عَنْ سَلَمَةَ قَالَ غَزَوْنَا فَزَارَةَ وَعَلَیْنَا أَبُو بَکْرٍ أَمَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَیْنَا فَلَمَّا کَانَ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْمَاءِ سَاعَةٌ أَمَرَنَا أَبُو بَکْرٍ فَعَرَّسْنَا ثُمَّ شَنَّ الْغَارَةَ فَوَرَدَ الْمَاءَ فَقَتَلَ مَنْ قَتَلَ عَلَیْهِ وَسَبَی وَأَنْظُرُ إِلَی عُنُقٍ مِنْ النَّاسِ فِیهِمْ الذَّرَارِیُّ فَخَشِیتُ أَنْ یَسْبِقُونِی إِلَی الْجَبَلِ فَرَمَیْتُ بِسَهْمٍ بَیْنهُمْ وَبَیْنَ الْجَبَلِ فَلَمَّارَأَوْا السَّهْمَ وَقَفُوا فَجِئْتُ بِهِمْ أَسُوقُهُمْ وَفِیهِمْ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِی فَزَارَةَ ۔۔۔مَعَهَا ابْنَةٌ لَهَا مِنْ أَحْسَنِ الْعَرَبِ ۔۔۔فَنَفَّلَنِی أَبُو بَکْرٍ ابْنَتَهَا فَقَدِمْنَا الْمَدِینَةَ وَمَا کَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا فَلَقِیَنِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی السُّوقِ فَقَالَ یَا سَلَمَةُ هَبْ لِی الْمَرْأَةَ فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ لَقَدْ أَعْجَبَتْنِی وَمَا کَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا ثُمَّ لَقِیَنِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْغَدِ فِی السُّوقِ فَقَالَ لِی یَا سَلَمَةُ هَبْ لِی الْمَرْأَةَ لِلَّهِ أَبُوکَ فَقُلْتُ هِیَ لَکَ یَا رَسُولَ اللَّهِ فَوَاللَّهِ مَا کَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا فَبَعَثَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَی أَهْلِ مَکَّةَ فَفَدَی بِهَا نَاسًا مِنْ الْمُسْلِمِینَ کَانُوا أُسِرُوا بِمَکَّةَ۔(مسلم، رقم 4573)، (ابو داود، رقم 2697)
’’سلمہ بن عمرو اکوع کہتے ہیں کہ ہم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی سالاری میں فزارہ قبیلے کے ساتھ لڑائی کی۔ اس سریہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ہم پر امیر بنایا تھا۔ جب ہمارے اور فزارہ کے گھاٹ کے درمیان تھوڑا ہی فاصلہ رہ گیا تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رات کے آخری حصے میں ہمیں اترنے کا کہا اور ہمیں اُن پر ہر طرف سے حملہ کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ ابو بکر( لوگوں کے ہمراہ) پانی پر داخل ہوئے اور وہاں قتل کیا جنھیں قتل کیا اور کچھ کو قیدی بنایا۔ میں اُن کی ایک ٹکڑی کو تاک رہا تھا، جس میں بچے بھی شامل تھے اور عورتیں بھی۔ مجھے خیال ہوا کہ یہ مجھ سے پہلے پہاڑ پر نہ جا پہنچیں، تو میں نے اُن کے اور پہاڑ کے درمیان ایک تیر پھینکا، انھوں نے جب وہ تیر دیکھا تو رک گئے۔ چنانچہ میں انھیں ہانکتا ہوا لے آیا۔اِن قیدیوں میں ایک عورت تھی ۔۔۔ جس کے ساتھ اُس کی بیٹی بھی تھی وہ عرب کی حسین ترین لڑکی تھی ۔۔۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وہ لڑکی انعام کے طور پر مجھے دے دی، ہم لوگ مدینہ واپس آئے۔ میں نے ابھی اُس لڑکی سے مقاربت بھی نہ کی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے بازار میں ملے ،تو انھوں نے کہا کہ اے سلمہ! وہ لڑکی مجھے دے دے۔ میں نے کہا، یارسول اللہ ! خدا کی قسم مجھے وہ بہت پسند آئی ہے اور میں نے تو ابھی اُس سے مقاربت بھی نہیں کی۔ پھر اگلے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ مجھے بازار میں ملے اور مجھ سے فرمایا: اے سلمہ! وہ لڑکی مجھے دے دے، تو بہت اچھے باپ کی اولاد ہے۔ تو میں نے کہا، اے اللہ کے رسول! وہ آپ کی ہے، بخدا میں نے ابھی اُس سے مقاربت بھی نہیں کی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے مکہ بھیج کر اُس کے بدلے میں کئی مسلمان قیدی رہا کرا لیے ۔‘‘
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ کَانَتْ ثَقِیفُ حُلَفَاءَ لِبَنِی عُقَیْلٍ فَأَسَرَتْ ثَقِیفُ رَجُلَیْنِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَسَرَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنْ بَنِی عُقَیْلٍ ۔۔۔فَفُدِیَ بِالرَّجُلَیْنِ۔(مسلم، رقم 4245)، (ترمذی، رقم 1568)، (احمد، رقم 19326)، (احمد، رقم 19378)
’’عمران بن حصین سے روایت ہے کہ ثقیف بنو عقیل کے حلیف تھے۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے دو آدمیوں کو پکڑ لیا اور صحابہ کرام نے بنو عقیل کے ایک آدمی کو پکڑ لیا ۔۔۔ چنانچہ اِس کے بدلے اُن دو صحابہ کوچھڑا لیا گیا۔‘‘
________