رمضان کے مہینے میں وہ لوگ بھی تہجد کی نماز کا اہتمام کر لیتے ہیں جو عام دنوں میں اس سعادت سے محروم رہتے ہیں۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کے اذکار کا تذکرہ بھی ہو جائے تاکہ اس مبارک مہینے میں لوگ زیادہ سے زیادہ اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کر سکیں۔
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ، وَاخْتِلاَفِ الَّیْْلِ وَالنَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ. الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ. رَبَّنَآ اِنَّکَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَیْْتَہٗوَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ. رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ: اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَکَفِّرْ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ. رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَلاَ تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّکَ لاَ تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ.
فَاسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ اَنِّیْ لَآ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ فَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا وَاُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَاُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَقٰتَلُوْا وَقُتِلُوْا لَاُکَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ وَلَاُدْخِلَنَّہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عِنْدَہٗحُسْنُ الثَّوَابِ.
لاَ یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلاَدِ. مَتَاعٌ قَلِیْلٌ ثُمَّ مَاْوٰہُمْ جَہَنَّمُ وَبِءْسَ الْمِہَادُ. لٰکِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ لَہُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا نُزُلاً مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْْرٌ لِّلْاَبْرَارِ.
وَاِنَّ مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ لَمَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْْکُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْْہِمْ خٰشِعِیْنَ لِلّٰہِ لاَ یَشْتَرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ثَمَنًا قَلِیْلاً اُولٰٓءِکَ لَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.
آسمانوں اورزمین کے بنائے جانے اور دن اور رات کے آنے اور جانے میں اہل عقل کے لیے )حق کو پانے کے لیے( نشانیاں ہیں، ان کے لیے جو اٹھتے، بیٹھتے اور اپنے پہلووں پر لیٹے خدا کو یاد کرتے، آسمانوں اور زمین کی خلقت پر غور کرتے ہیں۔ (جس کے نتیجے میں ان کی دعا یہ ہوتی ہے کہ) اے ہمارے پروردگار، تو نے یہ کارخانہ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ تو اس سے پاک ہے کہ کوئی عبث کام کرے۔ سو تو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا، اے ہمارے رب، جسے تو نے دوزخ میں ڈال دیا، اسے تو نے بلاشبہ رسوا کر ڈالا۔ اور ان ظالموں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہو گا۔ اے ہمارے رب، ہم نے ایک پکارنے والے کو ایمان کی دعوت دیتے سنا کہ لوگو، اپنے رب پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لائے۔ اے ہمارے رب، ہمارے گناہوں کو بخش دے۔ ہماری برائیوں کو ہم سے دور کر دے اور ہمیں موت اپنے وفادار بندوں کے ساتھ دے۔ اے ہمارے رب، جس کا تو نے ہمارے ساتھ اپنے رسولوں کے ذریعے سے وعدہ فرمایا ہے، وہ ہمیں ضرور عطا فرمانا۔ (اس سے محروم رکھ کر) ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کرنا۔ بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا۔
