عَنْ بنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ رَأَی مِنْ أَمِیرِهِ شیئا یَکْرَهُهُ فَلْیَصْبِرْ علیه فإنه من فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ إلا مَاتَ مِیتَةً جَاهِلِیَّةً۔ (بخاری، رقم ۷۰۵۴)
’’ ابن عباس نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جس نے اپنے حکمران کی طرف سے کوئی ناپسندیدہ بات دیکھی، اُسے چاہیے کہ صبر کرے، کیونکہ جو ایک بالشت کے برابر بھی مسلمانوں کے نظم اجتماعی سے الگ ہوا اور اِسی حالت میں مر گیا، اُس کی موت جاہلیت پر ہوئی۔‘‘
عَنْ بنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ کَرِهَ مِنْ أَمِیرِهِ شیئا فَلْیَصْبِرْ فإنه من خَرَجَ من السُّلْطَانِ شِبْرًا مَاتَ مِیتَةً جَاهِلِیَّةً۔(بخاری، رقم ۷۰۵۳)
’’ ابن عباس نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جسے حکمران کی کوئی بات ناگوار گزرے ، اُسے صبر کرنا چاہیے ،کیونکہ جو ایک بالشت کے برابر بھی اقتدار کی اطاعت سے نکلا اور اِسی حالت میں مر گیا ، اُس کی موت جاہلیت پر ہوئی۔‘‘
عَنْ حُذَیْفَةَ بنِ الْیَمَانِ یَقُولُ کَانَ النَّاسُ یَسْأَلُونَ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَیْرِ وَکُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ یُدْرِکَنِی فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللّٰهِ إِنَّا کُنَّا فِیْ جَاهِلِیَّةٍ وَشَرٍّ فَجَاءَ نَا اللّٰهُ بِهَذَا الْخَیْرِ فَهَلْ بَعْدَ هذا الْخَیْرِ مِنْ شَرٍّ قال نعم قلت وَهَلْ بَعْدَ ذلک الشَّرِّ مِنْ خَیْرٍ قال نعم وَفِیهِ دَخَنٌ قُلْتُ وما دَخَنُهُ قَالَ قَوْمٌ یَهْدُونَ بِغَیْرِ هَدْیِی تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْکِرُ قُلْتُ فَهَلْ بَعْدَ ذَلِکَ الْخَیْرِ من شَرٍّ قال نَعَمْ دُعَاةٌ إلی أَبْوَابِ جَهَنَّمَ من أَجَابَهُمْ إِلَیْهَا قَذَفُوهُ فیها قُلْتُ یَا رَسُولَ اللهِ صِفْهُمْ لَنَا فَقَالَ هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا وَیَتَکَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا قُلْتُ فَمَا تَأْمُرُنِی إِنْ أَدْرَکَنِی ذَلِکَ قَالَ تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِینَ وَإِمَامَهُمْ قُلْتُ فَإِنْ لم یَکُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ ولا إِمَامٌ قَالَ فَاعْتَزِلْ تِلْکَ الْفِرَقَ کُلَّهَا وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حتی یُدْرِکَکَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَی ذَلِکَ۔(بخاری، رقم ۳۶۰۶، مسلم، رقم ۴۷۸۴)
’’ حذیفہ بن یمان روایت کرتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے ، لیکن میں آپ سے شر کے بارے میں سوال کیا کرتا اس خوف سے کہیں وہ شر مجھے لاحق نہ ہو جائے۔چنانچہ (ایک موقع پر) میں نے آپ سے پوچھا، اے اللہ کے رسول ہم لوگ برائی اور جاہلیت میں گرفتار تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں (اسلام کی) یہ خیر و برکت عطا فرمائی، تو کیا اس خیر کے بعد پھر کوئی شر ہو گا۔ آپ نے فرمایا: ہاں۔ میں نے پوچھا کہ اُس شر کے بعد کیا خیر کا پھر کوئی زمانہ آئے گا۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں لیکن اُس خیر میں دینی کمزوری ہو گی۔ میں نے پوچھا کیا کمزوری ہو گی؟