رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے ان فرقوں کے لیے بشارت دی ہے کہ جنت میں صرف وہی لوگ جائیں گے، جو ’الجماعۃ‘ کے ساتھ وابستہ رہیں گے۔
إن أمتی ستفترق علی ثنتین وسبعین فرقۃ، کلھا فی النار، إلا واحدۃ وھی الجماعۃ.(ابن ماجہ،کتاب الفتن)
’’بلاشبہ،میری امت بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی،جن میں سے ایک کے سوا سب جہنم میں جائیں گے اور وہ ’’الجماعۃ‘ ہے۔‘‘
یہاں یہ بات واضح رہے کہ فرقوں سے مراد مکاتب فکر نہیں ہیں، بلکہ، یہاں ان سے مراد وہ فرقے ہیں جو سیاسی یادینی طور پر انتشار کا باعث ہوئے۔مثلاً خوارج،جو ایک سیاسی فرقہ تھے۔جنھوں نے ’الجماعۃ‘ سے انحراف کیا۔یہی مضمون ایک اور روایت میں ان الفاظ میں آیا ہے:
أعبدوا ربکم، وصلّوا خمسکم، وصوموا شہرکم، وأدوا زکاۃ اموالکم، و أطیعوا ذا امرکم، تدخلوا جنۃ ربکم.(مسند احمد، کتاب باقی مسند الانصار)
’’اپنے پروردگار کی بندگی کرواور پانچوں نمازیں پڑھو، اپنے اموال سے زکوٰۃ ادا کرواور اپنے حکمران کی اطاعت کرو،پھر تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
آج،مغرب کے استیلا کے بعد عالم اسلام آزاد ہو چکا ہے،مگر اس وقت،وہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا ہے۔مسلمان،قومیت کی دلفریبیوں میں الجھ کر، افغانی و تورانی بن چکے ہیں۔ وحدت امت کا تصور ایک خواب پریشان محسوس ہوتاہے۔اسلامی ریاستوں کے اس تعدد کی وجہ سے ملت ’اعتصام بحبل اللّٰہ‘ پر قائم نہیں رہی۔دین کے چہرے پر،دن بدن،ایسی گرد جمتی جارہی ہے کہ شاید ہی کبھی صاف ہو سکے۔
ملت اسلامیہ میں ایک ہی ریاست قائم ہونی چاہیے تھی،لیکن صورت حال یہ ہے کہ وہ کئی ملکوں میں بٹ چکی ہے۔اس صورت میں دین کا حکم یہ ہے کہ اگر تمھارے پاس ایک خطۂ ارضی ہو،جس میں تمھیں سیاسی خود مختاری بھی حاصل ہو تو اپنے اندر ایک حکومت قائم کر لو۔بھیڑ بکریوں کی طرح،بے نظم و پراگندہ، نہ رہو۔اور اس حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ شریعت اسلامیہ کے مطابق قانون سازی کر کے اپنے معاشرے کو اسلام کے اصولوں پرچلائے۔دین کے اسی اصول کے مطابق پاکستان میں نظم ریاست قائم ہو چکا ہے۔اس لیے ہم دین کے ان تمام احکام کے مکلف ہیں،جو ریاست سے متعلق قرآن و سنت میں بیان ہوئے ہیں۔اس صورت میں جب تک ملت ایک نہیں ہو جاتی اور اس میں ایک متحدہ ریاست قائم نہیں ہو جاتی،ریاست پاکستان کی وہی حیثیت رہے گی،جو’الجماعۃ‘کی ہے۔ہم پر اس کے وہی حقوق قائم ہوں گے،جو’الجماعۃ‘کے ہیں (جن کو تفصیل سے بیان کیا جاچکاہے)۔شریعت کی رو سے،اس کے قوانین کی اطاعت،اس کے حکمران کی فرماں برداری اور اس کے خلاف سازشوں سے گریز ہمارے دین و ایمان کا تقاضا ہے۔ مسلمانوں پر یہ حرام کیا گیا ہے کہ وہ اپنی ریاست کے قوانین سے بے پروائی کا رویہ اختیار کریں۔ اس کا ہر قانون،خواہ وہ ہماری نظر میں کتنا ہی ظالمانہ ہو،واجب الاطاعت ہے۔ہمیں اس کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے۔
