(۱)
رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیْ اَمْرِنَا وَ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الکَافِرِیْنَ. (آل عمران ۳: ۱۴۷)
اے ہمارے رب، ہمارے گناہوں کو معاف فرما اور ہماری ان (خطاؤں اور ) بے اعتدالیوں کو بھی معاف فرما جو ہم نے اپنے ہی معاملے میں کر لی ہوں۔ اور ہمارے قدم جما اور کفار پر ہمیں غلبہ عطا فرما۔
یہ دعا جنگ احد کی شکست کے بعد مایوس ہو جانے والے کمزور ایمان کے مسلمانوں کی سبق آموزی کے لیے نازل ہوئی کہ تم سے پہلے انبیا و صالحین کو جب بھی حق و باطل کے معرکوں میں کسی شکست و آزمایش کا سامنا ہوتا تو وہ مایوس ہونے کے بجائے اپنی خطاؤں پر توبہ و استغفار کرتے اور خیال کرتے کہ یہ شکست و فتح اللہ کی آزمایش بھی ہے اور ہماری کارگزاری کا نتیجہ بھی۔ یقیناً ہم سے کوئی خطا ہوئی ہے جس کی وجہ سے اللہ نے ہمیں شکست سے دو چار کیا ہے۔ اس لیے ان کی زبانوں پر یہ دعا جاری ہو جاتی کہ اے اللہ، ہماری ان خطاؤں سے در گزر فرماجن سے خود ہمیں ہی نقصان پہنچا ہے یا جن کی وجہ سے تو نے اس شکست اور مشکل سے ہمیں دوچار کیا۔
دعا کا آغاز عام گناہوں کی بخشش کی درخواست سے ہوا ہے۔ اس کے بعد ان گناہوں پر مغفرت طلب کی گئی ہے جن کا تعلق اس آزمایش سے ہے جواس وقت آدمی پر نازل ہوئی ہوتی ہے۔ اس کے لیے الفاظ نہایت عمدہ اختیار کیے گئے ہیں کہ ’اسرافنا فی امرنا‘۔ اسراف کا لفظ ایسا جامع ہے کہ چھوٹی سی چھو ٹی لغزش بھی اس کے تحت آجاتی ہے۔ بعض اوقات چھوٹی چھوٹی لغزشیں، جن پر آدمی توبہ و استغفار کو ضروری خیال نہیں کرتا وہ بھی مشکل وقت میں اس کے ذہن میں آنے لگ جاتی ہیں کہ شاید یہ اس وجہ سے ہوا یا اس وجہ سے۔
گناہ چھوٹا ہو یا بڑا درحقیقت گناہ ہے، اپنے اثرات ضرور ظاہر کر کے رہتا ہے، اس لیے لازم ہے کہ ہر گناہ پر مغفرت کا طلب گار رہا جائے۔
’ثبت اقدامنا وانصرنا علی القوم الکافرین‘ کا تعلق کفار کے ساتھ معرکہ آرائی سے ہے۔ عام حالات میں دعا کے یہ کلمات حذف بھی کیے جا سکتے ہیں۔ جو آدمی مشکلات اور ناکامیوں پراپنے گناہوں پر مغفرت کی یہ دعا کرے تو اللہ کا اس سے وعدہ ہے کہ وہ دنیا میں بھی اس کا صلہ عنایت فرمائے گا اور آخرت میں بھی اس کے اچھے اجر سے نوازے گا۔ یہ وعدہ اس دعا کے بعد سورۂ آل عمران (۳) کی آیت ۱۴۸میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: ’فَاٰتٰہُمُ اللّٰہُ ثَوَابَ الدُّنْیَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْاٰخِرَۃِ، وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ‘ (اللہ نے ان کو دنیا کا صلہ بھی عطا فرمایا اور آخرت کے اچھے اجر سے بھی نوازا۔ اور اللہ خوب کاروں کو دوست رکھتا ہے)۔
(۲)
اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْہَمِّ، وَالْحَزَنِ وَالْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَضَلَعِ الدَّیْنِ وَغَلَبَۃِ الرِّجَالِ.
