یہ مسئلہ ان حدیثوں سے پیدا ہوتا ہے، جو اس باب میں کتب احادیث میں وارد ہوئی ہیں۔ ان روایتوں کا مضمون،کم و بیش،کچھ اس طرح کا ہے: ’من فارق الجماعۃ شبرا فمات، إلامات میتۃ جاھلیۃ۱‘۔ان احادیث کے معنی کی تعیین میں،اگرچہ ائمۂ اربعہ ہی کے زمانے سے اختلاف رہا ہے،لیکن اس کے ایک مفہوم پر امت ہمیشہ متفق رہی ہے او رہمارے نزدیک وہی مفہوم اوفق بالقرآن والسنہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں جس ریاست کی بنیاد رکھی اور جو بعدمیں پورے جزیرہ نماے عرب میں قائم ہوئی،وہ ریاست مسلمانوں کو ایک سیاسی نظام کے تحت جمع کر کے تشکیل امت کے لیے قائم کی گئی تھی تاکہ وہ نیابت رسول میں شہادت علی الناس کا فریضہ انجام دے سکے،کیونکہ یہ حیثیت حاصل کرنے کے لیے جس طرح یہ ضروری ہے کہ ملت شریعت اور نظام عدل پر قائم رہے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ جسد واحد کی طرح ہمیشہ ایک رہے۔اس کے اندر یہود و نصاریٰ کی طرح وہ دینی اور سیاسی فرقے وجود میں نہ آئیں،جن کی وجہ سے ملت ٹکڑے ٹکڑے ہو کرمنصب امامت سے معزول یا دوسرے الفاظ میں نیابت رسول کے منصب سے عملاًہٹ جائے۔چنانچہ اسے اس ریاست، جو اتنی بڑی ذمہ داری کے لیے قائم کی گئی تھی،کے ساتھ التزام کا حکم اس لیے دیا گیاتاکہ ملت انتشار سے بچی رہے اور رہتی دنیا تک شہادت علی الناس کا سلسلہ جاری رہے۔
چنانچہ دور اول میں ان روایتوں کے مدعا کی تعیین میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔صحابہ رضوان اللہ علیہم ان کے اسی مفہوم پر مجتمع تھے کہ’’الجماعۃ‘‘سے مسلمانوں کا نظم اجتماعی (ریاست و حکومت) مراد ہے۔اوریہ مسلمان شہریوں کا فرض ہے کہ وہ اسلامی ریاست کے ساتھ وابستہ رہتے ہوئے،اپنے حکمران کی اطاعت کبھی ترک نہ کریں۔اور اگر کوئی مسلمان،اس حالت میں اس دنیا سے رخصت ہو کہ وہ ملت اسلامیہ کے فرماں روا کی اطاعت میں نہ ہوتو وہ اللہ کے ہاں،اس حالت میں حاضر ہو گا کہ اپنے حق میں کہنے کے لیے اس کے پاس کوئی حجت نہ ہو گی۔التزام جماعت کا یہی وہ حکم ہے جس کی وجہ سے تاریخ اسلامی میں بعض حیرت انگیز واقعات نظر آتے ہیں، جن میں سے ایک مشہور مثال محمد بن قاسم کے دربار خلافت میں پابجولاں حاضر ہونے کی ہے۔
اس دور کے بعدبھی مسلمان ان روایتوں کا یہی مفہوم مراد لیتے رہے۔یہاں تک کہ فقہ اسلامی کا دور تدوین آیا،اصول فقہ مرتب ہونے لگے۔اس موقع پر پہلی مرتبہ ان روایتوں سے’اجماع‘ کے حق میں استدلال کیا گیااور ان روایتوں کو ایک نئے معنی دیے گئے۔پھر ’اجماع‘ ہی کی بحث میں ان روایتوں کو کئی دوسرے معنی ملتے چلے گئے،لیکن اصل میںیہ ایک ہی معنی کے مختلف پہلو ہیں۔یعنی جس طرح اجماع کی تعریف بدلتی گئی،اسی طرح ان روایتوں کے معنی بدلتے گئے۔ جس نے اجماع کی تعریف یہ کی کہ اس سے مراد مسلمانوں کی اکثریت کا اجماع ہے،اس نے اس کے معنی اکثریت(سواد اعظم)کے قرار دیے اور جس نے اجماع صحابہ کو اجماع مانا،اس نے ’الجماعۃ‘ کے معنی ہی یہ مراد لیے کہ ’الجماعۃ‘’جماعت صحابہ‘ہے۔اسی طرح جس نے اجماع کو اجماع علما قرار دیا،اس کے نزدیک ’الجماعۃ‘ درحقیقت علماکی جماعت ہے۔ابن حجراپنی رائے بیان کرنے کے بعدان تمام آرا کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’’الجماعۃ‘کے معنی کی تعیین میں اختلاف کیا گیاہے۔ایک جماعت کے نزدیک اس کے معنی ’سواد اعظم‘ کے ہیں۔دوسرے گروہ کے نزدیک اس کے معنی’جماعت صحابہ‘ کے ہیں۔تیسرے گروہ کی رائے یہ ہے کہ یہ’اہل علم کی جماعت‘ ہے۔‘‘ (فتح الباری۱۳/ ۳۷)
ان آرا کے حاملین کے نزدیک’الجماعۃ‘سے مراد اصحاب حل و عقد ہیں۔اور اصحاب حل و عقد میں سلاطین،علما اور دوسرے اصحاب رسوخ بھی ہیں اور ان کی سب سے پہلی مثال صحابہ رضوان اللہ علیہم کی ہے۔
اس باب میں ملت اسلامیہ انھی دو آرا پر قائم رہی ،جن کا ذکر کیا گیا ہے،حتیٰ کہ عالم اسلام اپنے دور انحطاط میں داخل ہوا۔مغربی یلغار کے بعدعالم اسلام اپنی حکومت کھو بیٹھا۔اس یلغار کا ہندوستان کو بھی سامنا کرنا پڑا۔چنانچہ پورا عالم اسلام اس ’الجماعۃ‘ سے محروم ہو گیا،جس کے ساتھ جڑے رہنااس کے فرائض میں شامل تھا۔
جدید دور میں ہندوستان میں ایک آواز بلند ہوئی کہ اب التزام جماعت پر قائم رہنے کا طریقہ یہ ہے کہ’اقامت دین‘ کے لیے کوشاں کسی بھی ’جماعت‘ کے ساتھ وابستہ رہا جائے۔اگر ایسا نہیں ہو گاتو اس آدمی کی زندگی صحیح اسلامی زندگی نہیں ہو گی۔دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ صحیح اسلامی زندگی’جماعت‘کے بغیر نہیں ہوتی۔زندگی کے صحیح اسلامی ہونے کے لیے سب سے مقدم چیز اسلام کے نصب العین (اقامت دین) سے وابستگی ہے۔اس وابستگی کا تقاضا ہے کہ آدمی نصب العین کے لیے جد و جہد کرے۔اور جد و جہد اجتماعی طاقت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی۔لہٰذا جماعت کے بغیر،کسی زندگی کو صحیح اسلامی زندگی سمجھنا بالکل غلط ہے۔
اس طرح کی جماعت اس اسلامی حکومت(الجماعۃ) کے اندر بھی قائم کی جا سکتی ہے جو اسلام کے اصولوں پر نہ چل رہی ہو۔محض،نظریاتی طور پر،مسلمان ہو۔البتہ جو ریاست نظریات سے بڑھ کراقامت دین کا فریضہ بھی سر انجام دے رہی ہوتو پھر یہ جماعت بنانایقیناًغیر اسلامی فعل ہے۔یہ جماعت بالکل اسی حکم میں تو نہیں ہے جو ’الجماعۃ‘کے بارے میں احادیث میں وارد ہے،لیکن اس سے الگ رہنے والا’نیم مسلمان‘کہا جا سکتا ہے۔۲
