عن حذیفۃ رضی اللّٰہ عنہ، قال: کان الناس یسئلون رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الخیر، وکنت اسئلہ عن الشر مخافۃ ان یدرکنی [وان اللّٰہ بعث نبیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام فدعا الناس من الکفر الی الایمان و من الظلالۃ الی الھدی، فاستجاب من استجاب، فحی من الحق ما کان مات، ومات من الباطل ماکان حیاً ۱] فقلت: یارسول اللّٰہ ، انا کنا فی جاھلیۃ وشر فجاء نا اللّٰہ بھذا الخیر فھل وراء ھذا الخیر شر؟ قال: نعم ، تکون النبوۃ فیکم ما شاء اللّٰہ ان تکون ، ثم یرفعھا اذا شاء ان یرفعھا ، ثم تکون الخلافۃ علی منھاج النبوۃ، ثم یرفعھا اذا شاء ان یرفعھا، ثم یکون ملکاً عاضاً، فیکون ما شاء اللّٰہ ان یکون، ثم یرفعھا اذا شاء ان یرفعھا، ثم تکون ملکا جبریۃ، [ثم تکون ما شاء اللّٰہ ان تکون ثم یرفعھا اذا شاء ان یرفعھا]۲قلت: ھل وراء ذالک الشرخیر؟ قال: نعم، ثم تکون خلافۃ علی منھاج النبوۃ، وفیہ دخن قلت وما دخنہ، قال: قوم یستنون بغیر سنتی ویہدون بغیر ھدی ، تعرف منھم وتنکر وسیقوم فیھم رجال، قلوبھم شیاطین فی جثمان انس، قلت ھل وراء ذالک الخیر شر؟ قال: نعم، [دعاۃ علی ابواب جھنم، من اجابھم الیھا قذفوہ فیھا] ۳[قلت یا رسول اللّٰہ، صفھم لنا، قال ھم من جلدتنا ویتکلمون بأ لسنتنا، ثم سکت]۲[قلت: فما تامرنی ان ادرکنی ذالک؟ قال: تلزم جماعۃ المسلمین]۳[وتسمع و تطع الامیر ، وان ضرب ظھرک واخذ مالک فاسمع واطع، قلت: فان لم تکن لھم جماعۃ ولا امام؟ قال : فاعتزل تلک الفرق کلھا ولو ان تعض بأصل شجرۃ حتی یدرکک الموت، وانت علی ذالک]۴[قال حبیب فلما قام عمر بن عبد العزیز، وکان یزید بن النعمان بن بشیر فی صحابتہ ، فکتبت الیہ بھذا الحدیث اذکرہ ایاہ، فقلت لہ: انی ارجو ان یکون امیر المومنین یعنی: عمر، بعد الملک العاض والجبریۃ. فادخل کتابی علی عمر بن عبد العزیر، فسریہ واعجبہ] (مسلم،کتاب الایمان)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگ عام طور سے’خیر‘ کے بارے میں سوال کیا کرتے تھے، لیکن میں آنے والے فتنوں کے بارے میں سوال کیا کرتاتھا کہ مبادا ان فتنوں میں پڑ کر اپنا ایمان کھو دوں۔اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا،آپ نے لوگوں کو کفر چھوڑنے اور ایمان لانے کی دعوت دی،اور گمراہی سے نکال کر ہدایت کی طرف بلایا،پھر جس نے ایمان لانا تھا، لے آیا۔ آخر کار آپ کی دعوت سے حق زندہ ہو گیااور باطل نے دم توڑ دیا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:یارسول اللہ،ہم آپ سے پہلے گمراہی اور جہالت میں گرفتار تھے تو اللہ نے ہمیں آپ کی نبوت سے سرفراز کیا، مگر یہ بتائیے کہ کیا اس خیر کے بعد بھی فتنوں کے آنے کا امکان ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، جب تک اللہ چاہے گا ،یہ نبوت تمھارے درمیان قائم رہے گی اور پھر اللہ اسے، جب چاہے گا ،اٹھا لے گا، اس کے بعدنبوت کے طرز پر خلافت قائم ہو گی او رجب تک اللہ چاہے گا، قائم رہے گی،پھر اسے بھی اللہ، جب چاہے گا، اٹھا لے گا،جس کے بعد استبدادی حکومت قائم ہوگی اور جب تک اللہ چاہے گا، قائم رہے گی۔