اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ.
وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ المَحْیَا وَفِتْنَۃِ الْمَمَاتِ.
اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعْوْذُ بِکَ مِنَ الْمأْثِمِ وَالْمَغْرَمِ.
اے اللہ، میں عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور میں دجال مسیح کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
میں زندگی اور موت کی آزمایشوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
اے اللہ ، میں ’ماثم و مغرم‘ سے تیری پنا ہ چاہتا ہوں۔
یہ اصلاً ایک دعا ہے، لیکن اس میں جن دو بڑے معاملات کاذکر ہوا ہے، وہ قدرے تفصیل کے متقاضی ہیں۔ ایک عذاب قبر اور دوسرے مسیح الدجال کا فتنہ ۔ یہاں تفصیل سے ان پر بحث کرنے کا موقع نہیں ہے، اس لیے ہم اختصار کے ساتھ ان کو بیان کرکے دعا کی اصل غایت کے بیان کی طرف بڑھ جائیں گے۔
عذاب قبر کے لیے بعض دعاؤں میں فتنۂ قبر کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ چنانچہ عذاب قبر یا فتنۂ قبر کے دو پہلو ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ موت کے بعد فرشتے جوسوال جواب کریں گے، اسی کو فتنۂ قبر قرار دیا گیا ہے۔ اس پہلو سے دعا کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ اس سوال و جواب میں ناکامی سے محفوظ رکھے۔
دوسر ے اس سے یہ مراد ہے کہ ہر مرنے والے کو اس کا ٹھکانا دکھایا جائے گا۔ چنانچہ دوزخیوں کو چونکہ مرنے کے بعد دوزخ دکھائی جائے گی، اس لیے آپ نے یہ دعا کی کہ مرنے کے بعد اس عذاب سے بچا، جس میں مجھے دوزخ دکھائی جائے۔
’المسیح الدجال‘ کے فتنے سے مراد کسی مسیحی فریب کار (شخص یا قوم) کا برپا کردہ فتنہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ فتنہ قرب قیامت میں برپا ہو گا۔ مسیح کے لفظ سے اشارہ مل رہا ہے کہ یہ سیدنا عیسٰی علیہ السلام کی نام لیوا قوم مسیحیوں میں سے ہوگا۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ قرب قیامت میں یاجوج ماجوج کی اولاد کے ظہور سے ایک فتنہ اٹھے گا۔ اس وقت یاجوج ماجوج کی اولاد کی اکثریت مسیحی ہے۔ اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ مسیح دجال اور یاجوج ماجوج کا فتنہ ایک ہی ہے یا مسیح دجال کا فتنہ یاجوج ماجوج کے فتنہ کا ایک حصہ ہے۔
دجال سے مراد نہایت چابک دستی سے دجل و فریب کرنے والے کے ہیں، جس سے اس فتنے کی نوعیت پر بھی روشنی پڑ رہی ہے کہ اس فتنے میں فریب و دجل سے کام لیا جائے گا۔ لوگ اس کے فریب میں آکر اپنی تہذیب، اپنا دین، ایمان سب کچھ کھو بیٹھیں گے۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اس فتنہ انگیزی سے پناہ مانگی ہے۔
فتنۂ حیات سے مراد زندگی میں آنے والے گرم و سرد مواقع اور سخت و نرم امتحانات ہیں، جبکہ فتنۂ ممات سے مراد موت کے وقت کی آزمایش ہے۔ آدمی جب دنیا سے رخصت ہو گا تو نہ جانے اس پر کیسی حالت ہو، مثلاً کوئی انتہائی تکلیف دہ مرض آخری لمحات میں آدمی کے لیے غارت گر دین و ایمان ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اگر وہ اس موقع پر خدا کے لطف و عنایت سے محروم رہا تو اس بات کا امکان ہے کہ اس کی موت کفر و شرک پر ہو۔ اسی وجہ سے یہ دعا بھی سکھائی گئی ہے کہ اللہ ہمیں حالت ایمان پر وفات دے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع کے اس فتنے کی آزمایش سے پناہ مانگی ہے کہ آدمی اس میں اگر مبتلا ہو تو اللہ اسے سرخرو کرے۔
دعا کے آخر میں ’ماثم و مغرم‘ سے بھی پناہ طلب کی گئی ہے۔قرآن مجید میں ’اثم‘ کا لفظ حق تلفی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ اور ’مغرم‘ کا لفظ ایسے بوجھ اور ذمہ داری کے معنی میں آتا ہے جو ناقابل برداشت ہو جائے۔ بعض اوقات آدمی قرض وغیرہ لے کر اس کے بوجھ تلے ایسا دب جاتا ہے کہ اس سے زندگی بھر نکل نہیں سکتا۔ ایسے بوجھ ایک طرف آدمی کو دوسروں کی نگاہ میں بے وزن بنا دیتے ہیں اور دوسری طرف آدمی خود اس بوجھ تلے دب کر بسا اوقات اخلاق سے گر جاتا ہے اور بعض اوقات اگر اخلاق و دیانت کو ہاتھ سے نہ جانے دے تو ایسا ہو جاتا ہے کہ جیتے جی مرجاتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’ماثم و مغرم‘ کے الفاظ کے استعمال سے ایک ہی حقیقت کے دو پہلووں سے پناہ مانگی ہے کہ نہ میں کسی کا حق مارنے والا بنوں اور نہ مجھ پر کسی کا ایسا حق ہی قائم ہو کہ میں اس کے بوجھ تلے دب کر رہ جاؤں۔
[۱۹۹۹ء]
___________________