ہمارے نزدیک پہلا انحراف’الجماعۃ‘کے معنی کی تعیین میں اختلاف کی وجہ سے ہوا۔اس لیے صحیح معنی کی تعیین کے ساتھ ہی اس کی غلطی بھی واضح ہوجائے گی۔دوسرا انحراف ایک خاص پس منظر کی وجہ سے ظہور پذیر ہوا۔چنانچہ ہم’الجماعۃ‘کے معنی کی تعیین کے بعداس حکم کے تقاضوں پر بحث کریں گے اور دیکھیں گے کہ دوسرے انحراف کے لیے اس حکم میں کوئی گنجایش نہیں ہے۔
عربی زبان میں درج ذیل معنی میں اس لفظ کا استعمال معروف ہے:
۱۔’افراد کامل کر ایک گروہ اور مجموعہ کی شکل اختیارکرنا‘، جیسے ’جماعۃ من الحیوان‘ وغیرہ۔
۲۔انتشار و افتراق اور دھڑے بندی کے متضاد، یعنی مربوط اور منظم ہونے کے معنی میں، مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’الجماعۃ رحمۃ والفرقۃ عذاب ۳‘۔ اسی سے ’الجماعۃ‘ کا لفظ لوگوں کے ایک نظام میں بندھ جانے اور ایک قیادت کے تحت جمع ہونے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔مثلاًقریش کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں یہ قول کہ’فرق جماعتنا وسب آلھتنا‘، ۴’’اس نے تو ہمارے نظام اجتماعی کو پارہ پارہ کردیااور ہمارے دیوتاؤں کو برا بھلا بھی کہتا ہے‘‘۔ہمارے نزدیک یہ ان احادیث میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یہاں ’الجماعۃ‘ سے مراد ’مقتدر جماعت‘ ہے۔یعنی اس سے مراد مسلمانوں کا نظم اجتماعی (اقتدار و حکومت) ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت خود فرمادی ہے جس کے بعد اس کے معنی کی تعیین میں کوئی شبہ نہیں رہا۔
۱۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عباس کی روایت میں’الجماعۃ‘ کے بجائے’السلطان‘کا لفظ استعمال کر کے خود بتا دیا ہے کہ آپ نے یہ لفظ کس معنی میں استعمال فرمایا ہے:
عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من کرہ من أمیرہ شیئا، فلیصبر علیہ، فانہ لیس احد من الناس یخرج من السلطان شبراً، فمات علیہ إلاما ت میتۃ جاھلیۃ.(بخاری،کتاب الفتن۔مسلم،کتاب الامارۃ)
’’آپ نے فرمایا:جسے اپنے امیر کی کوئی بات ناگوار گزرے،اسے چاہیے کہ وہ صبر کرے،کیونکہ جو ایک بالشت کے برابر بھی اقتدار کی اطاعت سے نکلااور اسی حالت میں مر گیا،اس کی موت جاہلیت پر ہوئی۔‘‘
اس روایت میں’الجماعۃ‘ کے بجائے ’السلطان‘ کا لفظ’الجماعۃ‘کے مترادف کی حیثیت سے استعمال ہوا ہے، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ’الجماعۃ‘درحقیقت’السلطان‘یعنی ’سیاسی اقتدار ‘ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔چنانچہ اس لفظ کا اطلاق کسی ایسی جماعت ہی پر کیا جا سکتا ہے جو کسی سرزمین میں سیاسی طورپر خود مختار قوم کی حیثیت سے رہتی ہواور اس میں نظام امارت بھی قائم ہو۔اس لیے سیاسی اقتدار سے محروم کسی دینی جماعت یا تنظیم پر اس لفظ کا اطلاق،قطعاً، صحیح نہیں ہے۔
۲۔یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مسلمانان عرب کو قریش کی قیادت پر مجتمع دیکھا تو ان کے لیے اپنے بعدانتقال اقتدار کا فیصلہ سناتے ہوئے فرمایا:
لا یعادیھم أحد إلاکبّہ اللّٰہ فی النار، علی وجہ، ما أقاموا الدین.(بخاری،کتاب الاحکام)
’’جب تک وہ دین پر قائم ہیں،اس وقت تک،جس نے ان کی مخالفت کی،اللہ اسے دوزخ میں اوندھے منہ جھونک دیں گے۔‘‘
یہاں قریش ’الجماعۃ‘کی حیثیت سے زیر بحث ہیں جو رسول اللہ کے بعد ایک مقتدر جماعت بننے والے تھے۔ظاہر ہے،یہاں قریش سے مراد نہ اصحاب اجماع ہیں اور نہ کوئی دینی و دعوتی تحریک کے داعی۔یہی وجہ ہے کہ اس میں قریش کے ساتھ معاندت کا رویہ اختیار کرنے والے کی وہی سزا بیان کی جارہی ہے جو ’الجماعۃ‘کی معصیت اور اس سے مفارقت کی بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ ان روایات میں یہ لفظ مقتدر جماعت ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ’ الجماعۃ‘ سے مراد محض ایک تحریکی جماعت ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ قریش بھی یہاں ایک مقتدر پارٹی کی حیثیت سے زیر بحث نہیں ہیں، بلکہ’ قرشیت‘ آدمی کو ’الجماعۃ‘ قرار دے دیتی ہے، چنانچہ کسی سید زادے سے کسی قسم کی مخالفت ایک ایسا جرم قرار پا جائے گا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ‘اوندھے منہ‘ دوزخ میں گرائے جانے کی سزا کی وعید سنائی ہے۔کیا فی الواقع قریش کے ساتھ مخالفت ایسا ہی جرم ہے؟اگر ایسا ہی ہے تو چاہیے تھا کہ مناقب قریش پر فقہ اسلامی میں ایک پورا باب رقم ہوتا اور اسلام آفاقی دین کے بجائے ایک نسلی دین قرار دیا جاتااور سیدزادوں کو بھی برہمن زادوں کی طرح اچھوتا اور ناقابل تنقید و مخالفت بنا دیا جاتا۔ظاہر ہے کہ اسلام کا اس تصور سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
اس کے بعداگرچہ کسی اور دلیل کی ضرورت تو نہیں رہتی ،لیکن چونکہ آثار صحابہ میں بھی ہمارے حق میں بہت سا مواد پایا جاتا ہے۔اس لیے ہم یہ چاہتے ہیں کہ مختصراً اس کا جائزہ لے لیا جائے تاکہ آغاز مضمون میں ہم نے دور اول کے بارے میں جو رائے دی ہے،وہ بھی اقوال صحابہ کی روشنی میں ثابت ہو جائے۔