اس صورت حال میں عالم اسلام کے تمام علما پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اپنے ملکوں میں اسلام کے احکام اپنے حکمرانوں کو بتاتے رہیں۔انھیں یاد دلائیں کہ اسلام حکمرانوں پر ریاستی امور سے بڑھ کر،چندمزید ذمہ داریاں ڈالتا ہے کہ وہ ’دعوت الی الخیر‘، ’امر بالمعروف‘ اور ’نھی عن المنکر‘ کے فرائض سر انجام دیں۔اس ضمن میں علما کو اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ عملی سیاست میں آ کرحکمرانوں کے حریف بننے کے بجائے اپنی مسند انذار پر قائم رہیں۔جسے اللہ نے ان کے لیے مخصوص فرمایا ہے کہ وہ قوم و ملت کی اصلاح کے لیے،ان میں منذر بن کر کھڑے ہوں،جیسا کہ سورۂ توبہ میں ارشاد ہے:
وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآءِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوْا فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُوْٓا إِلَیْْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ.(۹: ۱۲۲)
’’اور یہ تو نہ تھا کہ سبھی مسلمان اٹھتے،تو ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے، کچھ لوگ نکل کر آتے تاکہ دین میں بصیرت حاصل کرتے اور اپنی قوم کے لوگوں کو انذار کرتے،جب ان کی طرف لوٹتے،اس لیے کہ وہ بھی بچتے۔‘‘
یہ بعینہٖ وہی ذمہ داری ہے، جو انبیاے بنی اسرائیل ادا کرتے رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’علماء أمتی کأنبیاء بنی اسرائیل‘ کہ میری امت کے علما کی وہی ذمہ داری ہے، جو بنی اسرائیل کے انبیا کی تھی۔(یہاں یہ واضح رہے کہ اس جملے میں رسول اور نبی کا فرق پوری طرح ملحوظ رہے)۔یہی بات،دوسرے موقع پر،آپ نے یوں بیان فرمائی ہے: ’العلماء ورثۃ الأنبیاء‘ کہ علما انبیا کے فریضۂ انذار اور ان کے علم کے وارث ہیں۔جس کو یہ مقام بلند عطا ہوا ہو،اس کو چاہیے کہ وہ اس مرتبہ کا خیال کرے اور غلط راستے اختیار کر کے اس منصب کورسوا نہ کرے کہ جس کے بعد لوگوں کا اس سے اعتماد اٹھ جائے ۔ ۱۱
ہمارے علما نے قیام پاکستان سے لے کر اب تک اصلاح احوال کے لیے وہ راستہ اختیار کیا ہے جو کسی پہلو سے بھی ٹھیک نہیں ہے۔یعنی اصلاح کے بجائے حکمرانوں کے خلاف محاذ آرائی۔ ابھی تک ہماری،کم و بیش،پچاس سالہ تاریخ میں،کوئی داعی یہ دعوت لے کر نہیں اٹھا کہ’ اے حکمرانو، تمھارے کرنے کا کام یہ ہے،اسے کرو، بلکہ، ہر طرف، یہی غلغلہ بلند ہوتا رہا ہے کہ یہ حکمران اس قابل نہیں ہیں کہ ہمارے دین کو نافذ کر سکیں۔ چنا نچہ،ہم اپنی حکومت قائم کریں گے۔اس کے لیے’انقلابی‘ اور ’ انتخابی‘ بنیادوں پرتبدیلی قیادت کا کام ہو رہا ہے۔ حالانکہ، پہلا کام اصلاح قیادت کا ہونا چاہیے۔ان کی اصلاح سے گریز کر کے،ان کا تختہ الٹ کر، انقلاب لانے کی مساعی التزام جماعت کی روح سے انحراف ہے۔التزام جماعت کا پہلا تقاضا یہی ہے کہ جس حکمران کو مسلمانوں نے اپنی آزاد انہ رائے سے منتخب کیا ہے،اس کا ساتھ دیں،خواہ وہ ظالم و فاسق ہو یا نیکو کار۔ ساتھ دینے سے ہماری مراد وہی ساتھ دینا ہے، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک فرمان میں واضح فرمایا ہے کہ ظالم اور مظلوم، دونوں کا ساتھ دو۔ لوگوں نے دریافت کیا :حضور مظلوم کا ساتھ دینا تو سمجھ میں آتا ہے،ظالم کا ساتھ دینا کیا ہوا؟ آپ نے فرمایا : ظالم کا ساتھ دینا اسے ظلم سے روکنا ہے،ہمارے نزدیک، دین کی روسے، اس دیس میں،دعوت دین کی کامیابی اور دین کی سربلندی کے لیے ضروری ہے کہ علما اس غلطی کا ازالہ کریں۔
