عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ کَانَ أَوَّلَ مَا بُدِءَ بِهِرَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الرُّؤْیَا الصَّادِقَةُ فی النَّوْمِ فَکَانَ لَا یَرَی رُؤْیَا إِلَّا جَاءَ تْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ إلیه الْخَلَاءُ فَکَانَ یَلْحَقُ بِغَارِ حِرَاءٍ فَیَتَحَنَّثُ فیه۔۔۔حَتَّی فَجِئَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِیْ غَارِ حِرَاءٍ فَجَاءَهُ الْمَلَکُ ۔۔۔فَقَالَ (اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الذی خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ من عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ الذی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ) ۔۔۔(عَلَّمَ الْإِنْسَانَ ما لم یَعْلَمْ) فَرَجَعَ بها رسول اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ حتی دخل علی خَدِیجَةَ فقال زَمِّلُونِی زَمِّلُونِی فَزَمَّلُوهُحتی ذَهَبَ عنه الرَّوْعُ قال لِخَدِیجَةَ أَیْ خَدِیجَةُ ما لی لقد خَشِیتُ علی نَفْسِی فَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ قالت خَدِیجَةُ کَلَّا أَبْشِرْ فَوَاللّٰهِ لَا یُخْزِیکَ اللّٰه أَبَدًا فَوَاللّٰهِ إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الحدیث وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِینُ علی نَوَاءِبِ الْحَقِّ ۔۔۔۔(بخاری، رقم ۴۹۵۳، مسلم، رقم ۴۰۳)
’’عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملنے سے پہلے سچے خواب دکھائے گئے۔ چنانچہ آپ جو خواب بھی دیکھتے وہ بیداری میں صبح کی روشنی کی طرح نمودار ہو جاتا۔ پھر آپ کو تنہائی پسند آنے لگی۔ اس دور میں آپ غار حرا میں تشریف لے جاتے اور وہاں آپ عبادت کیا کرتے۔۔۔۔ (یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا) یہاں تک کہ ایک دن جب کہ آپ غار حرا میں تھے تو دفعتاً حق آشکار ہوا۔ چنانچہ آپ کے پاس فرشتہ آیا ۔۔۔ اور اس نے کہا ’’ پڑھیے! اپنے رب کے نام سے جس نے (ہر چیز) تخلیق کی، انسان کو جمے ہوئے خون سے تخلیق کیا ، پڑھیے! آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے۔ جس نے (انسان کو) قلم کے ذریعے سے تعلیم دی ۔۔۔ اور انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان آیات کے ساتھ گھر آئے، تو گھبراہٹ سے آپ کے مونڈھوں اور گردن کا گوشت پھڑک رہا تھا۔آپ خدیجہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئے اور ان سے فرمایا تم لوگ مجھے چادر اُڑھا دو، انھوں نے چادر اُڑھا دی ۔ پھر جب آپ کی گھبراہٹ ختم ہوئی ، تو آپ نے خدیجہ رضی اللہ عنھا سے کہا، اب کیا ہو گا،مجھے تو اپنی جان کا خطرہ محسوس ہو رہا ہے، پھر آپ نے انھیں ساری بات بتائی۔ تو انھوں نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے کہا: بخدا، اللہ آپ کو کبھی رسوانہ کرے گا، اِس لیے کہ آپ صلۂ رحمی کرتے ہیں، آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں، آپ لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، آپ ناداروں کو کما کردیتے ہیں، آپ مہمان نوازی کرتے ہیں، آپ راہِ حق کے آفت زدوں کی مدد کرتے ہیں۔‘‘
________