عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ یَقُولُ نَزَلَ أَهْلُ قُرَیْظَةَ عَلَی حُکْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فَأَرْسَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَی سَعْدٍ فَأَتَی عَلَی حِمَارٍ فَلَمَّا دَنَا مِنْ الْمَسْجِدِ قَالَ لِلْأَنْصَارِ قُومُوا إِلَی سَیِّدِکُمْ أَوْ خَیْرِکُمْ فَقَالَ هَؤُلَاءِ نَزَلُوا عَلَی حُکْمِکَ فَقَالَ تَقْتُلُ مُقَاتِلَتَهُمْ وَتَسْبِی ذَرَارِیَّهُمْ قَالَ قَضَیْتَ بِحُکْمِ اللَّهِ۔(بخاری، رقم 4121)، (مسلم ، رقم 4596)
’’ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب بنو قریظہ نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو حکم مان کر ہتھیار ڈال دیئے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بلا بھیجا، وہ گدھے پر سوار ہو کر آئے، جب وہ مسجد کے قریب پہنچے تو آپ نے انصار سے کہا کہ اپنے سردار کے لیے یا یہ کہا کہ اپنے بہترین آدمی کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔ آپ نے سعد سے فرمایا: انھوں نے تجھے فیصلے کا اختیار دیتے ہوئے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ سعد رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ کیا کہ اِن کے جنگجو قتل کیے جائیں اور اِن کے بچوں (اورعورتوں) کو قیدی بنایا جائے۔ آپ نے سعد سے فرمایا: تو نے اللہ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا۔‘‘
عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ أُصِیبَ سَعْدٌ یَوْمَ الْخَنْدَقِ رَمَاهُ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ یُقَالُ لَهُ حِبَّانُ بْنُ الْعَرِقَةِ ۔۔۔رَمَاهُ فِی الْأَکْحَلِ فَضَرَبَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَیْمَةً فِی الْمَسْجِدِ لِیَعُودَهُ مِنْ قَرِیبٍ فَلَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْخَنْدَقِ وَضَعَ السِّلَاحَ وَاغْتَسَلَ فَأَتَاهُ جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السَّلَام وَهُوَ یَنْفُضُ رَأْسَهُ مِنْ الْغُبَارِ فَقَالَ قَدْ وَضَعْتَ السِّلَاحَ وَاللَّهِ مَا وَضَعْتُهُ اخْرُجْ إِلَیْهِمْ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَیْنَ فَأَشَارَ إِلَی بَنِی قُرَیْظَةَ فَأَتَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلُوا عَلَی حُکْمِهِ فَرَدَّ الْحُکْمَ إِلَی سَعْدٍ قَالَ فَإِنِّی أَحْکُمُ فِیهِمْ أَنْ تُقْتَلَ الْمُقَاتِلَةُ وَأَنْ تُسْبَی النِّسَاءُ وَالذُّرِّیَّةُ وَأَنْتُقْسَمَ أَمْوَالُهُمْ۔(بخاری، رقم4122)، (مسلم، رقم 4598)
’’عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ غزوہ خندق کے موقع پر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ زخمی ہو گئے۔ انھیں قریش کے ایک آدمی حبان بن عرفہ نے تیر مارا تھا ۔۔۔ یہ تیر آپ کو بازو کی رگ میں لگا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے لیے مسجد کے اندر ہی ایک خیمہ لگوا دیا تھا تا کہ آپ قریب سے اُن کی عیادت کر سکیں۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂخندق سے لوٹے اور آپ نے ہتھیار اتار کر غسل کر لیا تو جبرئیل علیہ السلام اپنے سر سے غبار جھاڑتے ہوئے آپ کے پاس آئے اور کہا آپ نے اپنے ہتھیار رکھ دیئے، بخدا میں نے تو ہتھیار نہیں رکھے، ان کے طرف نکلیے۔ آپ نے پوچھا کن کی طرف؟تو انھوں نے بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف بڑھے (اور اُن کا محاصرہ کیا حتی کہ) انھوں نے آپ کے آگے ہتھیار ڈال دیئے، آپ نے ان کے معاملے میں فیصلے کا اختیار سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔ انھوں نے کہا کہ میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ اِن کے جنگجو قتل کر دیئے جائیں، عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کے مال (مسلمانوں میں) تقسیم کر دیئے جائیں۔‘‘