جیسا کہ ہم نے ذکر کیا،ممالک اسلامیہ غلامی سے نکل چکے اور اب انھیں اپنی اپنی سر زمین میں سیاسی خود مختاری حاصل ہو چکی ہے۔لیکن ہمارے سیاست دان ابھی تک ہر حکمران کو انگریزی حکمران خیال کرتے اور ان کے خلاف ہر وہ حربہ استعمال کرتے ہیں جو انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے لیے اختیار کیا گیا۔حتیٰ کہ ان کی یہ پوری کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح، یہ حکومت اپنی معیاد پوری کیے بغیرناکام ہو کر واپس چلی جائے اور انھیں اقتدار کی اس کشمکش میں ایک اور موقع مل جائے تاکہ وہ مسند اقتدار پر قبضہ کر سکیں۔ہمارے نزدیک یہ رویہ غیراسلامی ہے۔
اسلام کے اصولوں کے مطابق جس حکومت پرعوام کی اکثریت (سواد اعظم) مطمئن ہو، اس کے خلاف، ایسا رویہ ہمارے دین و ایمان کے خلاف ہے۔ہم نے اس مضمون میںیہ بات پوری طرح واضح کر دی ہے کہ جو حکومت مسلمانوں کی اجماعی رائے یا مجرد اکثریتی رائے سے قائم ہو، اس کے ساتھ تعاون و تناصر اور التزام ہر مسلمان پر واجب ہے۔اس پر واجب ہے کہ وہ اس حکومت کو مضبوط رکھنے کے لیے ہر ممکن تعاون کرے۔بیرونی دشمن اگر حزب اختلاف کو یہ کہیں کہ ان شرائط پر ہم تمھیں حکومت دلا دیتے ہیں تو حضرت معاویہ کی طرح ان کا جواب یہ ہونا چاہیے کہ یہ میرا اور علی کا معاملہ ہے،اگر تم نے کوئی حرکت کی تو تم اپنے خلاف،مجھے علی کے پرچم تلے،ایک سپاہی کی حیثیت سے دیکھو گے۔یہی رویہ حکومت اور ریاست کے بارے میں اسلام ہمیں سکھاتا ہے۔ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ حرص اقتدار میں قوم و ملت کا وجود داؤ پر لگا دیا جائے اور دشمنان اسلام ملت کے جسم کو نوچتے رہیں۔
اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ سیاست دان سیاسی تبدیلیوں کے لیے جد و جہد نہیں کر سکتے۔ اسلام میں یہ چیز رواہی نہیں،ضروری بھی ہے تاکہ حکمران طبقہ راہ راست پر رہے،لیکن اس جدوجہد کو اس دائرہ کے اندر محدود رہنا چاہیے،جس کے بارے میں،ہم پچھلے صفحات میں تفصیل سے لکھ آئے ہیں ۔ ۱۲
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
إن أمتی ستفترق علی ثنتین و سبعین فرقۃ. کلھا فی النار، إلا واحدۃ، وھی الجماعۃ.(ابن ماجہ،کتاب الفتن)
’’بلاشبہ میری امت بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، ایک کے سوا سب جہنم میں جائیں گے،اور وہ فرقہ’الجماعۃ‘ ہے۔‘‘
ایک اور روایت میں آپ نے کامیاب فرقے کی خصوصیات یہ بیان فرمائی ہیں:’الجماعۃ وما انا علیہ واصحابی‘ وہ فرقہ جو میری سنت اور’الجماعۃ‘ پر کار بندرہے۔اس بشارت میں ملت کو آنے والے خطرات سے بچنے کا طریقہ بھی مضمر ہے اور خطرات میں گھری ہوئی ملت کو ان سے نکالنے کا راستہ بھی۔