آپ نے فرمایا: ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو میری لائی ہوئی ہدایت کے علاوہ ہدایت کو اختیار کریں گے۔ ان میں کوئی اچھی بات ہو گی اور کوئی بُری ۔ میں نے پوچھا کہ کیا اِس خیر کے بعد پھر شر کا کوئی زمانہ آئے گا۔ آپ نے فرمایا: جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے پیدا ہوں گے۔ جو ان کی بات قبول کرے اُسے وہ جہنم میں جھونک دیں گے۔ میں نے گزارش کی اُن کے کچھ اوصاف بیان فرما دیجیے۔ آپ نے فرمایا: وہ ہمارے ہی (قوم و مذہب کے) لوگ ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولیں گے۔ چنانچہ میں نے عرض کیا کہ اگر میں اُن کا زمانہ پاؤں تو آپ مجھے اُن کے حوالے سے کیا حکم دیتے ہیں۔آپ نے فرمایا: تم مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی اور اُن کے حکمران سے وابستہ رہو۔ میں نے پوچھا کہ اگر مسلمانوں کا نہ کوئی نظمِ اجتماعی ہوا اور نہ کوئی حکمران۔ آپ نے فرمایا: پھر تم (جہنم کی طرف بلانے والے) اِن تمام فرقوں سے بہرحال، اپنے آپ کو الگ رکھنا، خواہ اِس کے نتیجے میں (تم اتنے تنہا رہ جاؤ کہ) تمھیں کسی درخت کی جڑ چبا کر زندگی گزارنا پڑے۔ تم اسی حالت پر قائم رہنا حتی کہ تمھاری موت آ جائے۔‘‘
عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَیْکَ السَّمْعَ وَالطَّاعَةَ فی عُسْرِکَ وَیُسْرِکَ وَمَنْشَطِکَ وَمَکْرَهِکَ وَأَثَرَةٍ عَلَیْکَ۔(مسلم، رقم ۴۷۵۴)
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پر لازم ہے کہ اپنے حکمرانوں کے ساتھ سمع و طاعت کا رویہ اختیار کرو، چاہے تم تنگی میں ہو یا آسانی میں اور چاہے یہ رضا و رغبت کے ساتھ ہو یا بے دلی کے ساتھ اور اِس کے باوجود کہ تمھارا حق تمھیں نہ پہنچے۔‘‘
عَنِ بْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ عَلَی الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ فِیمَا أَحَبَّ وَکَرِهَ إلا أَنْ یُؤْمَرَ بِمَعْصِیَةٍ فَإِنْ أُمِرَ بِمَعْصِیَةٍ فلا سَمْعَ ولا طَاعَةَ۔(مسلم، رقم ۴۷۶۳)
’’ابن عمر رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان پر لازم ہے کہ خواہ اُسے پسند ہو یا ناپسند، وہ ہر حال میں اپنے حکمران کی بات سنے اور مانے ، سواے اِس کے کہ اُسے کسی معصیت کا حکم دیا جائے ۔ پھر اگر معصیت کا حکم دیا گیا ہے تو نہ سننا ہے نہ ماننا۔‘‘
عَنْ أَنَسِ بنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اسْمَعُوا وَأَطِیعُوا وَإِنْ اسْتُعْمِلَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ حَبَشِیٌّ کَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِیبَةٌ۔(بخاری، رقم ۷۱۴۲)
’’انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو اور مانو، اگرچہ تمھارے اوپر کسی حبشی غلام کو حکمران بنا دیا جائے جس کا سر منقا جیسا ہو۔‘‘
عَنْ عُبَادَةَ بنِ الصَّامِتِ ۔۔۔قَالَ دَعَانَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَبَایَعْنَاهُ فقال فِیمَا أَخَذَ عَلَیْنَا أَنْ بَایَعَنَا علی السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فی مَنْشَطِنَا وَمَکْرَهِنَا وَعُسْرِنَا وَیُسْرِنَا وَأَثَرَةً عَلَیْنَا وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ إلا أَنْ ترو کُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَکُمْ من اللّٰهِ فیه بُرْهَانٌ۔(بخاری، رقم ۷۰۵۶)
