HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rafi Mufti

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

باطل طریقوں سے مال حاصل کرنے کی مناہی

عَنِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهَی أَنْ یَبِیعَ الرَّجُلُ طَعَامًا حَتَّی یَسْتَوْفِیَهُ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ کَیْفَ ذَاکَ قَالَ ذَاکَ دَرَاهِمُ بِدَرَاهِمَ وَالطَّعَامُ مُرْجَأٌ۔(بخاری، رقم ۲۱۳۲، بخاری، رقم ۲۱۲۴)
’’ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ غلے کو پوری طرح اپنے قبضے میں لینے سے پہلے بیچا جائے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے پوچھا کہ یہ کیسے ممنوع ہے، انھوں نے جواب دیا کہ یہ تو درہموں کے بدلے درہموں کو بیچنا ہوا، جب کہ غلہ تو ابھی اپنے وقت پر آنا ہے۔‘‘

 

عَنِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَنْابْتَاعَ طَعَامًا فلا یَبِعْهُ حتی یَکْتَالَهُ، فَقُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ لِمَ فَقَالَ أَلَا تُرَاهُمْ یَبْتَاعُونَ بِالذَّهَبِ وَالطَّعَامُ مُرْجَأٌ۔(مسلم، رقم ۳۸۳۹)
’’ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص غلہ خریدے، وہ اُسے اُس وقت تک نہ بیچے جب تک وہ اُسے ناپ تول نہ لے۔ راوی کہتے ہیں، میں نے ابن عباس سے پوچھا کہ کیوں؟ تو اُنھوں نے جواب دیا کہ کیا تم دیکھتے نہیں کہ لوگ غلہ سونے (چاندی) کے بدلے میعاد پر بیچتے ہیں۔‘‘

 

عَنِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمَاقَالَ کُنَّا فِیْ زَمَانِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَبْتَاعُ الطَّعَامَ فَیَبْعَثُ عَلَیْنَا مَنْ یَأْمُرُنَا بِانْتِقَالِهِ مِنَ الْمَکَانِ الَّذِی ابْتَعْنَاهُ فِیْهِ إِلَی مَکَانٍ سِوَاهُ قَبْلَ أَنْ نَبِیعَهُ۔(مسلم، رقم ۳۸۴۱)
’’ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں غلہ خریدا کرتے تھے، تو آپ ہمارے پاس کسی شخص کو بھیجتے جو ہمیں بیچنے سے پہلے وہ غلہ خرید کی جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیتا تھا۔‘‘
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ نُهِینَا أَنْ یَبِیعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ۔(بخاری، رقم ۲۱۶۱، مسلم، رقم ۳۴۵۹)
’’انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمیں اِس سے روکا گیا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کے لیے خرید و فروخت کرے۔‘‘

 

عَنِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمَا قَالَ نَهَی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النَّجْشِ۔(بخاری، رقم ۲۱۴۲، مسلم، رقم ۳۸۱۸)
’’ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجش (قیمت بڑھانے کے لیے دھوکے کی بولی دینے)سے منع فرمایا ہے۔‘‘

 

عَنِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهَی عَنِ الْمُزَابَنَةِ، قَالَ وَالْمُزَابَنَةُ أَنْ یَبِیعَ الثَّمَرَ بِکَیْلٍ إِنْ زَادَ فَلِی وَإِنْ نَقَصَ فَعَلَیَّ۔(بخاری، رقم ۲۱۷۲)
’’ابنِ عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے روکا ہے۔ راوی کہتےہیں کہ مزابنہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص درخت پر موجود کھجور سوکھی کھجور کے عوض ماپ تول کر بیچے اور خریدار کہے کہ اگر درخت کا پھل اس سوکھے پھل سے زیادہ نکلا، تو وہ اُس کا ہو گا اور اگر کم نکلا تو وہ نقصان بھر دے گا۔‘‘

 

عَنْ زَیْدِ بنِ ثَابِتٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فی الْعَرَایَا بِخَرْصِهَا۔(بخاری، رقم ۲۱۷۳)
’’زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرایا میں اُس کے اندازہ ہونے کے باوجود رخصت دی ہے۔‘‘

