(۱)
رَبَّنَا بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ.
میں اللہ کا مبارک نام لے کراور اس پر بھروسا کر کے (اس یقین کے ساتھ) گھر سے نکلا کہ اللہ کی مدد کے بغیر کوئی کوشش اور کوئی قوت کارگر نہیں ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب آدمی گھر سے یہ دعا کر کے نکلتا ہے تو اسے اللہ کی طرف سے یہ جواب ملتا ہے کہ ’کفیتَ ووقیتَ و ھدیتَ‘ یعنی تجھے مستغنی کیا گیا، تو محفوظ کیا گیااور تیری رہنمائی کا سامان کردیا گیا۔ اس جواب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اوپر کی دعا کے تینوں جملوں کا مطلب بھی واضح کردیا ہے۔
’بسم اللّٰہ‘ طلب استعانت و برکت کا کلمہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ سنت میں یہ ایک معروف بات ہے کہ ہم ہر کام کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھیں۔ اس کے دیگر فوائد کے ساتھ اس کام میں اللہ کی برکات اور اس کی مدد بھی شامل ہو جاتی ہے۔ کام جیسا ہو گا، اس میں برکات بھی ویسی ہی ہوں گی۔ گھر سے نکلتے وقت آدمی اللہ کی مدد کا زیادہ محتاج ہوتا ہے۔ اس دعا میں بسم اللہ کے کلمات اصلاً استعانت ہی کے لیے آئے ہیں کہ میں گھر سے نکل رہا ہوں تو اے اللہ، میری مدد کرتے رہنا۔
اس کے جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے جواب آتا ہے کہ اب تو ہر طرح کی استعانت سے مستغنی کردیا گیا۔ (یعنی تجھے اللہ کی مدد حاصل ہوئی، جس کے بعد کسی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی۔) ہم پچھلی دعاؤں میں بھی یہ بات واضح کرتے آرہے ہیں کہ دعا کو ہمارے ہاں طلسمی کلمات کی طرح سمجھ لیا جاتا ہے کہ ادھر میں نے ادا کیے، ادھر ان کے اثرات ظاہر ہو گئے۔ دعا ہر گز ایسی چیز نہیں ہے۔ یہ اللہ اور بندے کے اس تعلق کا مظہر ہے جو ایمان کی پختگی اور عقیدے کی درستی پر استوار ہوتا ہے۔ دعا کرنے والا اگر اس کیفیت میں دعا نہ کرے تو دعا اپنی قبولیت سے محروم رہ سکتی ہے۔ صحیح ایمانی کیفیت میں کی گئی دعاؤں کو وہ مقبولیت حاصل ہوتی ہے جس کا جواب آسمان سے فوراً آتا ہے اور وہ عبادت کا درجہ پا لیتی ہے۔ اگلے دونوں جملے دیکھیے اسی ایمان کی نشان دہی کررہے ہیں۔
’توکلت علی اللّٰہ‘ سہارا اور پناہ طلب کرنے کا جملہ ہے، جس میں آدمی اپنے رب سے یہ فریاد کرتا ہے کہ اے اللہ، میں نے آپ پر بھروسا کیا ہے، اس لیے مجھے اس سے محروم نہ رکھنا۔ گویا بسم اللہ کے کلمات میں جو مدد مانگی گئی ہے، اسی کو آگے بڑھایا گیا ہے کہ اے اللہ، میں نے آپ سے مدد طلب کی ہے تو اس میں میرا بھروسا آپ ہی پر ہے۔ حدیث کے مطابق اس کا جواب اللہ رب العزت کی طرف سے قبولیت دعا میں یہ دیا جاتا ہے کہ تجھے حفاظت میں لے لیا گیا۔ اب تیرے دشمن اور شیاطین تجھے کوئی گزند نہ پہنچا سکیں گے۔
’ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ‘ یہ تمام کاموں میں اللہ ہی کی کارسازی کے اقرار کا جملہ ہے۔ شیطانوں سے پناہ کا معاملہ ہو یا نیک ارادوں کی تکمیل، کوئی امراللہ کی مدد کے بغیرممکن نہیں۔ حدیث کے مطابق بندہ یہ دعا کرتا ہے تو اسے یہ جواب دیا جاتا ہے کہ ’ہدیت‘ یعنی کاموں کے سلسلے میں تیری رہنمائی کر دی گئی۔ اس کارساز نے اپنا کام کردیا ہے۔
گھر سے نکلتے وقت یہ دعا آدمی کے ایمان کی افزونی کا باعث ہے جو اسے راستے میں برائیوں سے بچنے میں مدد دے گی۔
(۲)
بِسْمِ اللّٰہِ، اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ، اِعْتَصَمْتُ بِاللّٰہِ، تَوَکَّلْتُ عَلیٰ اللّٰہِ، لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ.