حضرت ابوبکر نے جب خلافت کی ذمہ داری قبول کر لی تو سب لوگوں نے ان کے ہاتھ پر سمع و طاعت کی بیعت کی۔مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کچھ عرصے تک بیعت نہیں کی۔ چنانچہ ایک دن جب انھوں نے حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر ان کی خلافت کو تسلیم کرتے ہوئے بیعت کر لی تو ظہر کی نماز کے بعد حضرت ابوبکر نے ان کی بیعت کا اعلان ان الفاظ میں کیا کہ’’آج علی ’الجماعۃ‘ میں شامل ہو گئے ہیں۔‘‘۵
خلفشار کے زمانے میں جب حضرت عثمان مدینہ میں محصور ہو کر رہ گئے تو اس زمانے میں دو آدمی ان سے حج کی اجازت لینے کے لیے آئے اور انھوں نے یہ بھی پوچھا کہ اس فتنہ میں جو باغیوں نے اٹھا رکھا ہے،وہ کیا کر سکتے ہیں؟ حضرت عثمان نے ان سے کہا کہ وہ صرف حکومت کا ساتھ دیں۔اس موقع پر انھوں نے حکومت کے لیے’الجماعۃ‘ہی کا لفظ اختیار کیا۔یہ مکالمہ اس طرح ہے:
دخل ابو قتادۃ ورجل آخر علی عثمان، وھو محصور فإستأذناہ فی الحج، فأذن لھما. فقالا لہ: إن غلب ھٰولاء القوم (دعاۃ الفتنۃ) مع من نکون؟ قال علیکم بالجماعۃ، قالا: انکانت الجماعۃ ھی التی تغلب علیک مع من نکون؟ قال: فالجماعۃ حیث کانت.(الریاض النظرہ۳/ ۶۱)
’’ابو قتادہ اور ایک آدمی حضرت عثمان کے پاس آئے۔حضرت عثمان،ان دنوں،محصور تھے۔ان دونوں نے حج کی اجازت طلب کی۔حضرت عثمان نے اجازت دے دی۔ تو انھوں نے کہا کہ اگر یہ باغی لوگ غالب آجائیں تو ہم کس کا ساتھ دیں؟ حضرت عثمان نے فرمایا:تم پر نظم اجتماعی (الجماعۃ) کا ساتھ دینا واجب ہے(اسی کا ساتھ دو)۔ اس پر انھوں نے کہا:اگر’الجماعۃ‘وہی ہو جو آپ پر غلبہ پا کر (وجود میں آئے) تو پھر ہم کس کا ساتھ دیں؟ سیدنا عثمان نے جواب دیا:نظم اجتماعی ہی کا ساتھ دو،خواہ (زمامِ اقتدار)کسی کے پاس ہو۔‘‘
اسی طرح یزید بن معاویہ کی بیعت کے موقع پرحضرت عبداللہ بن عمر نے حسین بن علی اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کو حکومت کے ساتھ وفاداری اور بیعت کر لینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا: ’إتقیا اللّٰہ ولا تفرقا جماعۃ المسلمین‘ یعنی’’(خدا کے بندو) اللہ سے ڈرواور مسلمانوں کے’نظم اجتماعی‘ کے لیے انتشار کا باعث نہ بنو۔‘‘۶
۱۔جب حضرت حسن نے اپنے والد حضرت علی کی وفات کے بعد حضرت معاویہ سے معاہدہ کر لیااور ملت اسلامیہ ایک خلافت کے پرچم تلے جمع ہو گئی تو صحابہ اور تابعین نے اس سال کا نام’عام الجماعۃ ‘رکھ دیا تھایعنی وہ سال جس میں مسلمان ایک حکومت (الجماعۃ)کے تحت جمع ہوئے۔
۲۔جب خوارج اور اس طرح کے دوسرے گروہوں نے اسلامی حکومت کے خلاف خروج و بغاوت کی راہ اختیار کی تو ان کے مقابلے میں ملت اسلامیہ نے اپنے لیے اہل السنت و الجماعۃ کا لقب اختیار کیا۔اس میں بھی’الجماعۃ‘اسی معنی میں ہے۔یعنی وہ ملت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر کاربند ہے۔اور التزام جماعت یعنی اپنے اندر قیام ریاست اور اس کے ساتھ وابستگی و وفاداری کے نبوی طریق پر قائم ہے۔یہ نام آپ کے ایک فرمان ’ما أنا علیہ واصحابی والجماعۃ‘ ۷کی بنا پر اختیار کیا گیا ہے،جس میں اخروی فلاح کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
جب یہ بات طے ہوگئی کہ ’الجماعۃ‘ کا مطلب مسلمانوں کا ’نظم اجتماعی‘ یعنی ریاست ہے تو پھر یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ التزام جماعت سے مراد یہ ہے کہ ہمیں ہر حال میں اپنے نظم اجتماعی کے ساتھ خیر خواہانہ طور پر وابستہ رہنا چاہیے۔جس نے اس وابستگی کو ترک کیا۔ اس نے درحقیقت اسلام کو چھوڑ کر جاہلیت کی راہ اختیار کی۔یہ حکم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے احکام کی طرح قرآن مجید کی نص پر مبنی ہے۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے:
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَلاَ تَفَرَّقُوْا وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ کُنْتُمْ أَعْدَآءً فَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوْبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ إِخْوَانًا وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَکُم مِّنْہَا کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ آیَاتِہٖلَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ. وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃٌ یَدْعُوْنَ إِلَی الْخَیْْرِ وَیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.(آل عمران۳: ۱۰۳۔۱۰۴)
’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے مل کر تھامے رہو اور تفرقے میں نہ پڑواور اللہ کے اس فضل کو یادرکھو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمھارے دلوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا۔ اور تم اس کی عنایت سے بھائی بھائی بن گئے۔اور تم آگ کے ایک گڑھے پر کھڑے تھے تواللہ نے تمھیں اس سے بچا لیا،اسی طرح اللہ تمھارے لیے اپنی ہدایات کو واضح کرتاہے تاکہ تم راہ یاب ہو۔اور اس لیے چاہیے کہ تم میں سے ایک(بااختیار)گروہ ہو،جو نیکی کی دعوت دے، معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکے اور ایسا کرنے والے لوگ ہی مراد کو پہنچیں گے۔‘‘