اگر اس روایت پر غور کیجیے تو یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ ملت کو اپنے منصب پر قائم رکھنے کے لیے انھی دو چیزوں کی ضرورت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر قائم رہے، جسے آپ نے ’ما أنا علیہ وأصحابی‘ کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ دوسری چیز یہ ہے کہ مسلمان’الجماعۃ‘ کو اپنے اندر قائم کریں اور اس سے التزام رکھیں۔یعنی ایک نظم کے تحت ساری ملت جمع ہو جائے۔
ظاہر ہے،جب ملت صحیح دین پر قائم رہے گی اور نظم اجتماعی کی پابند رہے گی،جو نہ صرف ملت کو وحدت پر قائم رکھے، بلکہ اسے ’دعوت الی الخیر‘، ’نہی عن المنکر‘ اور ’امر بالمعروف‘ کے ذریعے سے اللہ کے دین پر قائم بھی رکھے تو نہ انفرادی سطح پر اخلاقی و دینی انحطاط آئے گااور نہ وہ فرقے ہی وجود میں آئیں گے جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میری امت میں وہ یہود و نصاریٰ سے بھی زیادہ ہوں گے۔
چنانچہ اس بشارت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انفرادی انحطاط اور فرقوں کے وجود میں آنے کی اصل وجوہ کیا ہیں:
ایک وجہ یہ ہے کہ ملت کا اجتماعی نظم کمزور ہو جائے گا،کمزور ہونے سے مراد یہ ہے کہ لوگ ’علیکم بالجماعۃ‘ کے اصول پر کار بند رہیں گے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگ اصل دین سے ہٹ جائیں گے۔یعنی وہ ’ما انا علیہ واصحابی‘ پر قائم نہ رہیں گے۔
ان وجوہات سے یہ بات،آپ سے آپ، نکل آتی ہے کہ اس ملت کو دوبارہ اٹھانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انھی دونوں برائیوں کا استیصال کیا جائے جو انحطاط کا سبب ہیں۔یعنی دین کی تنقیح کی جائے،اس کی وہ صورت اجاگر کی جائے جسے ’ما انا علیہ واصحابی‘ کہا جا سکے۔ عرصۂ دراز سے جوگرد اس دین کے چہرے پر پڑ چکی ہے،اسے صاف کیا جائے تاکہ لوگوں کا اپنے دین پر اعتماد بحال ہو۔کیونکہ افراد کا اعتماد اور یقین ہی تعمیر ملت کے لیے سرمایہ ہے۔
ہمارے ہاں سب کچھ ہوا ہے،مگریہی کام نہیں ہوا۔آپ کسی بھی ’انقلابی‘ سے جا کر پوچھیے کہ وہ کون سا نظام،انقلاب کے بعد لائیں گے تو ان کا جواب بس یہی ہوتا ہے کہ’اسلامی نظام‘۔ان سے پوچھیے کہ اسلامی نظام کی اساسات کیاہیں؟ وہ کن جزئیات پر مبنی ہے؟ اس کے اصول و ضوابط کیا ہیں؟وہ کن قوانین پر بنا ہے؟اس کی فروعات کیا ہیں؟تو کسی کو یہ سوال ہی سمجھ میں نہیں آئیں گے۔یہی وجہ ہے کہ آپ دیکھیں گے کہ ہمیں’اسلامی جمہوریت‘، ’اسلامی سوشلزم‘اور’اسلامی بنک کاری‘ جیسے، غیرحقیقی،نعرے سننے کو ملتے ہیں۔
پھر یہی نہیں کہ اس دین کوایک مرتبہ پھراصل نصوص پر انحصار کرتے ہوئے واضح کر دیا جائے، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ موجودہ دور کے سوالات کا دین کے اصل ماخذوں پر براہ راست غور کر کے جواب دیا جائے،اس کے بغیر ’اعتصام بحبل اللّٰہ‘ ممکن نہیں ہے۔کیونکہ جب تک کسی ذہن کے اشکالات دور نہیں ہوتے،اس وقت تک وہ کسی فکر کو اپنا نہیں سکتا۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس قوم کے ذہین اور کارفرما عناصر اس دین کی حقانیت کو تسلیم کر لیں،کیونکہ ان کے قائل ہوئے بغیر،کسی تبدیلی کے خواب دیکھنا،خواب پریشان سے کم مضحکہ خیز چیز نہیں ہے۔
