۔‘‘
________