 

عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ بَعْدَ ذلک فی بَیْعِ الْعَرِیَّةِ بِالرُّطَبِ أو بِالتَّمْرِ ولم یُرَخِّصْ فی غَیْرِهِ۔(بخاری، رقم ۲۱۸۴)
’’زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد تر یا خشک کھجور کے بدلے میں بیعِ عریہ کی اجازت دے دی تھی۔ البتہ اِس کے سوا کسی اور صورت کی اجازت نہیں دی تھی۔‘‘

 

عَنْ أَبِیْ سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهَی عَنِ الْمُزَابَنَةِ وَالْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةُ اشْتِرَاءُ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ عَلَی رُؤُوسِ النَّخْلِ۔(بخاری، رقم ۲۱۸۶)
’’ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ اور محاقلہ سے منع فرمایا ہے، اور مزابنہ درخت پر موجود کھجور کو درخت سے اتری ہوئی کھجور کے بدلے میں خریدنا ہے۔‘‘

 

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمَا نَهَی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُخَابَرَةِ وَالْمُحَاقَلَةِ وَعَنْ الْمُزَابَنَةِ وَعَنْ بَیْعِ الثَّمَرِ حَتَّی یَبْدُوَ صَلَاحُهَا وَأَنْ لَا تُبَاعَ إِلَّا بِالدِّینَارِ وَالدِّرْهَمِ إِلَّا الْعَرَایَا۔(بخاری، رقم ۲۳۸۱)
’’جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مخابرہ، محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ اسی طرح آپ نے درخت پر پھل کی صلاحیت نمایاں ہونے سے پہلے بیچنے سے بھی منع فرمایا ہے اور اُسے درہم و دینار کے سوا کسی چیز کے عوض بیچنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ البتہ آپ نے عرایا کی اجازت دی ہے۔‘‘

 

عَنْ جَابِرِ بنِ عَبْدِ اللّٰهِ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهَی عَنِ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ وَالْمُخَابَرَةِ وَأَنْ تُشْتَرَی النَّخْلُ حَتَّی تُشْقِهَ وَالأَشْقَاهُ أَنْ یَحْمَرَّ أو یَصْفَرَّ أو یُؤْکَلَ منه شَیْءٌ وَالْمُحَاقَلَةُ أَنْ یُبَاعَ الْحَقْلُ بِکَیْلٍ من الطَّعَامِ مَعْلُومٍ وَالْمُزَابَنَةُ أَنْ یُبَاعَ النَّخْلُ بِأَوْسَاقٍ مِنَ التَّمْرِ وَالْمُخَابَرَةُ الثُّلُثُ وَالرُّبُعُ وَأَشْبَاهُ ذَلِکَ۔(مسلم، رقم۳۹۱۱)
’’جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ، مزابنہ اور مخابرہ سے منع فرمایا ہے اور کھجوروں کے گدّرانے سے پہلے اُن کے درخت خریدنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ گدّرانے کا مطلب پھلوں کا پک کر سرخ یا زرد ہو جانا یا کھانے کے لائق ہو جانا ہے، محاقلہ کھیتی کو خوشوں ہی میں متعین غلے کے عوض بیچ دینا ہے، مزابنہ درخت پر موجود کھجور کو درخت سے اتری ہوئی کھجور کے کچھ وسق کے بدلے میں بیچنا ہے اور مخابرہ ایک تہائی، چوتھائی یا اِس کی مثل پیداوار کے عوض زمین کو کاشت کے لیے دینا ہے۔‘‘

 

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ قَالَ نَهَی رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَعَنِ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ وَالْمُعَاوَمَةِ وَالْمُخَابَرَةِ قال أَحَدُهُمَا بَیْعُ السِّنِینَ هِیَ الْمُعَاوَمَةُ وَعَنِ الثُّنْیَا وَرَخَّصَ فی الْعَرَایَا۔(مسلم، رقم ۳۹۱۳)
’’جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ، مزابنہ، معاومہ اور مخابرہ سے منع فرمایا ہے۔ (اس حدیث کے دو راویوں میں سے) ایک نے کہا کہ معاومہ درختوں کے پھل کو کئی سال کے لیے بیچ دینا ہے۔ اسی طرح آپ نے مجھول استثنا والی بیع سے بھی روکا ہے، البتہ آپ نے بیعِ عرایا کی اجازت دی ہے۔‘‘

