عَنْ عِکْرِمَةَ أَنَّ رِفَاعَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ فَتَزَوَّجَهَا عَبْدُ الرَّحْمٰن بْنُ الزَّبِیرِ الْقُرَظِیُّ قَالَتْعَائِشَةُ وَعَلَیْهَا خِمَارٌ أَخْضَرُ فَشَکَتْ إِلَیْهَا وَأَرَتْهَا خُضْرَةً بِجِلْدِهَا فَلَمَّا جَاءَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَالنِّسَاءُ یَنْصُرُ بَعْضُهُنَّ بَعْضًا قَالَتْ عَائِشَةُ مَا رَأَیْتُ مِثْلَ مَا یَلْقَی الْمُؤْمِنَاتُ لَجِلْدُهَا أَشَدُّ خُضْرَةً مِنْ ثَوْبِهَا قَالَ وَسَمِعَ (عَبْدُ الرَّحْمٰن) أَنَّهَا قَدْ أَتَتْ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ وَمَعَهُ ابْنَانِ لَهُ مِنْ غَیْرِهَا قَالَتْ وَاللّٰهِ مَا لِیْ إِلَیْهِ مِنْ ذَنْبٍ إِلَّا أَنَّ مَا مَعَهُ لَیْسَ بِأَغْنَی عَنِّی مِنْ هٰذِهِ وَأَخَذَتْ هُدْبَةً مِنْ ثَوْبِهَا فَقَالَ کَذَبَتْ وَاللّٰهِ یَا رَسُولَ اللّٰهِ إِنِّی لَأَنْفُضُهَا نَفْضَ الْأَدِیمِ وَلَکِنَّهَا نَاشِزٌ تُرِیدُ رِفَاعَةَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَإِنْ کَانَ ذٰلِکِ لَمْ تَحِلِّی لَهُ أَوْ لَمْ تَصْلُحِی لَهُ حَتَّی یَذُوقَ مِنْ عُسَیْلَتِکِ قَالَ وَأَبْصَرَ مَعَهُ ابْنَیْنِ لَهُ فَقَالَ بَنُوکَ هَؤُلَاءِ قَالَ نَعَمْ قَالَ هٰذَا الَّذِیْ تَزْعُمِینَ مَا تَزْعُمِینَ فَوَاللّٰهِ لَهُمْ أَشْبَهُ بِهِ مِنْ الْغُرَابِ بِالْغُرَابِ۔(بخاری، رقم ۵۸۲۵)
’’عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ رفاعہ نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو اُس کے ساتھ عبدالرحمن بن زبیر قرظی نے نکاح کر لیا۔ عائشہ رضی اللہ عنھا بتاتی ہیں کہ وہ سبز دوپٹا اوڑھے ہوئے اُن کے پاس آئی اور اُن سے شوہر کی شکایت کی اور اپنے جسم کے نیل دکھائے۔ عورتیں ایک دوسری کی مدد کرتی ہی ہیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو انھوں نے عرض کیا: میں نے مسلمان عورتوں کے ساتھ جو کچھ دیکھا ہے، وہ اِس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ اِس کی جلد تو اِس کے دوپٹے سے بھی زیادہ سبز ہو رہی ہے۔ عکرمہ کا بیان ہے کہ اِس کے شوہر کو جب معلوم ہوا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت لے کر گئی ہے تو وہ بھی دوسری بیوی سے اپنے دو بیٹوں کو ساتھ لے کر حاضر ہو گیا۔ شوہر کو دیکھ کر اُس نے دوپٹے کا سرا ہاتھ میں پکڑ کر لٹکایا اور کہا: مجھے اِس سے یہی شکایت ہے کہ اِس کے پاس جو کچھ ہے، وہ میرے لیے اِس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اِس پر عبد الرحمٰن نے عرض کیا: خدا کی قسم، یا رسول اللّٰہ، میں تو اِس کے ساتھ وہی کرتا ہوں جو دباغت دینے والا چمڑے کے ساتھ کرتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ سرکش ہو کر رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا: یہ بات ہے تو تم رفاعہ کے لیے ہرگز حلال نہیں ہو، جب تک عبدالرحمٰن تم سے لذت اندوز نہ ہو لے ۔ پھر آپ نے عبدالرحمٰن کے بیٹوں کو دیکھ کر پوچھا: یہ تمھارے بیٹے ہیں؟ اُس نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا: تم اِس طرح کے جھوٹ بولتی ہو۔ بخدا، یہ تو عبدالرحمٰن کے ساتھ اُس سے بھی زیادہ ملتے ہیں، جتنا کوئی کوا دوسرے کوے سے ملتا ہوا ہوتا ہے۔‘‘
________