عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: کَانَ جِبْرِیْلُ یَعْرِضُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِوَسَلَّمَ الْقُرْآنَ کُلَّ عَامٍ مَرّةً فَعَرَضَ عَلَیْهِ مَرَّتَیْنِ فِی الْعَامِ الَّذِی قُبِضَ فِیهِوَکَانَ یَعْتَکِفُ کُلَّ عَامٍ عَشْرًا فَاعْتَکَفَ عِشْرِینَ فِی الْعَام الَّذِی قُبِضَ فِیهِ۔(بخاری، رقم ۴۹۹۸)
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر سال میں ایک مرتبہ قرآن پڑھ کر سناتے اور سنتے تھے، لیکن جس سال میں آپ کی وفات ہوئی اُس میں انھوں نے آپ کو دو مرتبہ قرآن پڑھ کر سنایا اور سنا تھا اور آپ ہر سال میں دس دن کا اعتکاف کیا کرتے تھے، لیکن اپنی وفات کے سال میں آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا تھا۔‘‘
عن زَرٍّ قال قال لی بن عَبَّاسٍ أَیُّ الْقِرَاءَتَیْنِ تَقْرَأُ قلت الآخِرَةُ قال فإن جِبْرِیلَ علیه السَّلامُ کان یَعْرِضُ الْقُرْآنَ علی النبی صلی اللَّهُ علیه وسلم کُلَّ عَامٍ فی رَمَضَانَ قَالَ فَعَرَضَ علیه الْقُرْآنَ فی الْعَامِ الذی قُبِضَ فیه النبی صلی اللَّهُعلیه وسلم مَرَّتَیْنِ فَشَهِدَ عبد اللَّهِ ما نُسِخَ منه وما بُدِّلَ فَقِرَاءَةُ عبد اللَّهِ الآخِرةُ۔ (المعجم الکبیر، رقم ۱۲۶۰۲، ۱۲\ ۱۰۳)
’’زر سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے سوال کیا کہ تم دو قرأتوں میں سے کون سی قرأت کرتے ہو۔ میں نے کہا کہ آخری ۔ تو انھوں نے کہا (کہ یہ صحیح ہے) کیونکہ جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر سال رمضان میں ایک مرتبہ قرآن پڑھ کر سنایا اور سنا کرتے تھے، لیکن جس سال میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اُس میں انھوں نے آپ کو دو مرتبہ قرآن سنایا اور سنا تھا ، چنانچہ عبداللہ بن مسعود (جو اُس موقع پر موجود رہے ہیں وہ) جانتے ہیں کہ اس میں سے کیا منسوخ ہوا اور کیا بدل دیا گیا ہے۔ لہذا عبداللہ کی قرأت آخری قرأت ہے۔‘‘
________