پھر اسے بھی، جب چاہے گا، اٹھا لے گا۔ اس کے بعد استحصالی حکومت قائم ہو گی اور جب تک اللہ چاہے گا،قائم رہے گی، پھر اسے بھی، جب چاہے گا،اٹھا لے گا۔تو میں نے عرض کی: یارسول اللہ، کیا اس شر کے بعد خیر کا دورآئے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں، پھر اس کے بعد دوبارہ نبوت کی طرز پرخلافت قائم ہو گی، مگر اس میں رخنے ہوں گے۔ میں نے عرض کیا: یہ رخنے کیسے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: اس میں ایسے لوگ ہوں گے، جو نہ میری ہدایت کی پیروی کریں گے، اور نہ میر ی سنت پر عمل کریں گے، ان سے معروف و منکر، دونوں طرح کے عمل صادر ہوں گے۔ ان میں ایسے لوگ اٹھیں گے جن کے جسموں میں شیطانوں کے دل ہوں گے۔تو میں نے عرض کی: یا رسول اللہ، اس خیر کے بعد،کیا پھر شر کا زمانہ آ جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اس کے بعد ایسے داعی پید ا ہوں گے جو،گویا، جہنم کے دروازوں پر کھڑے لوگوں کو پکاریں گے، جس نے ان کی بات مان لی، وہ اسے جہنم میں لے جائیں گے۔ میں نے عرض کی:یہ لوگ کیسے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: یہ ہمارے جیسے ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولیں گے۔ پھر آپ خاموش ہو گئے تو میں نے پوچھا: اگر میں ان فتنوں میں گھر جاؤں تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: مسلمانوں کے اجتماعی نظم سے منسلک رہنااور امام المسلمین کے مطیع و فرماں بردار رہنا،خواہ تمھیں مارا پیٹا جائے اور تمھارا مال تم سے چھین لیا جائے، تب بھی اس کی اطاعت کرتے رہنا۔ تو میں نے پوچھا: اور اگر ان میں حکومت نہ ہوئی اور نہ ان کا کوئی حکمران ہوا تو پھر کیا کروں؟آپ نے فرمایا: پھران گروہ بندیوں کو چھوڑ کر الگ ہو جانا، خواہ اس کے لیے تمھیں کسی درخت کی کھوہ ہی میں رہنا پڑے اور اسی حالت میں تمھیں موت آجائے۔حبیب کہتے ہیں کہ جب عمر بن عبدالعزیز خلیفہ ہوئے اور وہ نعمان بن بشیر ان کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے تو میں نے ان کو یہ حدیث یاد دلاتے ہوئے لکھا کہ میرا خیال ہے کہ امیرالمومنین عمر بن عبدالعزیز استبدادی اور استحصالی حکومتوں کے بعد بر سر اقتدار آئے ہیں، ان کی حکومت یقینا، خلافت علی منہاج النبوہ ہے۔ ان کو یہ خط دے کر خوش خبری سناؤاور انھیں خوش کرو۔
’’ملک عاض‘‘ یعنی استبدادی حکومت اس سے مراد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد کا زمانہ ہے۔ یہ دور عبداللہ بن زبیر کی خلافت کے انعقاد پر ختم ہوا۔