اس باب کی تمام روایتیں اسی آیت پر مبنی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آسمانی ہدایت کے مختلف پہلووں کے مطابق ہی یہ احکام دیے ہیں۔اگر اس آیت پر تدبر کی نگاہ ڈالی جائے تو یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم ’اعتصام بحبل اللّٰہ‘ پر قائم رہنے اور تفرقے سے بچنے کے لیے اپنے اندر ایک نظم اجتماعی قائم کریں۔ ’ولتکن منکم امۃ‘ سے یہی مراد ہے۔ جب کسی چیز کے بنانے یا قائم کرنے کا حکم دیا جاتا ہے تو بننے کے بعد اس کو قائم رکھنے کے لیے اس کے ساتھ تعاون کرنا او راس کے خلاف اقدامات نہ کرنااس حکم میں خودبخود شامل ہے۔یہی چیز التزام جماعت ہے۔
چنانچہ اس آیت کی روشنی میں التزام جماعت کا مطلب یہ ہے کہ ملت کو نیابت رسول میں منصب امامت پر برقرار رکھنے،اسے قرآن و سنت پر قائم کرنے اور ایک پلیٹ فارم پر مجتمع رکھنے والی حکومت کے ساتھ،اس غرض سے وابستہ رہا جائے تاکہ وہ انتشار کا شکار ہو کر منصب امامت سے معزول نہ ہو جائے۔یہی وجہ ہے کہ اس سے منحرف ہونے والے کی سزا دوزخ ہے۔خود قرآن مجیدنے بھی ’اولئک ہم المفلحون‘ کے الفاظ سے اعلان کر دیا ہے کہ حکومت کے بارے میں اس حکم کی تعمیل کرنے والے ہی فلاح پائیں گے،جس کا نقیض ظاہر ہے کہ خود بخود ثابت ہو جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کو ’جاہلیت کی موت‘ سے تعبیر فرمایا ہے:
من رای من أمیرہ شیئا یکرھہ فلیصبر فإنہ من فارق السلطان شبرًا مات میتۃ جاھلیۃ.(مسلم، کتاب الامارہ)
’’جو شخص اپنے حکمران میں کوئی ناپسندیدہ بات دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کی اطاعت پر جما رہے،کیونکہ جو بالشت برابر بھی اقتدار کی اطاعت سے نکلا،وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘
اس حکم سے متعلق بعض دوسرے احکام بھی دیے گئے جن میں سے بعض تو التزام جماعت کا لازمی تقاضا ہیں او ربعض کسی نہ کسی طرح اسی سے متعلق ہیں۔التزام جماعت کے اس حکم کی توضیح کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان احکام کو بھی زیر بحث لایا جائے تاکہ یہ حکم پوری طرح واضح ہو جائے۔
حکمران کی اطاعت کا حکم التزام جماعت کا لازمی تقاضا ہے،کیونکہ جس حکومت کو ہم نے خود قائم کیا ہواور اس کے ساتھ التزام بھی ہم پر لازم ہوتو اس کے فرماں رواکی اطاعت اس کا لازمی تقاضا ہے۔
ذیل میں درج آیت کے تحت حکمران کی اطاعت ہم پر واجب ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْآ أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِی الأَمْرِ مِنْکُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْْءٍ فَرُدُّوْہُ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ذٰلِکَ خَیْْرٌ وَّأَحْسَنُ تَأْوِیْلاً. (النساء ۴: ۵۹)
’’اے ایمان والو،اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں،پھر تمھارے درمیان، اگر کسی معاملے میں اختلاف رائے ہوتو اُسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو۔‘‘
یہ اطاعت ہمارے دینی فرائض میں شامل ہے جسے کسی صورت میں بھی ترک نہیں کیا جا سکتا ۔
مذکورہ بالا آیت کے مطابق مسلمانوں پر صرف انھی ’اولی الامر‘ کی اطاعت واجب ہے جو اسلام کے عقائد کو مانتے اور اصل مرجع اطاعت کی حیثیت اللہ اور اس کے رسول ہی کو دیتے ہوں۔ اور ہر وہ معاملہ جس کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول نے کتاب و سنت میں کردیا ہو، اس کے بارے میں اپنے لیے فیصلے کا کوئی حق نہ سمجھتے ہوں۔
یہ مفہوم اس آیت میں ’منکم‘ کے اضافے اور ’وان تنازعتم فی شی فردوہ الی اللّٰہ والرسول‘ کے عطف سے پیدا ہوا ہے۔یعنی حکمران اس وقت تک واجب الاطاعت ہے جب تک وہ ’منکم‘ کی ضمیر مجرور کا حصہ یعنی مسلمان ہے۔اور تنازع کی صورت میں ’ردوہ الی اللّٰہ والرسول‘ کے حکم کا پابند(شریعت کی بالادستی کا قائل) ہے، چنانچہ جب وہ مسلمانوں سے نکل جائے یا شریعت کی بالادستی تسلیم نہ کرے تو اس کی اطاعت مسلمانوں پر واجب نہیں رہے گی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کو کفر بواح یا کھلے کفر سے تعبیر فرمایا ہے۔
اس اطاعت کے مشروط ہوتے ہی یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ حکمران کی اطاعت مذکورہ شرط کے اٹھ جانے سے ترک بھی کی جا سکتی ہے۔ترک اطاعت چونکہ کسی بھی ریاست کے لیے بہت نازک حالات پیدا کرسکتی ہے،اس لیے اس کے حدودو قیود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود متعین کر دیے ہیں تاکہ مسلمان اس نازک مسئلے میں غلطی نہ کھائیں۔چنانچہ خروج یا محض ترک اطاعت کے لیے بھی ان کا ملحوظ رکھنا از بس ضروری ہے،ورنہ اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی کا اندیشہ ہے۔
اس کے حدود قرآن کی آیت’اولی الامر‘ کے دروبست ہی میں موجود ہیں،انھی حدود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پرواضح فرمایا ہے۔ہم اوپراس آیت کی وضاحت میں ان کی طرف اشارہ کر چکے ہیں۔عبادہ بن صامت کی روایت میں،آپ نے اس کی وجہ جواز یوں بیان فرمائی ہے:
أن لا ننازع الأمر أھلہ إلا ان تروا کفرًا بواحاً عندکم من اللّٰہ فیہ برھان.(مسلم،کتاب الامارہ)