’’عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بیعت کے لیے بلایا تو ہم نے آپ سے بیعت کی۔ راوی کا بیان ہے کہ اُس میں جن باتوں کا عہد لیا گیا ، وہ یہ تھیں کہ ہم سنیں گے اور مانیں گے، چاہے یہ رضا و رغبت کے ساتھ ہو یا بے دلی کے ساتھ اور چاہے ہم تنگی میں ہوں یا آسانی میں اور اِس کے باوجود کہ ہمارا حق ہمیں نہ پہنچے اور یہ بھی کہ ہم اپنے حکمرانوں سے اقتدار کے معاملے میں کوئی جھگڑا نہ کریں گے۔ تم اُن سے جھگڑا صرف اُس صورت میں کر سکتے ہو، جب کوئی کھلا کفر اُن کی طرف سے دیکھو اورتمھارے پاس اِس معاملے میں اللہ کی واضح حجت موجود ہو۔‘‘
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِنَّهُ یُسْتَعْمَلُ عَلَیْکُمْ أُمَرَاءُ فَتَعْرِفُونَ وَتُنْکِرُونَ فَمَنْ کَرِهَ فَقَدْ بَرِءَ وَمَنْ أَنْکَرَ فَقَدْ سَلِمَ وَلَکِنْ من رضی وَتَابَعَ قالوا یا رَسُولَ اللّٰهِ ألا نُقَاتِلُهُمْ قال لَا ما صَلَّوْا۔(مسلم، رقم۴۸۰۱)
’’ ام سلمہ رضی اللہ عنھا زوجۂِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: تم پر ایسے لوگ حکومت کریں گے جن کی بعض باتیں تمھیں اچھی لگیں گی اور بعض بری۔ پھر جس نے بری باتوں کو ناپسند کیا ، وہ بری الذمہ ہوا اور جس نے اُن کا انکار کیا ، وہ بھی محفوظ رہا۔ مگر جو اُن پر راضی ہوا اور پیچھے چل پڑا (تو اُس سے پوچھا جائے گا)۔ صحابہ نے پوچھا: یہ صورت ہو تو یا رسول اللہ ، کیا ہم اُن سے جنگ نہ کریں؟ آپ نے فرمایا:نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے ہوں۔‘‘
عَنْ عَوْفِ بن مَالِکٍ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خِیَارُ أَئِمَّتِکُمْ الَّذِینَ تُحِبُّونَهُمْ وَیُحِبُّونَکُمْ وَیُصَلُّونَ عَلَیْکُمْ وَتُصَلُّونَ علیهم وَشِرَارُ أَئِمَّتِکُمْ الَّذِینَ تُبْغِضُونَهُمْ وَیُبْغِضُونَکُمْ وَتَلْعَنُونَهُمْ وَیَلْعَنُونَکُمْ قِیلَ یا رَسُولَ اللّٰهِ أَفَلَا نُنَابِذُهُمْ بِالسَّیْفِ فقال لَا ما أَقَامُوا فِیکُمْ الصَّلَاةَ وإذا رَأَیْتُمْ من وُلَاتِکُمْ شیئا تَکْرَهُونَهُ فَاکْرَهُوا عَمَلَهُ ولا تَنْزِعُوا یَدًا مِنْ طَاعَةٍ۔(مسلم، رقم ۴۸۰۴)
’’عوف بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھارے بہترین حاکم وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں۔ وہ تمھارے لیے دعا کریں اور تم اُن کے لیے دعا کرو اور تمھارے بدترین حکمران وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں۔ تم اُن پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول ،یہ صورت ہو تو کیا ہم اُن کے خلاف تلوار نہ اٹھائیں ؟ فرمایا: نہیں، جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں اور جب تم اپنے حکمرانوں کی طرف سے ایسی چیز دیکھو جو تمھیں نا پسند ہو تو اُن کے عمل کو تو ناپسند کرو، مگر اُن کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچو۔‘‘
عَنْ عَرْفَجَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِوَسَلَّمَ یَقُولُ: مَنْ أَتَاکُمْ وَأَمْرُکُمْ جَمِیعٌ عَلَی رَجُلٍ وَاحِدٍ یُرِیدُ أَنْ یَشُقَّ عَصَاکُمْ أو یُفَرِّقَ جَمَاعَتَکُمْ فَاقْتُلُوهُ۔(مسلم، رقم ۴۷۹۸)
’’عرفجہ رضیاللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: تم کسی شخص کی امارت پر جمع ہو اور کوئی تمھاری جمعیت کو پارہ پارہ کرنے یا تمھارے نظم اجتماعی میں تفرقہ پیدا کرنے کے لیے اُٹھے تو اُسے قتل کر دو۔‘‘
________