اے اللہ، میں حسرتوں اور پچھتاووں سے،عجز اور کسل مندی سے، بزدلی اور بخل سے، قرض کے بوجھ سے اورغلبۂ رجال سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سب سے پہلے غم اور پچھتاووں سے پناہ مانگی ہے۔ غم کے لیے دعا میں ’ھم‘ کا لفظ آیا ہے، یہ اصل میں ان حسرتوں کے معنی میں آتا ہے جن کے لیے آدمی ارادے باندھتا ہے، مگر انھیں کر نہیں پاتا۔ پچھتاووں کے لیے دعا میں حزن کا لفظ ہے، جس کا اصل مترادف قلق ہے۔ یہ کھوئی ہوئی چیزوں اور کام کرنے کے موقعوں کے ضائع ہو جانے کا قلق ہے جو خوشی کے موقعوں پر دل میں اپنی کھٹک سے آدمی کو غم زدہ کر کے خوشی سے محروم کر دیتا ہے اور اپنی شدت سے آدمی کو مستقبل کی جدوجہد سے بعض اوقات روک کر ناکارہ کردیتا ہے ۔ یہ دونوں (حزن اور غم ) اگر اللہ کی عنایت نہ ہو تو مایوسی کی طرف لے جاتے ہیں۔ مایوسی ہر حال میں خدا کے انکار او راس پر بھروسا نہ کرنے کا سبب بنتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ مایوسی ایمان اور بالخصوص توکل کی نفی ہے۔ اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پناہ مانگی ہے۔
اس کے بعد آپ نے عجز و کسل مندی سے پناہ مانگی ہے۔ عجز کاموں اور نیکیوں کو کرسکنے کی صلاحیت و قوت سے محرومی ہے۔ یہ جسمانی معذوری ہی نہیں، بلکہ ذہنی عدم آمادگی بھی ہے جو آدمی کو کم ہمت کر کے نیکی کمانے کے جذبے سے محروم کردیتی ہے۔ کسل مندی سستی اور کاہلی ہے۔ یہ جسمانی تکان اور بے ہمتی کے ذہن پر غلبہ پانے کی کیفیت کا نام ہے۔
آدمی جب تکان محسوس کررہا ہواور محض اس وجہ سے کسی نیکی یا عمل خیر کو انجام دینے سے گریز کر رہا ہو تو یہ کسل مندی راہ خیر کی ایک آفت ہے جو کاموں میں تعطل او ر رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ یہاں اس سے اسی لیے پناہ مانگی گئی ہے۔
اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بخل اوربزدلی سے پنا ہ مانگی ہے۔ بزدلی بہادری کا الٹ ہے۔ بہادری صرف میدان جنگ ہی کی چیز نہیں ہے، بلکہ دین پر عمل کرنے، ابطال باطل اور احقاق حق کے راستے پر چلنے میں بہتیری منزلیں آدمی محض بزدلی ہی کی وجہ سے کھو دیتا ہے۔ گویا جس طرح یہ میدان جنگ میں دشمنان دین کے راستے میں ثابت قدمی سے روکتی ہے اسی طرح ایمان کی عملی میدان میں تکمیل کی راہ میں بھی یہ رکاوٹ ہے۔ حد یہ ہے کہ اسی بہادری کی عدم موجودگی کی وجہ سے آدمی دروازے پر آئے ہوئے سائل کوچند ٹکے دینے سے رک جاتا ہے کہ اگر میں نے یہ اسے دے دیے تو کل میرا کیا ہو گا۔
اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ، میں ’ضلع الدین‘ سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ ’ضلع الدین‘ سے مراد قرض کا بوجھ ہے۔ یہ مضمون بہت سی دعاؤں میں آچکا ہے۔ یہاں اس کی وضاحت تحصیل حاصل کے سوا کچھ نہیں ہوگی۔
اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غلبۂ رجال سے پناہ مانگی ہے۔ بعض شارحین نے اس سے کمین لوگوں (پست طبقہ) کا غلبہ مراد لیا ہے۔ یعنی کم علم اور کم ظرف اور کوتاہ بین لوگوں کا غلبہ معاشرت کے بگاڑ کا سبب بنتا اوراس کی اقدار کے لیے ہادم ہو جاتا ہے۔ قوموں کے اہداف ناقص اور اس کی ترجیحات سطحی ہو جاتی ہیں ۔ یہاں اس بات کا امکان بھی موجودہے کہ اس جملے کا تعلق ’ضلع الدین‘ والے جملے سے ہو۔ یعنی قرض خواہوں کا غلبہ۔
لیکن رجال کا لفظ کمین لوگوں اور قرض خواہوں کے لیے کسی طرح موزوں نہیں ہے۔ ہمارے خیال میں اس سے مراد اکابرین امت کا غلو آمیز غلبہ ہے۔ تاریخ ادیان پر جن لوگوں کی نظر ہے وہ جانتے ہیں کہ ہر امت میں انبیا کے بعد ان کے وارث فقیہ، عالم، صوفی، راہب، ربی اور فریسی اصل شریعت کے ساتھ ساتھ اپنے فتووں کو بھی اس طرح سے پیش کرتے رہے ہیں کہ تالمود کی طرح ان کی فقہ اور رائے کو شریعت کی حیثیت حاصل ہوجاتی رہی ہے، جس کے نتیجے میں لوگوں کے لیے ایسی ایسی عجیب و غریب جزئیات تعین کے ساتھ لکھ دی جاتی ہیں کہ جن کا بجا لانا جان جوکھم میں ڈالنے سے کسی طرح کم نہیں ہوتا۔ اس کے بعد سادہ اور آسان دین اتنا مشکل اور بھاری ہو جاتا ہے کہ پوری پوری امت بے عملی کی طرف بڑھ جاتی رہی ہے۔ قرآن مجید نے اسے اصر و اغلال کہا ہے اور اس طرزعمل پر کہا ہے کہ یہ اپنے ہاتھ سے فتویٰ لکھتے اور کہتے کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔
ٹھیک اسی طرح راہبوں اور صوفیوں کا بھی غلبہ امت پر ہو جاتا ہے۔ ان سے کشف و کرامات منسوب ہو جاتی ہیں۔ ان سے مصائب کے وقت مدد طلب کی جاتی اور انھیں ایک درجہ میں الہٰ کا درجہ دے کر امت میں ان کی پرستش شروع ہو جاتی ہے۔ یہاں سے عقائد میں ایسی خرابی پیدا ہو جاتی ہے کہ توحید، رسالت، آخرت غرض عقائد کی فہرست یا ان کے معنی و مدعا میں تبدیلی کر دی جاتی ہے۔ گویا فقہا و فریسی شریعت میں تبدیلی کا باعث بنتے ہیں اور صوفیہ، راہب اور ربی شریعت و عقائد، دونوں میں۔
غلبہ سے یہاں مراد ان کو شریعت و عقائد میں ماخذ ماننا ہے۔ اس طرح انھیں یہ مقام دے کر ’ارباب من دون اللّٰہ‘ کی حیثیت دینا ہے۔ ان کے کہے کو حجت اور حتمی ماننا اور ان کی رائے اور فیصلے کو شریعت کی حیثیت دینا ہے۔ ظاہر ہے، ان کا یہ غلبہ ہادم دین اور حکمت دین کاقاتل ہے۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پناہ مانگی ہے۔
اس ’الرجال‘ میں سیاسی زعما اور فقہی مسلک کی بنیاد پر مذہبی حکمرانوں کے جبر و استیلا کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ جس سے عیسائی روم کی تاریخ خونچکاں ہے۔ پاپائیت کا ظلم مسلمانوں نے بھی جھیلا ہے۔ امت اسلامیہ میں بھی بعض حصوں میں تاریخ ایسے انقلابات دیکھ چکی ہے کہ جس کی تاریخ بہرحال اچھی نہیں ہے۔ اگرچہ عیسائی تاریخ سے قدرے بہتر ہے۔
سادہ لفظوں میں یوں کہیے کہ حضور نے فرمایا: میں دین میں خرابی آجانے سے اور معاشرے اور امت پر دین متین کے بجائے رجال امت کے غلبہ سے پناہ مانگتا ہوں۔
[۱۹۹۹ء]
___________________