’’(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے اس بات پر بیعت لی کہ)ہم اہل اقتدار سے نزاع نہیں کریں گے۔فرمایا کہ تم ایسا کر سکتے ہو،اگر تم ان کی طرف سے کوئی کفر صریح دیکھو،جس کے بارے میں تمھارے پاس اللہ کی طرف سے برہان قاطع موجود ہو۔‘‘
اس روایت میںآپ نے صاف الفاظ میں فرمایا کہ ہم اہل اقتدار کی اطاعت صرف اس صورت میں ترک کر سکتے ہیں کہ جب وہ کسی صریح کفر(کفربواح) کے مرتکب ہوں۔
اس کی وضاحت بھی آپ نے اسی حدیث میں خود ہی فرما دی ہے۔یعنی ایسا صریح کفر ہو کہ اس کے ثبوت کے لیے کسی بحث مباحثہ اور تاویل کی ضرورت نہ ہو، بلکہ قرآن مجید میں اس کے لیے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں حکم موجود ہو۔ایسا نہ ہو کہ اپنے کسی خیال کے تحت کسی عمل کو کفر قرار دے دیا جائے اور پھر اس کی بنیاد پر ترک اطاعت یا خروج کی ٹھان لی جائے۔جیسا کہ حضرت علی کے زمانے میں خوارج نے’تحکیم‘کو کفر قرار دے لیا تھا۔چونکہ یہ اجتماعی زندگی کی بقا کا مسئلہ ہے، اس لیے خاص اس معاملے میں یہ نہایت ضروری ہے کہ کسی فعل کو کفر قرار دینے کے لیے نا قابل تردید دلائل موجود ہوں۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہے،کفر صرف یہی نہیں ہے کہ اسلام کے عقائد کا انکار کر دیا جائے، بلکہ خود حکمرانوں کے معاملے میںیہ بھی کفر ہے کہ وہ فصل نزاعات،قانون سازی اور حکم جاری کرنے میں اللہ کی دی ہوئی شریعت کی خلاف ورزی پر اصرار کریں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُوْلٰٓءِکَ ہُمُ الْکَافِرُوْنَ.(المائدہ ۵: ۴۴)
’’اور جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہ کریں تووہ لوگ کافر ہیں۔‘‘
کفر بواح کے علاوہ،کسی صورت میں بھی،ترک اطاعت جائز نہیں ہے۔خواہ حکمرانوں کا رویہ دین اور دنیا کے معاملات میں بے پروائی ہی کا کیوں نہ ہو۔آپ نے یہ بات مختلف روایات میں خود واضح فرمادی ہے:
إنھا ستکون من بعدی أمراء یصلون الصلاۃ لوقتھا و یؤخرونھا عن وقتھا، فصلوھا معھم فإن صلوھا لوقتھا وصلیتموھا معہم، لکم ولہم وإن أخروھا عن وقتھا فصلیتموھا. من فارق الجماعۃ مات میتۃ جاھلیۃ. ومن نکث العھد ومات ناکثاً للعھد، جاء یوم القیامۃ، لا حجۃ لہ.(احمد بن حنبل، مسند المکیین)
’’میرے بعدایسے امرا ہوں گے جو وقت بے وقت نماز پڑھیں گے۔تو تم ان کے ساتھ نماز پڑھتے رہو، اگر وہ وقت پر نماز پڑھیں گے تو انھیں اور تمھیں اس کا ثواب مل جائے گااور اگر وہ تاخیر کریں گے تو تمھیں ثواب مل جائے گااور ان کے لیے اس کا وبال ہو گا(اس لیے کہ )جو نظم ریاست سے الگ ہوااور اسی حالت میں مر گیا تو جاہلیت کی موت مرا۔اور جس نے عہد توڑا، اور عہد توڑ کر مرا توقیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اپنے جرم کے حق میں پیش کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی حجت نہ ہوگی۔‘‘
اسی طرح دنیوی امور کے بارے میں روایات سے آپ کا یہی حکم سامنے آتا ہے:
عن عبادۃ بن الصامت فقال: دعانا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم. فکان فیھا اخذ علینا: ان بایعنا علی السمع والطاعۃ فی منشطناومکرھنا وعسرنا ویسرنا واثرۃ علینا وأن لاننازع الامر اھلہ إلا أن تروا کفرًا بواحاً عندکم من اللّٰہ فیہ برھان.(بخاری،کتاب الفتن)
’’عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بلایاکہ ہم سے سمع و طاعت کی بیعت کریں،اس بات پر کہ ہم طوعاً و کرہاً اور تنگی و کشادگی میں، اور اپنے اوپر دوسروں کی ترجیح کے باوجود بھی صاحب امر سے جھگڑا نہ کریں گے۔ اور فرمایا: سوائے اس صورت کے کہ تم لوگ اس کی طرف سے کسی کھلے کفر کا ارتکاب ہوتا دیکھ لواور کفر بھی ایسا کہ جس کے بارے میں تمھارے پاس قرآن و سنت میں واضح دلیل ہو،(محض اپنے کسی خیال پر ایسا نہیں کیا جا سکتا)۔‘‘
اسی طرح شخصی طور پرناپسندیدہ حکمران کی اطاعت کے بارے میں بھی آپ نے یہی حکم دیا:
عن انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إسمعوا وأطیعوا و إن استعمل علیکم عبد حبشی،کان راسہ زبیبۃ. (بخاری،کتاب الاحکام)
’’انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سمع و طاعت پر قائم رہو،خواہ تمھارے اوپر ایک حبشی غلام،جس کاسر منقے کی طرح چھوٹا سا ہو،حکمران بنا دیا جائے۔‘‘
گویااس طرح کی ہر حالت میں حکمران کی اطاعت ہم پر فرض ہے۔ان صورتوں میں نہ حکمران کی اطاعت ترک کی جا سکتی ہے اور نہ اس کے خلاف بغاوت (خروج) کی جا سکتی ہے۔ البتہ کفربواح کے بعد،جیسا کہ ہم نے ذکر کیا، خروج اورترک اطاعت جائز ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ واضح رہے کہ خروج کسی صورت میں بھی واجب نہیں ہوتاقرآن و حدیث کے تمام ذخیرے میں خروج اور ترک اطاعت کو واجب قرار نہیں دیا گیا،بلکہ اس کے جواز پر بھی کفربواح کے علاوہ تین شرطیں اور عائد کی گئی ہیں۔
جہادکے لیے اقتدار اولین شرط ہے اور یہ خروج کے لیے بھی ہو گی،البتہ اس کے علاوہ تین مزید شرائط اس پر لاگو ہوتی ہیں:
۱۔پہلی شرط جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ یہ ہے کہ اس اقدام کا حق اس وقت تک حاصل نہیں ہوتا جب تک اولوالامر کھلے کفر کا ارتکاب نہ کریں۔ہم اسے پوری تفصیل سے اوپر بیان کر چکے ہیں۔