 

عَنْ أَبِیِ سَعِیدٍ الْخُدْرِیْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ نَهَانَا رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعَتَیْنِ وَلِبْسَتَیْنِ نَهَی عَنِ الْمُلَامَسَةِ وَالْمُنَابَذَةِ فِی الْبَیْعِ وَالْمُلَامَسَةُ لَمْسُ الرَّجُلِ ثَوْبَ الْآخَرِ بِیَدِهِ بِاللَّیْلِ أَوْ بِالنَّهَارِ وَلَا یَقْلِبُهُ إِلَّا بِذَلِکَ وَالْمُنَابَذَةُ أَنْ یَنْبِذَ الرَّجُلُ إِلَی الرَّجُلِ بِثَوْبِهِ وَیَنْبِذَ الْآخَرُ إِلَیْهِ ثَوْبَهُ وَیَکُونُ ذَلِکَ بَیْعَهُمَا مِنْ غَیْرِ نَظَرٍ وَلَا تَرَاضٍ۔(بخاری، رقم ۲۱۴۴، ۵۸۴، مسلم، رقم ۳۸۰۱، ۳۸۰۶)
’’ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو طرح کی تجارت اور دو طرح کے کپڑوں سے منع فرمایا ہے۔ تجارت میں آپ نے ملامسہ اور منابذہ سے منع فرمایا ہے۔ ملامسہ ایک شخص کا دن یا رات کے وقت میں اپنے ہاتھ سے دوسرے کا کپڑا بیع کی نیت سے الٹتے پلٹتے ہوئے، چھونا ہے۔اور منابذہ یہ ہے کہ لینے اور دینے والا دونوں ایک دوسرے کی طرف اپنا اپنا کپڑا پھینک دیں اور پھر بغیرکسی غور و فکر اور باہمی رضامندی کے محض اس عمل سے بیع منعقد ہو جائے۔‘‘

 

عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهَی عَنْ بَیْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ وَکَانَ بَیْعًا یَتَبَایَعُهُ أَهْلُ الْجَاهِلِیَّةِ کَانَ الرَّجُلُ یَبْتَاعُ الْجَزُورَ إِلَی أَنْ تُنْتَجَ النَّاقَةُ ثُمَّ تُنْتَجُ الَّتِی فِیْ بَطْنِهَا۔(بخاری، رقم ۲۱۴۳، مسلم، رقم ۳۸۱۰)
’’عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمل کے حمل کی بیع سے منع فرمایا ہے۔ یہ بیع اہلِ جاہلیت میں رائج تھی ۔ اس کی صورت یہ تھی کہ اونٹ خریدے جاتے اور اُن کی قیمت کی ادائیگی کے لیے یہ وقت مقرر کیا جاتا کہ جب فلاں حاملہ اونٹنی سے پیدا ہونے والی اونٹنی بڑی ہو کر جنے گی تو اُس وقت اِن اونٹوں کی قیمت ادا کی جائے گی۔‘‘

 

عَنْ أَبِیْ هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ نَهَی رَسُولُ اللّٰهِصَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ الْحَصَاةِ وَعَنْ بَیْعِ الْغَرَرِ۔(مسلم، رقم ۳۸۰۸)
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع الحصاۃ (کنکری کی بیع) اور بیع الغرر (دھوکے کی بیع) سے منع فرمایا ہے۔‘‘

 

عَنِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمَا، نَهَی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ الثَّمَرَةِ حَتَّی یَبْدُوَ صَلَاحُهَا وَکَانَ إِذَا سُئِلَ عَنْ صَلَاحِهَا قَالَ حَتَّی تَذْهَبَ عَاهَتُهُ۔(بخاری، رقم ۱۴۸۶)
’’ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت پر لگے پھل کو اُس کی پختگی ظاہر ہونے سے پہلے بیچنے سے منع فرمایا ہے۔آپ سے پوچھا گیا کہ پھل کی پختگی کیا ہے تو آپ نے فرمایاکہ جب یہ معلوم ہو جائے کہ اب یہ آفت سے محفوظ رہے گا۔‘‘

 

عَنِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَا تَبْتَاعُوا الثَّمَرَ حَتَّی یَبْدُوَ صَلَاحُهُ وَتَذْهَبَ عَنْهُ الْآفَةُ قَالَ یَبْدُوَ صَلَاحُهُ حُمْرَتُهُ وَصُفْرَتُهُ۔(مسلم، رقم ۳۸۶۵)
’’ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ درخت پر لگے پھل کو اُس وقت تک نہ بیچو جب تک اُس کی پختگی ظاہر ہو جائے اور وہ آفت سے محفوظ نہ ہو جائے۔ آپ نے فرمایا کہ پختگی ظاہر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اُس کی سرخی یا زردی نمودار ہو جائے۔‘‘

 

عَنِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهَی عَنْ بَیْعِ النَّخْلِ حَتَّی یَزْهُوَ وَعَنْ السُّنْبُلِ حَتَّی یَبْیَضَّ وَیَأْمَنَ الْعَاهَةَ نَهَی الْبَائِعَ وَالْمُشْتَرِیَ۔(مسلم، رقم ۳۸۶۴)
’’ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کجھور کے پھل کو اُس کے سرخ یا زرد ہونے سے پہلے اور بالی کے سفید ہو کر آفت سے محفوظ ہوجانے سے پہلے بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ آپ نے بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کو منع فرمایا ہے۔‘‘

 

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِیَاللّٰهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعت رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ وَلَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ بَاعَ مِنْ أَخِیهِ بَیْعًا فِیْهِ عَیْبٌ إِلَّا بَیَّنَهُ لَهُ۔(ابن ماجه، رقم ۲۲۴۶)
’’عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو کوئی عیب والی چیز بیچے سوائے اِس کے کہ وہ اُسے عیب بتا دے۔‘‘ 

 

عَنْ أَبِیْ هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وِآلِهِ وَسَلَّمَ لَا تُصَرُّوا الْإِبِلَ وَالْغَنَمَ فَمَنْ ابْتَاعَهَا بَعْدُ فإنه بِخَیْرِ النَّظَرَیْنِ بَعْدَ أَنْ یَحْتَلِبَهَا إن شَاءَ أَمْسَکَ وَإِنْ شَاءَ رَدَّهَا وَصَاعَ تَمْر۔(بخاری، رقم ۲۱۴۸، مسلم، رقم ۳۸۱۵)
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (بیچنے کی خاطر) اونٹنیوں اور بکریوں کے تھنوں میں دودھ روک کر نہ رکھو۔ چنانچہ جس نے (دھوکے میں آ کر) کوئی ایسا جانور خرید لیا تو اُسے دودھ دوہنے کے بعد دونوں طرح کا اختیار ہو گا، وہ چاہے تو جانور رکھ لے اور چاہے تو واپس کر دے اور اُس کے ساتھ (دودھ کے بدلے میں) ایک صاع کھجور دے دے۔‘‘

 

عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا یَبِیعُ بَعْضُکُمْ عَلَی بَیْعِ بَعْضٍ وَلَا تَلَقَّوْا السِّلَعَ حَتَّی یُهْبَطَ بِهَا إِلَی السُّوقِ۔(بخاری، رقم ۲۱۶۵)
’’عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی اپنے بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے اور باہر سے آنے والے مال کو آگے جا کر نہ ملے، یہاں تک کہ وہ منڈی میں پہنچ جائے۔‘‘

 