تو ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول فرمائی کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا، مرد ہویا عورت، تم سب ایک دوسرے سے ہو۔ سوجنھوں نے ہجرت کی اور جو اپنے گھروں سے نکالے اور ہماری راہ میں ستائے گئے، لڑے اور مارے گئے ہیں، ان سے ان کے گناہوں کو دور کر دوں گا۔ اور ان کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ یہ اللہ کے ہاں سے (ان کے عملوں کا) بدلہ ہوگا اور بہترین بدلہ تو اللہ ہی کے پاس ہے۔
اور ملک کے اندر کفار کی یہ سرگرمیاں تمھیں کسی مغالطے میں نہ ڈالیں۔ یہ چند دن کی متاع حیات ہے، پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ اور وہ کیا ہی بری جگہ ہے۔ البتہ جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے، ان کے لیے ایسے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ کی طرف سے ان کے لیے پہلی میزبانی ہو گی۔ اور جو کچھ اللہ کے پاس اس کے وفادار بندوں کے لیے ہے، وہ کہیں بہتر ہے۔
اہل کتاب میں ایسے بھی ہیں جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو تم پر اتارا گیا اور اس پر بھی جو ان پر اتارا گیا۔ اللہ سے ڈرتے ہوئے وہ اللہ کی آیتوں کا حقیر قیمت پر سودا نہیں کرتے۔ ان کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے۔ بے شک اللہ جلد احسان چکانے والا ہے۔ اے ایمان والو، صبر اور مصابرت سے کام لو۔ مقابلے کے لیے تیار رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب رہو۔
یہ سورۂ آل عمران کی آخری گیارہ آیات ہیں۔ ان میں اللہ تعالیٰ نے دعا کی صورت میں امت مسلمہ کو بعض تعلیمات دی ہیں۔ ایک لوگ وہ ہوتے ہیں جو ساری زندگی لاابالی پن سے بسر کر جاتے ہیں۔ جنھیں اس کی توفیق بھی حاصل نہیں ہوتی کہ اپنے اوپر آنے والے مصائب ہی پر متنبہ ہو جائیں اور خدا کی دنیا کی حقیقت کو سمجھ کر اس کے مطلوبہ رویے کو اختیار کریں۔ اس کے برعکس کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں کہ ان پر مصائب آئیں یا نہ آئیں، وہ اس دنیا کی حقیقتوں پر غور کرتے رہتے اور اپنی زندگی کا لائحۂ عمل مرتب کرتے رہتے ہیں۔ انھیں قرآن مجید نے ’اولی الألباب‘ (عقل مند) کہا ہے۔
پھر ان عقل والوں کے بارے میں یہ بتایا ہے کہ ان کے دل بیدار ہیں، وہ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے اس کائنات میں ہونے والے تصرفات پر غور کرنے سے وہ اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ یہ دنیا عبث و باطل نہیں ہے۔ یہ بے مقصد نہیں ہے، بلکہ اس کے پیچھے کوئی عظیم مقصد اور اس کے بعد یقیناًجزا و سزا ہے۔ چنانچہ وہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ، اس زندگی کے بعد جس جزا و سزا سے ہمیں دوچار ہونا ہے، اس میں اپنے عذاب سے ہمیں بچا۔ اس لیے کہ جسے تو نے اپنے عذاب میں مبتلا کیا تو وہ رسوا ہوا۔
اس غوروخوض کا لازمی نتیجہ ہے کہ آدمی اپنے ماحول میں اٹھنے والی ہر دعوت پر غور کرے اور اگر وہ حق ہو تو اسے مانے اور اگر وہ ناحق ہو تو اس کا انکار کرے۔ چنانچہ اسی غوروخوض کے بعد جس طرح وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ’رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً‘ اس طرح انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کو بھی اسی غوروخوض کے باوصف ضروری خیال کیا۔ چنانچہ وہ اس رسول پر ایمان لائے۔ اس لیے کہ وہ اسی رب پر ایمان کی دعوت دے رہا تھا جو کائنات پر غور سے دریافت ہوا تھا، چنانچہ نہایت ایمان افروز کلمات سے اپنے اس عمل کا اظہار وہ خدا کے سامنے کرتے ہیں کہ: ’رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا‘، ’’اے ہمارے رب، ہم نے ایک پکارنے والے کو ایمان کی دعوت دیتے سنا کہ لوگو، اپنے رب پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لائے۔‘‘