میں اللہ کا مبارک نام لے کر، اللہ پر کامل یقین کر کے، اللہ کا دامن تھام کر، اللہ پر بھروسا کر کے گھر سے نکلا، اللہ کی مدد کے بغیر کوئی کوشش اور کوئی قوت کارگر نہیں ہے۔
اس میں اور پہلی دعا میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ہے۔ ’آمنت باللّٰہ‘ اور ’اعتصمت باللّٰہ‘ کے جملوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ باقی دعا وہی ہے۔ ہم یہاں انھی دو جملوں کو سمجھیں گے۔
’بسم اللّٰہ‘ کے بعد ’آمنت باللّٰہ‘ کے الفاظ اظہار عقیدہ کے لیے ہیں ۔ جس سے ’بسم اللّٰہ‘ کے الفاظ کی معنی خیزی میں یہ اضافہ ہوجاتا ہے کہ میں یہ الفاظ اپنے ایمان کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ دوسرا پہلو ان کلمات کا یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں یہ الفاظ اس لیے سکھائے ہیں کہ جب آدمی گھر سے نکلنے لگے تو اس کا ایمان ان کلمات سے تازگی پائے اور اس کا زاد سفر بنے۔
’اعتصام‘ کے معنی مضبوطی سے تھامنے کے ہوتے ہیں۔ اس میں ایک طرف تھامے رکھنے اور جڑے رہنے کا مفہوم ہے جس کا تعلق ایمان و عقیدے سے ہے اور دوسری طرف عنایت اور بخشش کے متوقع ہونے کا مفہوم بھی ہے جو آدمی کی احتیاجوں اور ضرورتوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صوفیہ کے برعکس اللہ سے بندے کا جو تعلق بتایا ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی خواہشات اللہ سے بیان نہ کرے، وہ بخشش اور جنت کے لیے بندگی نہ کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید نے بندوں کا اپنے رب سے جو تعلق بتایا ہے، وہ دینے والے اور لینے والے کا ہے۔ محتاج اور محتاج الیہ کا ہے۔ آقا اور بندے کا ہے۔ اس لحاظ سے اس دعا میں بندگی کے اس پہلو کی تعلیم بھی ہے کہ میں اپنی امیدوں کا محوراللہ کو بنا کر اللہ کے دامن کو تھامتا ہوں۔
(۳)
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ اَنْ اَضِلَّ اَوْ اُضَلَّ، اَوْ اَزِلَّ اَوْ اُزَلَّ، اَوْ اَظْلِمَ اَوْ اُظْلَمَ، اَوْ اَجْھَلَ اَوْ یُجْھَلَ عَلَیَّ.
اے اللہ، میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں خود بھٹک جاؤں یا کوئی اور مجھے غلط راہ پر لے جائے یا میں راہ صواب سے پھر جاؤں یا کوئی دوسرا مجھے ہٹادے یا میں ظلم کروں یا کوئی دوسرا مجھ پر ظلم کرے یا میں خود نادانی پر اتر آؤں یا کوئی اور مجھ سے نادانی کرے۔
’ضل‘ گمراہ ہونے اور ’زل‘ جادۂ حق سے ڈگمگا جانے اور ’ازل‘ آدمی کو بہلا پھسلا کر اس کی جگہ یا موقف حق سے ہٹا دینے کے معنی میں آتا ہے۔ اسی طرح ’ظلم ‘کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کے معنی میں بھی آتا ہے، مگر قرآن مجید نے اسے اس معنی میں بھی استعمال کیا ہے کہ آدمی گناہ کر کے اپنے آپ کو سزا کا مستحق بنالے۔ اسی طرح ’جہالت‘ علم اور حلم، دونوں کے مقابل کے معنی میں آتا ہے۔
گھر سے باہر نکل کر آدمی اچھے برے ہرقسم کے لوگوں سے ملتا ہے۔ اس سے برے کاموں میں پڑنے اور جادۂ مستقیم سے ہٹ جانے اور ظلم و جہالت پر اتر آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے بندۂ مومن کو گھر سے نکلتے وقت اس علام الغیوب کی پناہ لے کر نکلنا چاہیے تا کہ وہ ان گمراہیوں میں پڑنے سے بچالے۔ دوسرے اس دعا کو گھر سے نکلتے وقت اس لیے بھی سکھایا گیا ہے کہ آدمی ایسے ارادے سے باہر نہ نکلے۔ اگر وہ نکل رہا ہو تو اس دعا کی وجہ سے اپنے ارادے کو تبدیل کرنے کا حوصلہ اس کے اندر پیدا ہو سکے۔
’ضلالت‘ اور ’زل‘ گمراہی کے جملہ پہلووں کو محیط ہیں۔ پہلے کا تعلق راستے سے ہے یعنی ’ضلالت‘ کا مطلب یہ ہے کہ میں کہیں غلط راستے پر نہ پڑ جاؤں۔ جس منزل کے لیے جا رہا ہوں، کہیں اس کی راہ ہی گم نہ کر بیٹھوں یا صراط مستقیم کے بجائے غلط راہوں پر نہ نکل جاؤں۔ جبکہ ’زل‘ سے مراد اپنے ارادوں کی تبدیلی ہے کہ صراط مستقیم کے علم کے باوجود میں خود ہی اس راہ سے نہ پھر جاؤں یا میں کسی دوسرے کے دھوکے میں آجاؤں۔
’جہالۃ‘ کے معنی میں یہ یہاں ’حلم‘ کے متضاد معنی کا غلبہ ہے۔ یعنی یہ کہ آدمی برائی کرنے والے کی برائی پر حلم و بردباری اور عفو و درگزر کرنے کے بجائے اسی طرح کی برائی اس کے ساتھ کر ڈالے تو اس کو جہالت کہیں گے۔ قرآن مجید میں اسی بات کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ ’وإذا خاطبہم الجاہلون قالوا سلاما‘ یعنی اللہ کے بندوں کے ساتھ جب جاہل لوگ جہالت پر اتر آتے ہیں تو وہ انھیں سلام کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ ان جیسا برتاؤ نہیں کرتے۔
گویا اس دعا میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب گھر سے نکلو تو اس نصیحت کو ذہن میں تازہ کر لو کہ اگر کسی کام کاج میں کوئی تمھارے ساتھ جہالت پر اتر آئے تو تم جہالت پر نہ اترنا، بلکہ کسی سے کوئی کام خراب ہو جائے تو تمھیں جہالت اختیار کرنے میں پہل بھی نہیں کرنی چاہیے، بلکہ حلم و بردباری سے معاملہ کرنا چاہیے۔
[۱۹۹۹ء]
___________________