دوسری بیماری کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں میں اپنی حکومت کے لیے وہی روح پیدا کی جائے،جو مسلمانوں کا شعار رہی ہے،وہ حکومت کو اپنا دشمن خیال نہ کریں،وہ ظالم ہو تب بھی اسے ظلم سے منع کر کے،اس کا ساتھ دیں ،وہ اسے گرانے کے درپے نہ رہیں، بلکہ اس کو مضبوط کریں،تاکہ ملت کے اندر وہ اتحاد اور اتفاق پیدا ہو، جو کسی قوم کے عروج کے لیے ضروری ہے۔
حکومت کے ساتھ اس رویہ کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ ہم اس کی اصلاح کر سکیں۔اگر ہمارے ماتھے پر اس کے حریف ہونے کا کتبہ چسپاں ہو گا،تو وہ ہماری بات نہیں سنے گی ۔جبکہ اسے اگر یہ معلوم ہو کہ ہم حزب مخالف کے رکن ہوتے ہوئے بھی اس کے خیر خواہ ہیں،اس کے ساتھ تعاون اور تناصرکا جذبہ رکھتے ہیں تووہ یقیناہماری بات سنے گی۔اس کے بعد ہی یہ ممکن ہو سکے گا کہ ہم اس حکومت کو ان اساسات پر دوبارہ قائم کریں،جن کو قرآن نے اپنے الفاظ میں یوں بیان فرمایا ہے:
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.(آل عمران ۳: ۱۰۴)
’’اور چاہیے کہ تم میں سے ایک (بااختیار) گروہ ہو، جو نیکی کی دعوت دے، معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکے اور (واضح رہے کہ) یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
ہم مضمون کے شروع میں یہ عرض کر چکے ہیں کہ پہلا انحراف’الجماعۃ‘ کے غلط معنی کی تعیین کی وجہ سے ہوا،اس لفظ کے صحیح معنی کے بیان کرنے اور اس کے اطلاقات کا صحیح تصور پیش کرنے کے بعد،اب اس پر تنقید کرنا،کوئی ضروری نہیں ہے،البتہ دوسرا انحراف چونکہ دین میں بعض خرابیوں کا باعث بنا ہے اور آج بھی کئی گروہ اسی نقطۂ نظر کے قائل ہیں، اس لیے ان کی غلطی واضح کرنا ازبس ضروری ہے۔
یہ انحراف اس زمانے میں وجود میں آیا،جب امت مسلمہ اپنی ’الجماعۃ‘ سے محروم ہو گئی تھی۔ چنانچہ مولانا ابوالکلام آزاد نے یہ مبارک صدا لگائی کہ ہم اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق، ہندوستان کے دارالکفر میں،ایک امیر کے تحت جمع ہو کر’الجماعۃ‘ بن کر رہیں۔مگر بد قسمتی سے یہ دعوت اسلام ہی کی طرح اجنبی قرار پائی۔اس میں انھوں نے اسی ثلاثہ نفر ۱۳والی روایت ہی سے استدلال کیا۔ قیام پاکستان کے بعد یہ دعوت بگڑ کر یہ شکل اختیار کر گئی کہ چونکہ ہماری حکومت محض نظریاتی طور پر مسلمان ہے، عملی طورپر مسلمان نہیں،اس لیے اقامت دین کے لیے،صالحین پر مشتمل ایک جماعت قائم کی جائے،جس سے جتنے لوگ متفق ہوں وہ تو بہر حال اس کے امیر کی قیادت میں جمع ہو جائیں اور اس طرح مسلمانان پاکستان کسی نہ کسی تنظیم یا جماعت سے لازماً وابستہ رہیں۔اور جو لوگ کسی بھی جماعت کے منشور سے متفق نہ ہوں،ان پر کم از کم یہ لازم ہے کہ وہ اپنی الگ جماعت اسی مقصد کے لیے ضرور بنائیں،کیونکہ بے جماعت کی زندگی اسلامی زندگی نہیں ہے۔
ہمارے نزدیک،دین و شریعت اور عقل و فطرت کے لحاظ سے،اس پر درج ذیل اعتراضات وارد ہوتے ہیں:
۱۔نیابت کا اصول یہ تقاضا توبلا شبہ کرتا ہے کہ دارالکفر میں، سب مسلمانوں کو ایک نظم کے تحت جمع ہو جانا چاہیے،لیکن یہ تقاضا ہرگز نہیں کرتا کہ جولوگ جس جماعت کے منشور سے متفق ہوں،وہ اس کے ساتھ مل کرجماعت بن کر رہیں،اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ملت سینکڑوں گروہوں میں بٹ جائے گی۔آپ اس کا مشاہدہ کرنا چاہیں تو پاکستا ن کے مسلمانوں کی ان جماعتوں پر نگاہ ڈال لیجیے جو ’الجماعۃ‘ ہونے ہی کا دعویٰ کرتی ہیں۔ان میں سے بعض تو وہ ہیں جو اپنے ساتھ نہ ملنے والوں کو کافر یا نیم مسلمان قرار دیتی ہیں۔ چنانچہ وہ حکم جو ملت کو’حبل اللہ‘ کے ذریعے سے مربوط کرنے اور انھیں ایک منظم اور مضبوط قوم بنانے کے لیے اترا تھا، وہ ملت کے لیے،ان روایتوں کی غلط تاویل کی بنا پرانتشار کا باعث بن گیا ہے۔
اس کے برعکس، ریاست پاکستان کو دیکھیے کہ اپنی تمام ترخرابیوں کے باوجوداپنے اندر رنگ و نسل اور مذہب و مسلک کے اعتبار سے مختلف اقوام کو ایک ہی پرچم تلے جمع کرنے میں کامیاب ہے۔ہمارے نزدیک یہی وہ طریقہ ہے،جسے قرآن نے ’ولتکن منکم امۃ‘اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے’علیکم بالجماعۃ‘ کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔اس لیے کہ اس حکم کی علت اقامت دین نہیں،بلکہ’اعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعاً ولا تفرقوا‘ ۱۴ہے،چنانچہ وہ طریقہ اس حکم کی تعمیل کیسے ہو سکتا ہے،جو تفرقہ سے بچانے اور جمع کرنے کے بجائے،انھیں کاٹ کر فرقہ فرقہ کردے۔
ان جماعتوں کا مسلمانوں کو متفقین کی فہرستیں بنا کرالگ الگ کر لیناقرآن کے حکم کے خلاف ہے۔قرآن مجید نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم سب مل کر،اللہ کی رسی(قرآن) کو مضبوطی سے تھام لیں۔اس آیت کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ آسمان سے اللہ کی ایک رسی لٹک رہی ہے، اسے پکڑکر،اللہ کے دین سے جڑ جاؤ،بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ تمھارے درمیان، اللہ کی ایک رسی موجود ہے،جس سے بندھ کر تم ،باہم دگر،متحد ہو جاؤ۔ ’جمیعًا‘ اور ’ولا تفرقوا‘ سے اسی بات کی طرف اشارہ ہے،اگر اس آیت میں یہ مفہوم شامل نہ سمجھا جائے تو اس میں ان دونوں لفظوں کامطلب فوت ہو جاتا ہے۔
’اعتصام‘، ’حبل‘ اور ’جمیعًا‘ کے الفاظ اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ یہ آیت،اصل میں دین سے اعتصام اور باہمی اتحاد و اتفاق کے مضمون کی حامل ہے۔چنانچہ،دیکھیے کہ اللہ کے ساتھ جڑنے میں تو خوارج بھی کسی سے پیچھے نہیں تھے،مگریہ چیز انھیں ملت میں تفرقہ سے نہ روک سکی،اس لیے کہ وہ اس رسی کے ذریعے سے ’الجماعۃ‘ سے نہیں جڑے جو انھیں ’جمیعًا‘ کے دائرے میں لے آتی۔ اورظاہر ہے،یہ چیز اقامت دین کے لیے قائم جماعتوں سے حاصل نہیں ہو سکتی۔کیونکہ ان کی بنیاد’جمیعًا‘ (سب کے سب) پر نہیں،بلکہ جتنے جس سے متفق ہوں، کے اصول پر رکھی گئی ہے۔گویا یہ جماعتیں ’اعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعاً ولا تفرقوا‘ میں ’جمیعًا‘ اور ’ولاتفرقوا‘ کے بر خلاف،مسلمانوں کو ٹولیوں میں بانٹ رہی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس حکم کو پورا کرنے کا طریقہ یہی بتایا ہے کہ ملت اسلامیہ،کسی وقت بھی، نظم اجتماعی کے بغیر نہ رہے۔ قرآن کے اس حکم کا جماعت سازی سے قطعاًکوئی تعلق نہیں ہے۔