’’ملک جبریہ‘‘یعنی استحصالی حکومت۔ اس سے مراد حضرت عمر بن عبدالعزیز سے پہلے کی وہ حکومت ہے جو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی حکومت کے بعد شروع ہوئی،جس میں ذاتی دشمنیوں کی بنا پر خلیفۃ المسلمین نے محمد بن قاسم اور موسیٰ بن نصیر جیسے لوگ بے دریغ قتل کر دیے تھے۔حکمران،عامۃ الناس کے اموال اور جائدادیں بلا جھجک ہڑپ کر رہے تھے اور عوام الناس کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔یہی وہ استحصالی حکومت ہے،جو عبدالملک بن مروان کے ہاتھوں وجود میں آئی،جس نے حجاج کو ملک حجاز کا حاکم بنایا،جس کے ہاتھوں عبداللہ بن عمر اور حضرت انس جیسے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم پر ظلم وستم ہوا اور مدینہ منورہ کے عوام و خواص کو قتل عثمان کا مجرم قرار دے کر ستایا گیا۔یہی حکومت آگے چل کر مختلف ہاتھوں سے ہوتی ہوئی عمر بن عبدالعزیز کے ہاتھ آئی۔
’’خلافت علی منہاج النبوہ‘‘ یعنی نبوت کی طرز پر دوبارہ قائم ہونے والی حکومت۔اس سے مراد عمر بن عبدالعزیز کی حکومت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا س طرح کی جتنی پیش گوئیاں کی ہیں، ان کی حیثیت اصل میں دلیل نبوت کی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے بعد جلد ہی پوری ہو جائیں تاکہ دلیل نبوت بن سکیں۔ہماری اس رائے کی تائید میں اسی روایت میں بعض اشارے بھی موجود ہیں جن کی وضاحت ہم ان کے مقام پر کریں گے۔
یعنی، اس میں کچھ رخنے ہوں گے۔ اگرچہ خلیفہ تو نبوت کی طرز پر حکومت کرے گا، مگر اس میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے،جو شریعت اسلامیہ کے خلاف عمل کریں گے،سنت کی خلاف ورزی کریں گے اور نہی عن المنکر اور امر بالمعروف کا فریضہ ادا کرنا تو الگ رہا،وہ خود منکرات کا ارتکاب کریں گے،حتیٰ کہ انھیں معروف و منکر میں کوئی امتیاز ہی نہیں ہوگا۔یہ شکل و صورت سے تو انسان ہی دکھائی دیں گے،مگر ان کے سینوں میں شیطانی دل ہوں گے۔اسی میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ دوبارہ قائم ہونے والی خلافت راشدہ کی بنیادیں گہری اور مضبوط نہیں ہوں گی،بلکہ شخص واحد، یعنی عمر بن عبدالعزیز کے سہارے ہی پر قائم ہوگی۔جوں ہی یہ شخص اٹھ جائے گا، خلافت راشدہ بھی ختم ہوجائے گی۔ اور اس سے اس بات کی طرف بھی اشارہ نکلتا ہے کہ یہ خلافت کسی عمومی انقلاب کی وجہ سے وجود میں نہیں آئے گی، بلکہ اتفاقاً حکومت کے کسی خدا ترس کے ہاتھ میں منتقل ہوجانے سے وجود پذیر ہوگی۔ چنانچہ، اس روایت سے، موجودہ دور میں، بعض لوگوں کا یہ استدلال ٹھیک نہیں ہے کہ ملت اسلامیہ زوال کے بعد دوبارہ بیدار ہوگی اور اس میں عمومی انقلاب آئے گا، جس کے بعد دنیا ایک مرتبہ پھر’خلافت علی منہاج النبوہ‘ کا دور دیکھے گی۔
یعنی یہ خلافت بھی جلد ہی ختم ہو جائے گی اور ’’منہاج النبوہ‘‘ پر قائم نہیں رہے گی، اس کے بعدپھر وہی شر کا دور شروع ہوجائے گا۔