۲۔دوسری شرط اس اقدام کے لیے یہ لگائی گئی ہے کہ حکومت استبدادی ہوجو نہ مسلمانوں کی رائے سے قائم ہوئی ہواور نہ ان کی رائے سے اسے تبدیل کر دینا کسی شخص کے لیے ممکن ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام نے حکومت کے انعقاد اور اس میں تبدیلی کے لیے ’امر ھم شوریٰ بینھم ۸‘کا قاعدہ مقرر کیا ہے۔ اس لیے بغاوت کے ذریعے سے تبدیلی لانے کی کوشش اس حکم کی صریح خلاف ورزی ہے۔
۳۔ دوسری شرط ہی کا ایک لازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ علم بغاوت بلند کرنے والے کو مسلمانوں کی اکثریت کی تائید حاصل ہو۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
من بایع رجلا عن غیر مشورۃ من المسلمین فلا یبایع، ھو ولا الذی بایعہ تغرۃ ان یقتلا. (بخاری،کتاب الحدود)
’’جس شخص نے مسلمانوں کی رائے کے بغیر کسی کی بیعت کی،وہ اور جس کی بیعت کی گئی،دونوں اپنے اس اقدام کی وجہ سے اپنے آپ کو قتل کے لیے پیش کریں گے۔‘‘
یہ وہ شرائط ہیں جن کی خلاف ورزی کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے۔چنانچہ یہ اگر پوری نہ ہوں تو خروج کرنے کے بجائے وہ جہاد ہی افضل ہے،جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
إن من أعظم الجھاد کلمۃ عدل عند سلطان جائر.(ترمذی،کتاب الفتن)
’’بے شک کلمۂ حق ایک بڑا جہاد ہے، جب وہ کسی جابر بادشاہ کے سامنے کہا جائے۔‘‘
اس سلسلے کا دوسرا حکم یہ ہے کہ ایسے حکمران کے خلاف ،جس کی حکومت پر قوم مجتمع ہو،اگر بغاوت اٹھے تو اس کے مقابلے میں حکمران کا ساتھ دیا جائے:
فوا ببیعۃ الاول فالأول. واعطوا حقھم، فإن اللّٰہ سائلھم عما استرعاھم.(مسلم،کتاب الامارہ)
’’جس کی پہلے بیعت کی ہو،اس کی بیعت کوپورا کرو۔یہ ان کا حق ہے،اسے ادا کرو۔ اور جس کی ذمہ داری اللہ نے ان (حکمرانوں) پر ڈالی ہے،اس کے بارے میں،وہ خود ان سے پوچھ لے گا۔‘‘
اگر ان کا ساتھ نہ دیا جائے تو التزام جماعت کے حکم کی خلاف ورزی ہوگی۔چونکہ اطاعت اولی الامر کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ ملت اسلامیہ انتشار اور فتنے سے محفوظ رہے، اس وجہ سے پہلا حکم یہ ہے کہ موجود حکمران کا ساتھ دیا جائے۔اور دوسرے یہ کہ علم بغاوت بلند کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے تاکہ اس طرح کی سوچ رکھنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو۔
جس حکومت پر قوم کی اکثریت مجتمع ہو،اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا اسلام میں ایک سنگین جرم ہے۔یہ اصل میں ملت اسلامیہ کو توڑنے کا اقدام ہے۔اور ملت کا انتشار اصل میں منصب امامت سے اس کا عزل ہے،کیونکہ اس منصب پر قائم رہنے کے لیے ملت کو جسد واحد کی طرح ہونا چاہیے۔اس لیے جو آدمی اس ملت میں انتشار پیدا کرتا ہے،وہ ملت کو اس کے منصب سے معزول کرنے کا باعث بنتا ہے اور اس طرح یہ’شہادت علی الناس‘کے فریضہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔قرآن کی اصطلاح میں یہ’فساد فی الارض‘ ہے،جس کی سزا دنیا میں موت اور آخرت میں دوزخ ہے۔
إنہ ستکون ھنات وھنات فمن أراد أن یفرق أمرھذہ الامۃ، وھی جمیع فاضربوہ بالسیف کائنا من کان. (مسلم،کتاب الامارہ)
’’یہ بات یاد رکھو کہ میرے بعدجلد ہی مصیبت پر مصیبت آئے گی تو جس نے اس ملت کے نظام اجتماعی کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی،جبکہ یہ اپنی حکومت پر مجتمع ہو تو جو بھی تفریق پیدا کرنے والا ہو، اس کی گردن ماردو،خواہ وہ کوئی بھی ہو۔‘‘
یہ التزام جماعت کا ایک بدیہی تقاضا ہے کہ پوری ملت اسلامیہ ایک ہی نظام ریاست میں بندھی رہے۔ملت اسلامیہ کا چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ جانا،منشاے دین کے خلاف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہادت حق کے لیے مبعوث فرمایا اور اس سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے یہ لازم قرار دیا کہ وہ نہ صرف اپنے اندر نظام خیر کو نافذ کرے، بلکہ یہ بھی کہ امت مسلمہ ایک سیاسی قیادت کے تحت،ریاست ہاے متحدہ اسلامیہ کی صورت میں جسد واحد بن کر رہے۔
چنانچہ قرآن مجید نے جہاں قیام حکومت کا حکم دیا ہے،وہاں تمام عالم اسلام کی ایک حکومت بنانے کا حکم بھی دیا ہے ’ولتکن منکم امۃ‘۹میں ’امۃ‘ کا لفظ اختیار کیا ہے ’امم‘ کا نہیں۔
اس باب میں چوتھا حکم اجتماعی امور میں سواد اعظم (اکثریت)کی پیروی کا ہے۔اسلامی نظام ریاست شوریٰ پر قائم ہوتا ہے،جس میں مشورے کے وقت اختلاف رائے ایک فطری امر ہے۔اگر اختلاف افہام و تفہیم سے طے نہ ہو تو اس صورت میں فیصلے کی بنیاد اکثریت کی رائے پر رکھی گئی ہے:
فإذا رأیتم اختلافاً، فعلیکم بالسواد الأعظم.(ابن ماجہ،کتاب الفتن)
’’جب تم اختلاف پاؤتو اس صورت میں اکثریت کی رائے کی پیروی تم پر لازم کی گئی ہے۔‘‘
چنانچہ ہم ریاستی امور مثلاًحکمران کے انتخاب،ملکی نظام کی تشکیل،قانون سازی، ملکی امور میں حکمت عملی کی ترتیب جیسے معاملات میں سواد اعظم(اکثریت)کی پیروی کے پابند ہیں۔یہی وہ واحد راستہ ہے،جس کے بعداختلاف کے باوجود بھی’الجماعۃ‘ کے ساتھ وابستہ رہا جا سکتا ہے۔
اگر کسی وقت مسلمان غیر مسلم حکمرانوں کے محکوم ہو جائیں تو بحیثیت قوم ایک ہی قیادت کے تحت جمع ہو جائیں تاکہ ان کے رہنما اپنے حکمرانوں کو دعوت ایمان کے بعد،ان کے ایمان نہ لانے کی صورت میں ان سے اپنی قوم کی آزادی یا مذہبی آزادی جیسے حقوق کا مطالبہ کر سکیں،جیسا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کیا:
وَقَالَ مُوْسٰی یَا فِرْعَوْنُ إِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَالَمِیْنَ. حَقِیْقٌ عَلَی أَنْ لاَّ أَقُوْلَ عَلَی اللّٰہِ إِلاَّ الْحَقَّ قَدْ جِءْتُکُم بِبَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَأَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ. (الاعراف۷: ۱۰۴۔۱۰۵)
’’اور موسیٰ نے کہا: اے فرعون میں پروردگار عالم کا رسول ہوں۔یہی مناسب ہے اور میں اسی کا حریص ہوں کہ اللہ کی طرف حق کے سوا کوئی اور بات منسوب نہ کروں۔میں تمھارے پاس تمھارے پروردگار کی طرف سے واضح نشانی لے کر آیا ہوں۔ پس (میری قوم)بنی اسرائیل کو تم میرے ساتھ جانے دو۔‘‘
اوپر ہم قرآن کا حکم دیکھ چکے ہیں کہ ملت اسلامیہ پر ایک ریاست کا نظام قائم کر کے رہنا لازم کر دیا گیا ہے۔وہ کسی صورت میں بھی اس حالت میں زندگی بسر نہ کریں کہ نہ ان میں کوئی رشتہ و ربط ہواور نہ وحدت ملت کے لیے کوئی رابطہ۔وہ محض ایک بھیڑ ہوں،جو اپنے میں سے کسی قائد کی قیادت پر جمع نہ ہوں۔حتیٰ کہ احادیث سے تو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر تین یا تین سے زیادہ مسافر کسی سفر کو نکلیں تو وہ اپنے اندر کسی ایک کو سربراہ مقرر کرلیں۔ظاہر ہے کہ اگر کسی سر زمین میں مسلمان ایک قوم کی شکل اختیار کر لیں تو یہ حکم مزید موکد ہو جاتا ہے۔آپ کا فرمان ہے:
لا یحل لثلاثۃ نفر یکونون بارض فلاۃ الا امروا علیھم احدھم.(احمد بن حنبل، مسند المکثرین من الصحابہ)
’’جس گروہ میں تین افراد ہوں،اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی ویرانے میں ہوں، سوائے اس کے کہ انھوں نے اپنے اوپر اپنے میں سے ایک سربراہ مقرر کر لیا ہو۔‘‘
یہ تقاضا ظاہر ہے، نیابت کے اصول پر پیدا ہوتا ہے،چنانچہ جہاں مسلمانوں پر ان کی اپنی حکومت قائم نہ ہو وہاں ان پر لازم ہے کہ وہ اس حکم پر عمل کریں،لیکن جہاں مسلمان اپنی حکومت کے تحت جمع ہوں،خواہ وہ حکومت نظری طورہی پر مسلمان ہو تو اس صورت میں اس قسم کی جماعت سازی، یقیناًغیر اسلامی فعل ہے۔اس لیے کہ نیابت کے لیے ضروری ہے کہ’الجماعۃ‘ کا وجود ہی نہ ہو۔
اگر وہ محکوم ہوں تو اصول نیابت کا یہ تقاضا تویقیناًہو سکتا ہے کہ وہ ایک قیادت کے تحت جمع ہوجائیں اور ان کا قائد موسیٰ علیہ السلام کی طرح،اپنے غیر مسلم حکمرانوں کو اسلام کی دعوت دے سکے اور ان کے انکار کی صورت میں اپنی قوم کی آزادی یا وہاں رہنے کے لیے مذہبی آزادی جیسے حقوق کا مطالبہ کر سکے۔لیکن یہ تقاضاقطعاًپیدا نہیں ہوتا کہ مسلمانوں کے اندر سے ایک گروہ اکٹھا کر کے اسے’الجماعۃ‘ قرار دے لیا جائے۔ اس قسم کی جماعت سازی مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کے بجائے انھیں ایک دوسرے سے کاٹنے کا باعث بنے گی۔چنانچہ ہمارے ملک ہی میں دیکھ لیجیے کہ اس فلسفے کے تحت قائم ہونے والی تمام جماعتیں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے بجائے انھیں کئی گروہوں اور فرقوں میں تقسیم کر چکی ہیں۔
اس کے برعکس ریاست پاکستان کو دیکھیے کہ اپنی تمام تر خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود رنگ و نسل اور مذہب و مسلک کے اعتبار سے مختلف اقوام کو ایک ہی پر چم تلے جمع کرنے میں کامیاب ہے۔ ہمارے نزدیک یہی وہ طریقہ ہے،جسے قرآن نے ’ولتکن منکم امۃ‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’علیکم بالجماعۃ‘ کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس لیے کہ اس حکم کی علت اقامت دین نہیں، بلکہ ’اعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعا ولا تفرقوا‘ ہے، چنانچہ وہ طریقہ اس کی تعمیل کیسے ہو سکتا ہے جو حبل اللہ پر جمع کرنے اور تفرقہ سے بچانے کے بجائے انھیں کاٹ کر فرقہ فرقہ کردے۔اس پر تفصیلی بحث مضمون کے آخر میں’دوسرے انحراف پر تنقید‘ میں ہوگی۔
قرآن مجید میں یہ حکم جس سیاق میں آیا ہے،اس پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ’ولتکن منکم امۃ‘۱۰میں قیام ریاست کا یہ حکم،اس لیے دیا جا رہا ہے کہ ملت متحد رہ کر نیابت رسول کے لیے تیار رہے اور اس حیثیت میں شہادت علی الناس کا فریضہ سر انجام دے سکے۔اس منصب امامت پر قائم رہنے کے لیے،جس طرح شریعت اور نظام عدل پر قائم رہنا ضروری ہے،اسی طرح، ایک مرکز اور ایک نظم سے وابستگی بھی اشد ضروری ہے۔چنانچہ،التزام جماعت کے حکم سے مقصود،اصل میں،یہی ہے کہ ملت وحدت ریاست پر قائم رہے۔اس میں انتشار پیدا نہ ہو۔انتشار اس کے لیے عذاب الٰہی اور وحدت اس کے لیے رحمت خداوندی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ نے یہ حکم اس تاکید کے ساتھ دیا ہے کہ اگر ان تمام روایات کو جمع کر لیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا توحید،معاد اور رسالت پر ایمان کے بعد یہ اسلام کا سب سے بڑا حکم ہے،جس سے انحراف اسی طرح دوزخ کی سزا کا موجب ہے، جس طرح ان بنیادی عقائد سے انحراف۔
چنانچہ،آپ نے اس بات کی طرف مختلف اسالیب میں اشارہ کیا ہے کہ انتشار ملت اس کے افراد اور اس کے اجتماعی وجود کے لیے زہر قاتل ہے۔اور التزام جماعت ان فتنوں کے لیے ڈھال ہے۔