عَنْ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهَی أَنْ تُتَلَقَّی السِّلَعُ حَتَّی تَبْلُغَ الْأَسْوَاقَ۔(مسلم، رقم ۳۸۱۹)
’’عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ باہر سے آنے والے مال کو آگے جا کر ملا جائے، یہاں تک کہ وہ منڈی میں پہنچ جائے۔‘‘
عَنِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمَا قَالَ قَدِمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَةَ وَهُمْ یُسْلِفُونَ بِالتَّمْرِ السَّنَتَیْنِ وَالثَّلَاثَ فَقَالَ مَنْ أَسْلَفَ فِیْ شَیْءٍ فَفِی کَیْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إلی أَجَلٍ مَعْلُومٍ۔(بخاری، رقم ۲۲۴۰، مسلم، رقم ۴۱۱۸)
’’ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو وہاں کے لوگ کجھور میں دو دو تین تین سال کے لیے بیع سلم کیا کرتے تھے۔ آپ نے انھیں ہدایت فرمائی کہ جسے کسی چیز کی بیع سلم کرنی ہو اُسے وہ متعین پیمانے، متعین وزن اور متعین مدت کے لیے کرے۔‘‘

 

عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ قَالَ کُنَّا أَکْثَرَ أَهْلِ الْمَدِینَةِ مُزْدَرَعًا کُنَّا نُکْرِی الْأَرْضَ بِالنَّاحِیَةِ مِنْهَا مُسَمًّی لِسَیِّدِ الأرض قَالَ فَمِمَّا یُصَابُ ذَلِکَ وَتَسْلَمُ الْأَرْضُ وَمِمَّا یُصَابُ الْأَرْضُ وَیَسْلَمُ ذَلِکَ فَنُهِینَا وَأَمَّا الذَّهَبُ وَالْوَرِقُ فَلَمْ یَکُنْ یَوْمَئِذٍ۔(بخاری، رقم ۲۳۲۷)
’’رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ مدینہ میں زیادہ تر کھیت ہمارے ہی پاس تھے۔ ہم وہ کھیت دوسروں کو اس شرط پر کاشت کاری کے لیے دیا کرتے تھے کہ کھیت کے ایک متعین حصے کی پیداوار زمیندار کی ہو گی۔ وہ کہتے ہیں کہ پھر بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ کھیت کے اسی حصے کی پیداوار ماری جاتی اورباقی کھیت سلامت رہتا اور بعض دفعہ سارے کھیت کی پیداوار ماری جاتی اور صرف وہی حصہ سلامت رہتا۔ چنانچہ ہمیں اس طرح معاملہ کرنے سے روک دیا گیا۔ جہاں تک سونے اور چاندی کا تعلق ہے تو اُس زمانے میں اُن کے عوض زمین ٹھیکے پر دینے کا رواج نہیں تھا۔‘‘

 

عَنْ جَابِرِ بنِ عَبْدِ اللّٰهِ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمَا قَالَ قَضَی رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالشُّفْعَةِ فی کل ما لم یُقْسَمْ فإذا وَقَعَتْ الْحُدُودُ وَصُرِّفَتْ الطُّرُقُ فلا شُفْعَةَ۔(بخاری، رقم ۲۲۵۷)
’’جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اُس چیز میں شفعہ کا حق دیا تھا جو ابھی تقسیم نہ ہوئی ہو۔ لیکن جب حدود مقرر ہو جائیں اور راستے بدل دیئے گئے ہوں تو پھر شفعہ کا کوئی حق باقی نہیں رہتا۔‘‘

 

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَنْ کَانَ لَهُ شَرِیکٌ فِیْ رَبْعَةٍ أَوْ نَخْلٍ فَلَیْسَ لَهُ أَنْ یَبِیعَ حَتَّی یُؤْذِنَ شَرِیکَهُ فَإِنْ رَضِیَ أَخَذَ وَإِنْ کَرِهَ تَرَکَ۔(مسلم، رقم ۴۱۲۷)
’’جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا زمین یا باغ میں کوئی شریک موجود ہو ، اُس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے شریک کو بتائے بغیر اپنا حصہ کسی اور کے ہاتھ بیچ دے۔ پھر وہ شریک خریدنا چاہتا ہو تو خرید لے، ورنہ چھوڑ دے۔‘‘

________

 

B