عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعِيْنَ رَجُلًا لِحَاجَةٍ يُقَالُ لَهُمُ الْقُرَّاءُ فَعَرَضَ لَهُمْ حَيَّانِ مِنْ بَنِيْ سُلَيْمٍ رِعْلٌ وَذَكْوَانُ عِنْدَ بِئْرٍ يُقَالُ لَهَا بِئْرُ مَعُوْنَةَ فَقَالَ الْقَوْمُ: والله مَا إِيَّاكُمْ أَرَدْنَا إِنَّمَا نَحْنُ مُجْتَازُوْنَ فِيْ حَاجَةٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَتَلُوْهُمْ فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ شَهْرًا فِي صَلٰوةِ الْغَدَاةِ وَذٰلِكَ بَدْءُ الْقُنُوْتِ وَمَا كُنَّا نَقْنُتُ قَالَ عَبْدُ الْعَزِيْزِ: وَسَأَلَ رَجُلٌ أَنَسًا عَنِ الْقُنُوْتِ أَبَعْدَ الرُّكُوْعِ أَوْ عِنْدَ فَرَاغٍ مِنَ الْقِرَاءَةِ قَالَ: لَا بَلْ عِنْدَ فَرَاغٍ مِنَ الْقِرَاءَةِ.(بخارى، رقم 4088)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روايت ہےکہنبى صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر صحابہ (رضی اللہ عنہم) کی ایک جماعت تبلیغ اسلام کے لیے بھیجی تھی، انھیں قاری کہا جاتا تھا۔ راستے میں بنو سلیم کے دو قبیلے رعل اور ذکوان نے ایک کنویں کے قریب ان کے ساتھ مزاحمت کی۔یہ کنواں”بئرمعونہ“کے نام سے مشہور تھا۔ صحابہ نے ان سے کہا کہ خدا کی قسم، ہم تمھارے خلاف یہاں لڑنے نہیں آئے، بلکہ ہمیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک ضرورت پر مامور کیا گیا ہے،لیکن کفار کے ان قبیلوں نے تمام صحابہ کو شہید کر دیا۔ اس واقعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز میں ان کے لیے ایک مہینہ تک بددعا کرتے رہے۔ اسی دن سے دعاے قنوت کی ابتدا ہوئی، ورنہ اس سے پہلے ہم دعاے قنوت نہیں پڑھا کرتے تھے اور عبد العزیز بن صہیب نے بیان کیا کہ ایک صاحب (عاصم احول)نے انس (رضی اللہ عنہ) سے دعا قنوت کے بارے میں پوچھا کہ یہ دعا رکوع کے بعد پڑھی جائے گی یا قراءت قرآن سے فارغ ہونے کے بعد(رکوع سے پہلے)؟ انس (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ نہیں، بلکہ يہ قراءت قرآن سے فارغ ہونے کے بعد(ركوع سے پہلے) پڑهى جائے گى۔
________