۱۔یہ فطری سی بات ہے کہ فتنوں سے بچنے کے لیے اور دشمن کے مقابلے میں، مضبوط و محکم رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ملت ایک مرکزسے وابستہ ہو۔ چنانچہ، جب تک ملت اسلامیہ ایک مرکز سے وابستہ رہے گی، اس وقت تک فتنوں سے محفوظ رہے گی ، کیونکہ ایک متحد گروہ ایک منتشر بھیڑ سے بہتر ہے۔جس طرح اکیلا آدمی بھاری دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اسی طرح اکیلا مسلمان بھی شیطان جیسے دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔اور انتشار کے باعث،ملت اسلامیہ،اجتماعی سطح پر،بھی دشمن کے مقابلے میں،زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتی۔چنانچہ،رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عن معاذ بن جبل ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إن الشیطان ذئب الانسان،کذئب الغنم، یاخذ الشاۃ القاصیۃ والناحیۃ، فإیاکم والشعاب و علیکم بالجماعۃ والعامۃ والمسجد.(احمد بن حنبل،کتاب مسند الانصار)
’’معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:شیطان انسان کے لیے ایسے ہی ہے جیسے بکریوں کے ریوڑ کے لیے بھیڑیا،جو ریوڑ سے الگ اور اس سے گریزاں ہو کر چلنے والی بھیڑکھا جاتا ہے۔ شیطان کے اس شر سے بچنے کے لیے تم پر واجب ہے کہ ہر ممکن انتشار سے بچو، اور حکومت کی اطاعت پر کمر بستہ رہو۔ ریوڑ کے ساتھ رہو، اس سے الگ ہو کر نہ چلو۔ اسی مقصد کے لیے مسجد سے بھی جڑے رہو، اس لیے کہ وہ اجتماعیت کا مرکز ہے۔‘‘
ایک اور موقع پرآپ نے اس تمثیل کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ میرے بعدفتنے اٹھیں گے۔پہلی امتوں میں،ان فتنوں کو کچلنے کے لیے،انبیا آتے رہے، مگر چونکہ اب کسی اور نبی کو نہیں آنا،اس لیے تم ان فتنوں سے بچنے کے لیے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنا،حقوق العباد ادا کرتے رہنااور نظم اجتماعی سے وابستہ رہنا۔ورنہ فتنوں کا یہ شیطانی بھیڑیا تمھیں بھی نگل جائے گا۔نسائی کی روایت ہے:
أیھاالناس، أنہ لم یکن نبی قبلی، الا کان حقاًعلیہ ان یدل امتہ علی ما یعلمہ خیر الھم، وینذرھم ما یعلمہ شرا لھم، ألا و ان عافیۃ ھذہ الامۃ فی اولھا، وسیصیب آخرھا بلاء و فتن، یرقق بعضہا بعضاً، تجئ الفتنۃ، فیقول المؤمن: ھذہ مھلکتی، ثم تنکشف ثم تجئ فیقول: ھذہ ھذہ، تجء، فیقول: ھذہ ھذھ، ثم تنکشف، فمن أحب أن یزحزح عن النار، ویدخل الجنۃ، فلتدرکہ منیتہ وھویؤمن باللّٰہ والیوم الآخر، و یأتی إلی الناس ما یحب أن یؤتی الیہ ومن بایع إماماً، فاعطاہ صفقۃ یدہ، وثمرہ قلبہ فلیطعہ إن استطاع.(کتاب البیعہ)
’’اے لوگو،مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں گزرا کہ جس پر یہ لازم نہ رہا ہو کہ وہ اپنی قوم کی رہنمائی ان کے بھلے کی طرف کرے، اور ان کے بُرے سے انھیں متنبہ کر دے۔ (میں بھی تمھیں اچھے اور بُرے سے آگاہ کرنے آیا ہوں)، تو آگاہ رہو کہ اس امت کا پہلا د ور تو عافیت کادور ہے۔ بعد کادور فتنوں کا ہے،جس میں فتنے پے درپے اٹھیں گے۔ تو جب کوئی فتنہ اٹھے گا تو بندۂ مومن کہے گا کہ یہ میر ی ہلاکت ہے، پھر دوسرا فتنہ اٹھے گا،تو وہ کہے گا،یہ میر ی ہلاکت ہے۔پھر وہ فتنہ بھی فروہو جائے گا۔تو جو چاہتا ہے کہ ان فتنوں کی وجہ سے دوزخ سے بچا کر جنت میں داخل کیا جائے تو چاہیے کہ اسے اس حالت میں موت آئے کہ وہ اللہ اور آخرت کو مانتا ہو۔اور لوگوں کے ساتھ ویسے ہی پیش آئے، جیسا وہ چاہتا ہے کہ خود اس کے ساتھ پیش آیا جائے۔اورجو کسی حکمران کے ہاتھ پر بیعت کرے اور اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر، صدق دل سے اطاعت کا عہد کرے تو اسے چاہیے کہ وہ، حتی الامکان، اس کی اطاعت کرتا رہے۔‘‘
یعنی ملت کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے بچنے کے لیے یہ لازم کیا گیا ہے کہ ہم’الجماعۃ‘ کے ساتھ وابستہ رہیں۔
۲۔اس حکم میں،پیش نظر،ایک چیز یہ بھی ہے کہ ان فتنوں کا مقابلہ تائید الٰہی کے بغیر ممکن نہیں ہے،اور تائید الٰہی صرف اس صورت میں نازل ہو گی،جب ہم اس کے حکم کے مطابق باہم دگر متحد رہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
ید اللّٰہ علی الجماعۃ. (مستدرک،کتاب العلم)
’’الجماعۃ کے قائم رہنے میں اللہ کی تائیدو نصرت ہے۔‘‘
اسی طرح آپ کافرمان ہے:
الجماعۃ رحمۃ والفرقۃ عذاب.(مسند احمد، اول مسند الکوفیین)
’’الجماعۃ کا قائم رہنا اللہ کی رحمت ہے اور اس ’الجماعۃ‘ کا بکھر جانا عذابِ الٰہی ہے۔‘‘
__________
۱’’جس نے نظم اجتماعی کو چھوڑاتو جب وہ مرا تو جاہلیت کی موت مرا۔‘‘(صحیح بخاری،کتاب الفتن)
۲رسائل و مسائل،ابوالاعلیٰ مودودی،۱/ ۴۰۸ اور ۴/ ۳۴۶-۳۴۸۔
۳احمد بن حنبل، عن عبداللہ بن عمر العاص۔
۴احمد بن حنبل،عن نعمان بن بشیر۔
۵تاریخ الاسلام،الذہبی ۳/ ۱۴، باب خلافت ابی بکر الصدیق۔
۶تاریخ الامم والملوک، طبری۶/ ۱۹۱۔
۷ابن ماجہ، کتاب الفتن۔
۸الشوری ۴۲: ۳۸۔ ’’ان (اہل ایمان)کے معاملات باہمی مشورے سے چلتے ہیں۔‘‘
۹’’اور تمھارے اندر ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے۔‘‘ (آل عمران ۳: ۱۰۴)
۱۰’’تم میں ایک (بااختیار) گروہ ہونا چاہیے ( یعنی حکومت)۔‘‘ (آل عمران ۳: ۱۰۳)
_______________