پاکستان میں پچھلے کئی سالوں سے فرقہ دارانہ فسادات میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ اس لحاظ سے نہایت سنگین ہے کہ اس عرصہ میں دو گروہوں نے اپنی شناخت ہی دو متحارب جماعتوں کی حیثیت سے بنائی ہے۔
اس فرقہ دارانہ کشاکش کے اسباب پر غور کیا جائے تو یہ بات، بلا تامل، کہی جا سکتی ہے کہ مسلمان اسلامی تعلیمات اور موجودہ زمانے کے تقاضوں سے ناواقف ہیں۔ وہ اپنی اس ناواقفیت میں بظاہر اسلام کی خاطر لڑ رہے ہیں، مگر حقیقت میں وہ اسلام کے شجر طیبہ پر کلہاڑا چلا رہے ہیں۔ وہ اسلام اور اسلام کی شخصیات کی ناموس کے دفاع میں گولی چلاتے ہیں، مگر وہ اسلام کی رداے ناموس کو چھید ڈالتی ہے۔ وہ حق کی حمایت میں اٹھتے ہیں، مگر اس سے تقویت باطل کو ملتی ہے۔ ان کی نیت ٹھیک ہے، مگر ان کے عمل کا پھل برا ہے۔ وہ حق کے لیے مرتے ہیں، مگر ان کی شہادت باطل کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے ؟
اس سوال کا جواب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم نے اسلام کے درخشاں اصولوں کو اپنے عمل سے نکال دیا ہے، جن سے ایک صالح معاشرہ وجود پذیر ہوتا اور جن سے اسلام کا وقار بلند ہوتا ہے۔
ہمارے ان کارناموں سے، اس وقت اسلام کے بارے میں یہ تاثر عام پایاجاتا ہے کہ یہ ایک جنگجویانہ یا دوسرے لفظوں میں وحشیانہ مذہب ہے۔ یہ چیز فروغ اسلام کے لیے سود مند تو کیا، خود اسلام کی بقا کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کے اندر اور باہر سے جتنے بھی حملے اسلام پر اس دور میں ہو رہے ہیں، ان کے اسباب پر اگر غور کیا جائے تو ان میں سب سے بڑا سبب ہم مسلمانوں کا یہ غیرمسلمانہ رویہ ہے۔
اس امن پسند دنیا، جس کا خمیر آزادی رائے سے اٹھا ہے، میں ایسا مذہب کیسے قابل قبول ہو سکتا، جس کے ماننے والے اپنے ہم مذہبوں کوبھی کسی دوسری رائے کے ساتھ جینے کا حق نہیں دیتے۔ جن کا مذہب استدلال سے کسی کو قائل نہیں کرتا، بلکہ اس کے لیے مار پیٹ اور تشدد کا ہتھیار استعمال کرتا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام کا تشخص انھی اجزاے ترکیبی سے بنا ہے؟ کیا وہ ،فی الواقع، مار پیٹ سے قائل کرتا ہے؟ کیا اس کے لانے والے کی سیرت میں یہی اسوہ ملتا ہے؟ کیا پیغمبر اسلام نے بھی ’’گالی‘‘ سن کر دعا کے بجائے تلوار سے انتقام لیا تھا؟ کیا قرآن نے اختلاف کے حل کا یہی طریقہ بتایا ہے کہ جو نہ مانے اس کی گردن ماردی جائے؟ کیا دین نے انسانی جانوں کو اتنا ہی ارزاں قرار دیا ہے کہ جانوروں کی طرح انھیں، جب چاہے، ذبح کردیا جائے؟ ظاہر ہے، دین کی بصیرت رکھنے والا کوئی بھی شخص اس کا مثبت جواب نہیں دے سکتا۔
اس لیے کہ اسلام نے گالی دینے کے جواب میں بھی ایک اخلا قیات سکھائی ہے اور قائل نہ ہونے والے کے مقابلے میں یہ طریقہ بھی بتایا ہے کہ بات پہنچاؤ، داروغہ نہ بنو۔ اسی طرح اس نے انسانی جانوں کی حرمت کو بیت اللہ کے برابر قرار دیا۔ انسانی جان کی بے حرمتی، گویا بیت اللہ کی بے حرمتی ہے۔
