عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ یَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ کَانَ عَلَیَّ اعْتِکَافُ یَوْمٍ فِی الْجَاهِلِیَّةِ فَأَمَرَهُ أَنْ یَفِیَ بِهِ قَالَ وَأَصَابَ عُمَرُ جَارِیَتَیْنِ مِنْ سَبْیِ حُنَیْنٍ فَوَضَعَهُمَا فِی بَعْضِ بُیُوتِ مَکَّةَ قَالَ فَمَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَی سَبْیِ حُنَیْنٍ فَجَعَلُوا یَسْعَوْنَ فِی السِّکَکِ فَقَالَ عُمَرُ یَا عَبْدَ اللَّهِ انْظُرْ مَا هَذَا فَقَالَ مَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَی السَّبْیِ قَالَ اذْهَبْ فَأَرْسِلْ الْجَارِیَتَیْنِ۔(بخاری، رقم 3144)، (مسلم، رقم 4294)
’’عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اے اللہ کے رسول میں نے زمانۂ جاہلیت میں ایک دن کے اعتکاف کی منت مانی تھی۔ آپ نے اُسے پورا کرنے کا حکم دیا، راوی کہتے ہیں کہ اس وقت عمر رضی اللہ عنہ کو حنین کے قیدیوں میں سے دو باندیاں ملی تھیں، جنھیں آپ نے مکہ کے کسی گھر میں رکھا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے قیدیوں پر احسان کرتے ہوئے انھیں آزاد کر دیا، تو وہ (خوشی سے) گلیوں میں دوڑنے لگے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے (یہ بھاگنا دوڑنا محسوس کیا تو) عبداللہ سے کہا، دیکھو یہ کیا معاملہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں پر احسان کرتے ہوئے انھیں آزاد کر دیا ہے۔ اس پر انھوں نے عبداللہ سے کہا، تم جاؤ اور اُن دونوں لونڈیوں کو بھی آزاد کر دو۔‘‘
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۔۔۔انْطَلَقُوا حَتَّی نَزَلُوا بَدْرًا وَوَرَدَتْ عَلَیْهِمْ رَوَایَا قُرَیْشٍ وَفِیهِمْ غُلَامٌ أَسْوَدُ لِبَنِی الْحَجَّاجِ فَأَخَذُوهُ فَکَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَسْأَلُونَهُ عَنْ أَبِی سُفْیَانَ وَأَصْحَابِهِ فَیَقُولُ مَا لِی عِلْمٌ بِأَبِی سُفْیَانَ وَلَکِنْ هَذَا أَبُو جَهْلٍ وَعُتْبَةُ وَشَیْبَةُ وَأُمَیَّةُ بْنُ خَلَفٍ۔۔۔۔(مسلم، رقم 4621)
’’انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ (مدینے سے) چلے یہاں تک کہ آپ بدر پہنچ گئے اور اُن کے پاس سے قریش کے پانی پلانے والے گزرے، ان میں بنو حجاج کا ایک سیاہ غلام بھی تھا۔ صحابہ نے اسے پکڑ لیا اور اُس سے ابو سفیان اور اُس کے ساتھیوں کے بارے میں پوچھنے لگے ۔ اُس نے کہا کہ مجھے ابو سفیان کا علم نہیں ہے، البتہ ابو جھل، عتبہ،شیبہ اور امیہ بن خلف یہاں قریب ہی موجود ہیں۔‘‘
________