اس اعلان کے بعد وہ اپنے رب سے دعاگو ہوتے ہیں کہ: ’’اے ہمارے رب، ہمارے گناہوں کو بخش دے۔ ہماری برائیوں کو ہم سے دور کر دے۔ اور ہمیں موت اپنے وفادار بندوں کے ساتھ دے۔ اے ہمارے رب، جو کچھ تونے ہمارے ساتھ اپنے رسولوں کے ذریعے سے وعدہ فرمایا ہے، وہ ہمیں ضرورعطا فرمانا۔ (اس سے محروم رکھ کر) ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کرنا۔ ہمیں یقین ہے کہ تو اپنے وعدوں کے خلاف نہیں کرے گا۔‘‘
یہ اس ایمان سے پھوٹنے والی دعا ہے، جس ایمان کی منزل وہ غوروخوض اور دعوت رسول کے بعد طے کر آئے تھے اور انھوں نے ہجرت و جہاد میں ساری دنیا کو چھوڑ کر رسول کا ساتھ دیا۔ ایسے موقع پر کی جانے والی دعائیں رد نہیں ہوتیں، یہ فوراً قبول ہوتی ہیں۔ چنانچہ یہاں بھی اللہ کی طرف سے بلاتا خیر دعا کی مقبولیت کی نوید سنائی جاتی ہے کہ ’فَاسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ اَنِّیْ لَآ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ فَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا وَاُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَاُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَقٰتَلُوْا وَقُتِلُوْا لَاُکَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ وَلَاُدْخِلَنَّہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عِنْدَہٗحُسْنُ الثَّوَابِ‘۔
آگے دعا کا حصہ نہایت اہم ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ کفار کی ملک کے اندر چلت پھرت اور شوروغوغا سے پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے، اس لیے کہ یہ سب اللہ کے مہلت دینے کے اصول کا نتیجہ ہے۔ اور اس اصول کے مطابق یہ چلت پھرت متاع قلیل ہے۔ اس کے بعد انھیں دوزخ کا یقیناً سامنا کرنا ہو گا۔
اس حصے نے اس دعا کو داعیان حق کے ساتھ خاص کر دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب تہجد کا حکم ہوا تو وہ اس لیے ہوا تھا کہ کفار کے پریشان کن غوغا کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نماز کے ذریعے سے اطمینان قلب حاصل ہو اور آپ حق پر ثابت قدم رہیں اور آپ کی دعوت کا پیغام، آپ اور آپ کے سننے والوں کے لیے زیادہ سے زیادہ محکم ہو۔ چنانچہ دعا کا یہ حصہ آپ کی اسی داعیانہ پریشانیوں میں حوصلہ افزائی اور تسلی کا باعث تھا، چونکہ یہ آیات تہجد کے مقصد سے مطابقت رکھتی تھیں، اس لیے آپ نے ان کو اپنی اس وقت کی دعا کا حصہ بنا لیا تھا۔
اس کے بعد آپ کی مزید تسلی کے لیے اہل کتاب کے اصحاب خشیت کے بارے میں بتایا کہ یہ دنیا کی خاطر آیات الٰہی کا سودا نہیں کریں گے، اس لیے یہ ایمان لائیں گے۔ اس میں داعیان حق کے لیے یہ تسلی ہے کہ ایمان لانے کے لیے جس جوہر خاص کی ضرورت ہے وہ اللہ کی خشیت ہے۔ اس لیے جن کے دل میں یہ متاع بے بہا موجود ہے وہ ضرور ایمان لے آئیں گے، اس لیے تم ہٹ دھرموں کی ہٹ دھرمی سے بے نیاز ہو کر دعوت حق دیتے رہو۔ ان اہل خشیت کا اجر اللہ کے پاس محفوظ ہے۔
آخر میں امت مسلمہ کے لیے تعلیم ہے کہ اس دنیا میں امت کی سطح پر کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ تم اپنے اندر صبر و استقامت پیدا کرو۔ اور اجتماعی اور انفرادی معاملات میں اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ فلاح پاؤ۔
تہجد کے وقت جو داعیان حق کے لیے تسلی و تازگی ایمان کی نماز ہے، اس سے پہلے ان آیات کو پڑھنے سے مقصود ایک تو یہی تسلی ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا۔ اور دوسرے کچھ تعلیمات کی یاددہانی ہے جن میں نمایاں ترین چیز یہ ہے کہ ایمان اہل بینش کے غوروخوض کا حاصل ہے نہ کہ معجزوں اور کرامتوں کا نتیجہ۔
دوسری تعلیم یہ ہے کہ ایمان کے بعد جس چیز کا شعور سب سے پہلے آتا ہے، وہ گناہ اور اس کی معافی کا شعور ہے۔ اس لیے ایمان زبان پر یہ دعاے مغفرت جاری کرنے کا باعث بنتا ہے۔
تیسرے یہ کہ کفار کی خوش حالیاں اہل ایمان کے لیے پریشانیوں کا باعث نہ ہوں۔ یہ اللہ کا قانون امہال ہے۔
چوتھے یہ کہ امت کی کامیابی صبر، مصابرت اور تقویٰ کی صفات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
[۱۹۹۸ء[
___________________