یہی نہیں،بلکہ اس نے ایک بنیادی اصول یہ دیا ہے کہ تمام انسان آدم و حوا کی اولاد ہونے کے ناتے سے برابر ہیں۔ تمام نسل انسانی ایک ہی آدم کا گھرانا ہے۔ سب کو اللہ تعالیٰ نے ایک آدم و حوا سے پیدا کیا ہے۔ نسل آدم ہونے کے اعتبار سے سب برابر ہیں۔ اس لحاظ سے عربی و عجمی، احمر و اسود اور مشرقی و مغربی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سب آدم کی اولاد ہیں۔ رحم کا رشتہ سب کے درمیان مشترک ہے۔ اس تعلق کا فطری تقاضا ہے کہ سب انسان آپس میں مہر و محبت، حق و انصاف اور باہمی خیرخواہی کے تعلقات رکھتے ہوئے بھائیوں کی طرح رہیں۔ کوئی کسی سے افضل نہ ہو اور کوئی کسی سے ادنیٰ قرار نہ پائے۔
کسی کی ذات پات ، فکرو فلسفہ یا دین و مذہب نہ اسے انسان ہونے میں بڑا کر سکتے ہیں اور نہ چھوٹا۔ کسی برگزیدہ ہستی سے آدمی کا تعلق اسے آدم سے برتر نسل میں نہیں لے جا سکتا اور ایک غریب و مسکین آدمی کے نسب سے ہونا اسے آدم کی نسل سے خارج نہیں کر سکتا۔ کسی کا اعلیٰ دین اسے نسب میں اعلیٰ نہیں بناتا اور کسی کا کم تردین کسی کو نسب میں کمتر نہیں کرتا۔ سب برابر رہتے ہیں۔ اس بات کو قرآن مجید نے واضح کیا ہے، وہ فرماتا ہے:
یَآ أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ.(النساء ۴: ۱)
’’اے لوگو، اپنے اس رب سے ڈرو، جس نے تمھیں ایک ہی جان سے پیدا کیا۔‘‘
مراد یہ ہے کہ یہ خلق آپ سے آپ وجود میں نہیں آگئی، بلکہ خدا کی پیدا کی ہوئی ہے۔ جو سب کا خالق بھی ہے اور سب کا پالنے والابھی۔ اس لیے کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہے کہ اسے بے مالک اور بے راعی کا گلہ سمجھ کر اس میں فساد برپا کرے، اس میں دھاندلی مچائے اور اسے اپنے ظلم و تعدی کا نشانہ بنائے، بلکہ یہ لازم ہے کہ وہ اس کے معاملات میں حق و انصاف اور ہمدردی و رحم دلی کی روش اختیار کرے، ورنہ یاد رکھے کہ خدا بڑا زور آور، بڑا منتقم اور بڑی گرفت رکھنے والا ہے۔ چنانچہ جو اللہ کی مخلوق کے معاملے میں ظلم و تعدی کرے گا، وہ اس کے قہر و غضب سے نہ بچ سکے گا۔
جس طرح تمام نسل انسانی آدم کی اولاد ہے، اسی طرح تمام بنی نوع انسان خدا کی مخلوق بھی ہے۔ جس طرح انسان ہونے کے حوالے سے کسی انسان میں کوئی فرق نہیں ہے، اسی طرح ایک خالق کی مخلوق ہونے میں بھی ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ چنانچہ خدا کی نظر میں سب انسان برابر ہیں، اس لیے کسی کے ساتھ ظلم روا نہیں ہے۔ کسی کی جان لینا اللہ کی رعیت میں ایک فرد کی جان لینا ہے۔ یہ خدا کی حدود میں مداخلت ہے، جسے وہ کسی طرح معاف نہیں کرے گا۔
جب ہم کسی کو شیعہ اور سنی قرار دے کر اس کی جان لے لیتے ہیں، تو صرف اس کی جان ہی نہیں لیتے، صرف اس کے گھرہی کو اجاڑنہیں دیتے، اس کے لواحقین ہی کو بے سہارا نہیں کرتے، بلکہ خدا کے گھر میں نقب لگا دیتے ہیں۔
اس قتل وغارت میں حصہ لینے والے ہرشخص کو آگاہ رہنا چاہیے کہ اس نے اپنے مخالف کی جان لے کر ایک جرم نہیں کیا، کئی جرم کیے ہیں۔ صرف مخلوق خدا ہی کو تنگ نہیں کیا، بلکہ خدا کے گھر میں بھی نقب لگائی ہے۔ اپنے مخالف ہی کو نہیں مارا، اپنے ایک ماں جاے کا خون بھی کیا ہے۔ وہ قابیل ہے، جس نے نسل انسانی کاخون کر دیا ہے۔ اسے نہ نوع انسانی معاف کرے گی اور نہ خدا۔ وہ دونوں کا مجرم ہے۔
[۱۹۹۷ء]
___________________