آپ نے یہاں ’دعاۃ‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔اس سے آپ کا اشارہ ان فرقوں اور گروہوں کی طرف ہے،جو نئے نئے افکار اور فلسفیانہ مذہب لے کر اٹھے اور طویل عرصے تک عالم اسلام کے علمی و فکری افق پر چھائے رہے،ان افکار و مذاہب میں فتنۂ باطنیت، فلسفۂ یونان، شیعیت اور تصوف سر فہرست ہیں۔ ان افکار باطلہ پر ایک طویل عرصے کے بعد امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے پر زور تنقید کی اور یہ ثابت کیا کہ ان نظریات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھی کے بعد ان افکار باطلہ کا زور ٹوٹا، لیکن ابھی تک عالم اسلام ان بیرونی افکار کے غلبہ اور استیلا سے نہیں نکل سکا۔ آج بھی اسے اس طرح کے کئی افکار و نظریات کی یلغار کا سامنا ہے، نعوذ باللّٰہ ان نکون من المبتدعین۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی سے علما نے یہ مطلب لیا ہے کہ اس خلافت کے بعد اچھے اور برے ادوار آتے رہیں گے اور یہی بات ہمارے نزدیک صحیح ہے۔
یعنی اس کے باوجودکہ حکومت، اسلام کی خلاف ورزی کر رہی ہواورحق کی را ہ سے ہٹ چکی ہو،تب بھی اس کے مطیع و فرماں بردار رہنا،کہیں ایسا نہ ہو کہ تم یہ خیال کرو کہ اب یہ حکومت اس معیار پرنہیں رہی،اس لیے اس کی اطاعت ضروری نہیں،یہ خیال بالکل غلط ہے،کیونکہ اسلام یہ پسند نہیں کرتا کہ مسلمان اپنی ریاست کے نظم سے کسی حال میں بھی الگ ہوں،اس لیے تم نظم ریاست سے منسلک رہنا اور پہلے کی طرح اس کی اطاعت کرتے رہنا۔اگر تم اس کی اطاعت سے باہر نکلے تو یہ سمجھ لو کہ تم اللہ کی اطاعت سے نکل گئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’من رای من امیرہ شیئا یکرہ فلیصبر علیہ فانہ من فارق الجماعۃ شبرًا فمات الامات میتۃ جاھلیۃ‘ (بخاری، کتاب الفتن) ’’جس نے اپنے امیر کی طرف سے کوئی ناپسندیدہ بات دیکھی، اسے چاہیے کہ وہ صبر کرے،کیونکہ جو ایک بالشت کے برابر بھی جماعت سے الگ ہوا اور اسی حالت میں مر گیا،اس کی موت جاہلیت پر ہوئی۔‘‘
یعنی،اگر مسلمانوں میں حکومت نہ ہوئی اور نہ وہ کسی رہنمائی پر مجتمع ہو سکیں تو پھر تم ان گروہ بندیوں سے الگ رہنا۔ اس حکم کا تعلق انتشار و افتراق کی صورت حال سے ہے۔چنانچہ، اگر مسلمان اپنی ریاست میں کسی ایک حکمران پر جمع نہ ہو سکیں تو اس طرح کے مواقع پر ایک مسلمان کے لیے یہی حکم ہے کہ وہ اس انتشار و افتراق کا حصہ نہ بنے اور تلوار اٹھانے والوں کا ساتھی ہرگز نہ بنے۔
یعنی ان کی رائے میں بھی اس ’خلافت علی منہاج النبوہ‘ کا مصداق سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی خلافت ہی ہے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی عمر بن عبدالعزیزکی خلافت کے قیام پر پوری ہوئی۔اس میں یقیناًعمر بن عبدالعزیز کے لیے ایک بڑی خوش خبری تھی۔
[۱۹۹۳ء]
_________
۱احمد بن حنبل،عن حذیفہ بن الیمان۔
۲احمد بن حنبل،عن حذیفہ بن الیمان۔
۳مسلم،عن حذیفہ،فی کتاب الامارہ۔
۴مسلم، عن حذیفہ،فی کتاب الامارہ ۔
___________________