بِسْمِ اللّٰہِ، اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُکَ خَیْرَ ھٰذِہٖالسُّوْقِ وَ خَیْرَ مَا فِیْھَا وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّھَا وَشَرِّمَا فِیْھَا اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اُصِیْبَ بِھَا یَمِیْنًا فَاجِرَۃً، اَوْ صَفْقَۃً خَاسِرَۃً.
اللہ کے نام کی برکات اور تائید کے ساتھ میں بازار میں داخل ہوتا ہوں۔ اے اللہ، میں تجھ سے اس بازار اور اس بازار کی تمام چیزوں کے خیر کا طالب ہوں۔ اور اس اور اس کی تمام چیزوں کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اے اللہ، اس چیز سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ میں کسی جھوٹی قسم کا ہدف بنوں یا گھاٹے کا سودا کر لوں۔
’بسم اللّٰہ‘ برکت و نصرت کا جملہ ہے۔ یہ نصرت و برکت ایمان کی سلامتی کے حوالے سے بھی ہوتی ہے اورجان و مال کی سلامتی کے حوالے سے بھی۔ جھوٹی قسم کا تعلق ایمان سے ہے اور گھاٹے کے سودے کا تعلق مال سے ہے۔
بازار میں آدمی سودا کرتے وقت یہ خیال نہیں رکھتا کہ وہ کیا کہہ جائے ۔ عام طور سے یہ ہوتا ہے کہ گاہک اس طرح کی بات کہہ دیتا ہے کہ ابھی کل تو ہم نے یہ چیز اتنے میں خریدی تھی یا دکان دار یہ قسم کھا لیتا ہے کہ اللہ کی قسم، میں نے یہ چیز اتنے میں خریدی ہے، حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے کہ ایمان و قسم کی یہ نہایت حقیر قیمت ہے۔ بازار جاتے وقت آدمی کو یہ تذکیر کی گئی ہے کہ وہ اس سے بچنے کی کوشش کرے اور اسے بچنے کے لیے صدق دل سے اس کی دعا کر کے بازار میں داخل ہو۔
اسی طرح اس دعا میں بازار اور اس کی چیزوں سے پناہ مانگی گئی ہے۔ بازار میں اچھے برے ہر طرح کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔ برے کردار والے بازار میں ایسی فضا بنائے رکھتے ہیں کہ جو آدمی کے کردار و سیرت پر اثر انداز ہو کر اسے بگاڑ سکتی ہے۔ اسی طرح کسی کا اچھالا ہوا جملہ بھرے بازار میں آدمی کو بے عزت کر سکتا ہے۔ آدمی کسی کی چال میں گرفتار ہو سکتا ہے۔ سو کئی طرح کے شر ہیں جو بازار میں ہر وقت پیدا ہوتے رہتے ہیں ،جن میں گھِرجانے کا اندیشہ ہمیں گھر سے نکلتے وقت اس دعا پر آمادہ کرتا ہے۔
بازار خریداری کی جگہ ہے۔ا س پہلو سے نقصان کے مواقع بھی ہر وقت پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس اعتبار سے نقصان سے بھی پناہ مانگی گئی ہے۔
[۱۹۹۹ء]
___________________