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَمَّا فَدَعَ أَهْلُ خَیْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَامَ عُمَرُ خَطِیبًا فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ کَانَ عَامَلَ یَهُودَ خَیْبَرَ عَلَی أَمْوَالِهِمْ وَقَالَ نُقِرُّکُمْ مَا أَقَرَّکُمْ اللَّهُ وَإِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ خَرَجَ إِلَی مَالِهِ هُنَاکَ فَعُدِیَ عَلَیْهِ مِنْ اللَّیْلِ فَفُدِعَتْ یَدَاهُ وَرِجْلَاهُ وَلَیْسَ لَنَا هُنَاکَ عَدُوٌّ غَیْرَهُمْ هُمْ عَدُوُّنَا وَتُهْمَتُنَا وَقَدْ رَأَیْتُ إِجْلَاءَ هُمْ فَلَمَّا أَجْمَعَ عُمَرُ عَلَی ذَلِکَ أَتَاهُ أَحَدُ بَنِی أَبِی الْحُقَیْقِ فَقَالَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ أَتُخْرِجُنَا وَقَدْ أَقَرَّنَا مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَعَامَلَنَا عَلَی الْأَمْوَالِ وَشَرَطَ ذَلِکَ لَنَا فَقَالَ عُمَرُ أَظَنَنْتَ أَنِّی نَسِیتُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ کَیْفَ بِکَ إِذَا أُخْرِجْتَ مِنْ خَیْبَرَ تَعْدُو بِکَ قَلُوصُکَ لَیْلَةً بَعْدَ لَیْلَةٍ فَقَالَ کَانَتْ هَذِهِ هُزَیْلَةً مِنْ أَبِی الْقَاسِمِ قَالَ کَذَبْتَ یَا عَدُوَّ اللَّهِ فَأَجْلَاهُمْ عُمَرُ وَأَعْطَاهُمْ قِیمَةَ مَا کَانَ لَهُمْ مِنْ الثَّمَرِ مَالًا وَإِبِلًا وَعُرُوضًا مِنْ أَقْتَابٍ وَحِبَالٍ وَغَیْرِ ذَلِکَ۔(بخاری، رقم 2730)
’’ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ جب اہل خیبر نے اُن کے ہاتھ پاؤں توڑ دیئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہود سے اُن کے مالوں کے بارے میں جب معاملہ طے کیا تھا تو اُس وقت یہ فرما دیا تھا کہ ہم تمھیں اِس پر برقرار رکھیں گے جب تک اللہ تعالیٰ تمھیں اِس پر برقرار رکھے گا۔ اب صورت حال یہ ہوئی ہے کہ عبداللہ بن عمر وہاں اپنے اموال کے سلسلے میں گئے تھے تو رات کی تاریکی میں اُنھیں مارا پیٹا گیا جس کے نتیجے میں اُن کے ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے۔ وہاں اِن یہود کے علاوہ ہمارا کوئی اور دشمن نہیں ہے۔ یہی ہمارے دشمن ہیں اور ہمیں انھی پر شبہ ہے۔میری رائے ہے کہ انھیں جلا وطن کر دیا جائے۔ پھر جب عمرر ضی اللہ عنہ نے اِس پر اپنی پختہ رائے قائم کر لی، تو بنو ابی الحقیق کا ایک آدمی آپ کے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ اے امیر المؤمنین کیا آپ ہمیں وہاں سے نکالیں گے حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وہاں باقی رکھا تھا، وہاں ہماری جائیدادوں کے حوالے سے ہمارے ساتھ ایک معاملہ بھی طے کیا تھا اور ہمارے وہیں رہنے کی شرط آپ نے مان لی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تمھارا کیا خیال ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ بات بھول گیا ہوں، جو انھوں نے تجھ سے فرمائی تھی کہ اس وقت تیرا کیا حال ہو گاجب تو خیبر سے نکالا جائے گا اور تجھے تیرے اونٹ راتوں میں لیے لیے پھریں گے۔ تو اُس نے کہا یہ تو ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ایک مذاق تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے اللہ کے دشمن تم جھوٹ کہہ رہے ہو۔ تو آپ نے انھیں جلا وطن کر دیا اور اُنھیں اُن کے پھلوں کی قیمت کچھ نقدی، کچھ اونٹوں، اُن کے کجاوں، رسیوں اور بعض دوسری چیزوں کی صورت میں ادا کر دی۔‘‘
________