۲۔ اس رائے میںیہ غلطی اس وقت مزید سنگین ہو جاتی ہے،جب کوئی شخص پاکستان یا مثال کے طور پر مصر و عراق میں مسلمانوں کو یہ دعوت دے کہ ’علیکم بالجماعۃ‘ کی رو سے تم پر یہ لازم ہے کہ کسی نہ کسی جماعت میں شامل ہو کر اس کے ہاتھ پر سمع و طاعت کی بیعت کرو۔ دراں حالیکہ، یہ حکومتیں لفظ کے ہر مفہوم میں ’الجماعۃ‘ ہیں۔ان ریاستوں کے تمام باشندے، ان حکومتوں کے ہاتھ پر،سمع و طاعت کی بیعت کیے ہوئے ہیں،چنانچہ کیا ایسا نہیں کہ سڑک کے کنارے پر کھڑے ایک کانسٹیبل کے اشارے پر بھی ہم زبان حال سے ’سمعنا و اطعنا‘ کہتے ہوئے رک جاتے ہیں۔
یہی ’سمع وطاعت‘ ہے اور یہی ’الجماعۃ‘ ہے ۔ہم، علی وجہ البصیرت، پورے اطمینان کے ساتھ، یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’علیکم بالجماعۃ‘ کی بنا پر، جماعت سازی ’علیکم بالجماعۃ‘ اور ’السمع والطاعۃ‘ کی نہایت غلط تشریح ہے،جس کی قرآن و سنت میں ہرگز کوئی بنیاد نہیں ہے۔
چنانچہ،دیکھیے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ پوچھا گیا کہ اگر ’الجماعۃ‘ نہ ہو تو کیا کیا جائے؟ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ اقامت دین کے لیے جماعت سازی اس حکم کا تقاضا ہے،بلکہ آپ نے فرمایا کہ ان تمام گروہوں سے الگ رہنا ہی دین کا تقاضا ہے،جو’الجماعۃ‘ کی غیر موجودگی میں جگہ جگہ پیدا ہو جائیں،خواہ اس کے لیے تمھیں کسی درخت کی کھوہ ہی میں کیوں نہ رہنا پڑے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
قلت: فإن لم تکن لھم جماعۃ ولا امام؟ قال: فاعتزل تلک الفرق کلھا و لو أن تعض بأصل شجرۃ حتی یدرکک الموت، و أنت علی ذالک. (بخاری،کتاب الفتن)
’’میں نے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اگر مسلمانوں میں ’الجماعۃ‘ نہ رہے اور نہ ان میں کوئی حکمران ہی رہے تو پھر کیا کیا جائے؟ آپ نے فرمایا: (ایسے میں تمھیں چاہیے کہ) ان کے موجودہ گروہوں کو چھوڑ کر الگ ہو جانا،اگرچہ اس کے لیے تمھیں کسی درخت کی جڑ سے چمٹ کر رہنا پڑے، یہاں تک کہ تمھیں موت آلے۔‘‘
گویا،ہم وطن عزیز میں جو’الجماعۃ‘ کے نام پر گروہ در گروہ ہو رہے ہیں،اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اصل’الجماعۃ‘ جو ریاست پاکستان کی صورت میں قائم ہے کے بجائے ان جماعتوں کو’ الجماعۃ‘ قرار دے لیا ہے جن کو’الجماعۃ‘ قرار دینے کے لیے نہ قرآن و سنت میں کوئی بنیاد ہے اور نہ لفظ ’الجماعۃ‘ میں اس کی کوئی گنجایش ہے۔
۳۔ یہ رائے جو اصول نیابت کی بنیاد پراختیار کی گئی ہے،اس میں اصول نیابت کا اطلاق بھی صحیح نہیں ہے۔اصول نیابت کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ ایک چیز جو کسی وجہ سے معدوم ہو گئی ہے،اس کی جگہ،اس کی نیابت میں کوئی چیز اس کی قائم مقام بنا لی جائے،مثلاًدارالکفر یا محکومی کی حالت میں تو اس کا یہ اطلاق ٹھیک ہے کہ اس صورت میں ’الجماعۃ‘ یہ ہے کہ اس سرزمین کے تمام مسلمان (جمیعًا) ایک قیادت کے تحت جمع ہو جائیں۔لیکن ’الجماعۃ‘ (نظم ریاست) موجود ہواور اس کے ہوتے ہوئے ایک نئی ’الجماعۃ‘ کو وجود دینا، نیابت کسی طرح نہیں ہے۔اس کی حیثیت ’متوازی الجماعۃ ‘ کی ہے یا یہ ریاست کے اندر ریاست کو قائم کرنا ہے۔اسلام کے اصولوں کی رو سے یہ سیدھی سادھی بغاوت ہے۔
