عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ کُنْتُ فِیْ مَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ الْأَنْصَارِ إِذْ جَاءَ أَبُو مُوسَی کَأَنَّهُ مَذْعُورٌ فَقَالَ اسْتَأْذَنْتُ عَلَی عُمَرَ ثَلَاثًا فَلَمْ یُؤْذَنْ لِیْ فَرَجَعْتُ فَقَالَ مَا مَنَعَکَ قُلْتُ اسْتَأْذَنْتُ ثَلَاثًا فَلَمْ یُؤْذَنْ لِیْ فَرَجَعْتُ وَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَأْذَنَ أَحَدُکُمْ ثَلَاثًا فَلَمْ یُؤْذَنْ لَهُ فَلْیَرْجِعْ فَقَالَ وَاللّٰهِ لَتُقِیمَنَّ عَلَیْهِ بَیِّنَةً أَمِنْکُمْ أَحَدٌ سَمِعَهُ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ وَاللّٰهِ لَا یَقُومُ مَعَکَ إِلَّا أَصْغَرُ الْقَوْمِ فَکُنْتُ أَصْغَرَ الْقَوْمِ فَقُمْتُ مَعَهُ فَأَخْبَرْتُ عُمَرَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذٰلِکَ۔(بخاری، رقم ۶۲۴۵)
’’ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں انصار کی کسی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اس طرح سے آئے ، جیسے گھبرائے ہوئے ہوں۔ پھر انھوں نے بتایا کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کے یہاں تین مرتبہ اندر آنے کی اجازت مانگی لیکن مجھے کوئی جواب نہ ملا، چنانچہ میں واپس آ گیا۔ (پھر جب عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا) تو انھوں نے پوچھا کہ تمھیں اندر آنے سے کس چیز نے روکا تھا، میں نے کہا کہ میں نے تین دفعہ اندر آنے کی اجازت مانگی تھی، مجھے نہیں ملی تو میں واپس آ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تم میں سے کوئی تین دفعہ اجازت مانگے اور وہ اُس کو نہ ملے، تو اُسے چاہیے کہ وہ واپس چلا جائے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، بخدا تمھیں اس بات (قولِ رسول) کے لیے کوئی گواہی پیش کرنا ہو گی۔ (ابو موسیٰ نے حاضرین مجلس سے پوچھا کہ) کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جس نے یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہو۔ أبی بن کعب نے کہا بخدا اس مجلس کا سب سے کم عمر آدمی ہی تمھارے ساتھ اس کی گواہی دینے کے لیے کھڑا ہو گا۔ (ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ) میں ہی وہ سب سے کم عمر آدمی تھا۔ میں اُن کے ساتھ چل پڑا ، چنانچہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔‘‘
عَنْ اَبِیْ بُرْدَةَ عَنْ أَبِی مُوسَی الْأَشْعَرِیِّ قَالَ (اَبُو بُرْدَةَ) جَاءَ أَبُو مُوسَی إِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ هٰذَا عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ قَیْسٍ فَلَمْ یَأْذَنْ لَهُ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ هٰذَا أَبُو مُوسَی السَّلَامُ عَلَیْکُمْ هٰذَا الْأَشْعَرِیُّ ثُمَّ انْصَرَفَ فَقَالَ رُدُّوا عَلَیَّ رُدُّوا عَلَیَّ فَجَاءَ فَقَالَ یَا أَبَا مُوسَی مَا رَدَّکَ کُنَّا فِیْ شُغْلٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ الِاسْتِءْذَانُ ثَلَاثٌ فَإِنْ أُذِنَ لَکَ وَإِلَّا فَارْجِعْ قَالَ لَتَأْتِیَنِّی عَلٰی هٰذَا بِبَیِّنَةٍ وَإِلَّا فَعَلْتُ وَفَعَلْتُ فَذَهَبَ أَبُو مُوسَی قَالَ عُمَرُ إِنْ وَجَدَ بَیِّنَةً تَجِدُوهُ عِنْدَ الْمِنْبَرِ عَشِیَّهً وَإِنْ لم یَجِدْ بَیِّنَهً فَلَمْ تَجِدُوهُ فَلَمَّا أَنْ جَاءَ بِالْعَشِیِّ وَجَدُوهُ قَالَ یَا أَبَا مُوسَی مَا تَقُولُ أَقَدْ وَجَدْتَ قَالَ نَعَمْ أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ قَالَ عَدْلٌ قَالَ یَا أَبَا الطُّفَیْلِ مَا یَقُوْلُ هٰذَا قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِوَسَلَّمَ یَقُولُ ذٰلِکَ یَا بْنَ الْخَطَّابِ فَلَا تَکُونَنَّ عَذَابًا عَلٰی أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سُبْحَانَ اللّٰهِ إِنَّمَا سَمِعْتُ شَیْئًا فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَتَثَبَّتَ۔(مسلم، رقم ۵۶۳۳)
’’ ابو بردہ، ابو موسیٰ اشعری سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابو موسی اشعری عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف گئے اور (اُن کے دروازے پر کھڑے ہو کر) کہا السلام علیکم یہ عبداللہ بن قیس ہے، تو انھوں نے اجازت نہ دی۔ اُنھوں نے پھر کہا السلام علیکم یہ ابو موسیٰ ہے، پھر کہا السلام علیکم یہ اشعری ہے۔ آخر وہ لوٹ گئے۔ پھر (عمر رضی اللہ عنہ نکلے اور) اُنھوں نے (لوگوں سے) کہا کہ اِنھیں میرے پاس لاؤ، اِنھیں میرے پاس لاؤ۔ وہ آ گئے۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تم واپس کیوں چلے گئے تھے، میں تو ایک کام میں مصروف تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اجازت لینا تین بار ہوتا ہے،پھر اگر اجازت مل جائے تو ٹھیک ہے، ورنہ لوٹ جاؤ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم اِس بات (قولِ رسول) پر گواہی لاؤ، ورنہ میں تمھیں سزا دوں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، اِنھیں اگر کوئی گواہ ملا تو تم شام کے وقت انھیں منبر کے پاس پاؤ گے اور اگر کوئی گواہی نہ ملی تو تم انھیں وہاں نہیں دیکھو گے۔ جب عمر رضی اللہ عنہ شام کے وقت منبر کے پاس آئے تو لوگوں نے دیکھا کہ وہ (ابو موسیٰ) بھی وہاں موجود تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا، ابو موسیٰ تم کیا کہتے ہو کیا تمھیں گواہی ملی۔ انھوں نے کہا ہاں، یہ أبی بن کعب اس کے گواہ ہیں۔ عمررضی اللہ عنہ نے کہا یہ معتبر آدمی ہیں۔ پھر پوچھا ابو طفیل تم اِس کے بارے میں کیا کہتے ہو۔انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات کہتے ہوئے سنا ہے۔ پھر انھوں نے کہا خطاب کے بیٹے تم صحابہ رسول کے لیے عذاب تو نہ بنو۔انھوں نے کہا سبحان اللّٰہ! (عذاب کیسا) میں نے تو بس (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب) ایک بات سنی تو یہ پسند کیا کہ اس کی تحقیق کر لوں۔‘‘
________