۴۔’’اقامت دین‘‘ کے نام پر قائم کی گئی یہ جماعتیں ’ الجماعۃ‘ قرار پانے کے بعد خود بخود، اس نتیجے کی طرف بڑھ گئیں کہ ان کے امرااور جماعت کے ارکان کے مابین، تعلق سمع و طاعت کی بنیاد پر ہو۔ اس لیے کہ ’ الجماعۃ‘ کے امیر کے لیے یہ حق دین نے قائم کیا ہے اور چونکہ یہ جماعتیں بھی ’الجماعۃ‘ ہیں، اس لیے ان کے امیر بھی سمع و طاعت کے حق دار ہیں۔ جبکہ قرآن و سنت کی رو سے ’سمع و طاعت‘ کا یہ حق اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم او رحکمران کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْْءٍ فَرُدُّوْہُ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ.(النسا ء۴: ۵۹)
’’اے ایمان والو،اللہ کی اطاعت کرو، اور رسول کی اطاعت کرو،اوران لوگوں کی جو تم میں سے اولی الامر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان اختلاف رائے ہو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیرو۔‘‘
چنانچہ،اس انحراف کی وجہ سے،نہ صرف یہ کہ دین میں’ الجماعۃ‘ کے ایک نئے تصور کو وجود دیا گیا،بلکہ اللہ، رسول اور حکمران کا حق داعیوں کو بھی دے دیا گیا،اور وہ حکم جو ملت کو انتشار سے بچانے کے لیے اتراتھا، وہ ان جماعتوں کے سربراہوں کے رواو ناروا احکام کی تعمیل کا نام بن کر رہ گیا ہے۔
۵۔’الجماعۃ‘سے علیحدگی چونکہ اسلام کا قلادہ گردن سے اتارنے کے مترادف ہے، چنانچہ ان جماعتوں سے علیحدگی (تخلف) بعض کے نزدیک، نیم مسلمانی ہے، اور بعض کے نزدیک،یہ سیدھا سادھا کفر ہے۔ یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ جو حکم ان مختلف مکاتب فکر کو باہم دگر جوڑنے کے لیے آیا تھا،وہ محض ان جماعتوں کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ پارہ پارہ ہو رہے ہیں، بلکہ انھیں ان سے تخلف کی بنا پر،نیم مسلمان اور بعض کے نزدیک، کافر بھی قراردیا جا رہا ہے۔
ان دلائل کی بنا پر ہم دوسرے انحراف کو صحیح نہیں سمجھتے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
[۱۹۹۵ء]
_________
۱۱نبی اور رسول کا فرق ملحوظ نہ رکھنے والے علما نے بعض ایسی چیزیں اپنے لیے خاص سمجھ لیں، جو رسولوں کے لیے خاص تھیں اور انبیا بھی سنت الٰہی کے مطابق ان سے محروم تھے۔ مثلاً سورۂ حدید میں رسول کے ساتھ تعلق کی اساسات کو عموم میں لے جانا اور عذاب الٰہی کو اپنی دعوت کی ناکامی کے بعدلازم سمجھنا، وغیرہ۔
۱۲تفصیل کے لیے ان عنوانات پر دوبارہ نگاہ ڈال لیجیے: ’’التزام جماعت کا مطلب‘‘،’’ التزام جماعت کے تقاضے‘‘۔
۱۳دیکھیے گزشتہ بحث : ’مسئلہ التزام جماعت‘ کے تحت عنوان: ’ محکومی میں التزام جماعت‘ ۔
۱۴اللہ کی رسی کو سب مل کر تھام لو، تفرقے میں نہ پڑو۔
___________________