عن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ، قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ثلاثۃ لا یکلمھم اللّٰہ یوم القیامۃ ولا ینظر الیھم ولا یزکیھم ولھم عذاب عظیم: الدیوث، والعاق بوالدیہ، ومدمن الخمر.(احمد بن حنبل)
عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین لوگ ایسے ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن،نہ کلام کریں گے، اور نہ ان پر نظرکرم فرمائیں گے، اور نہ ان کو پاک کریں گے ۔ اور ان کے لیے عذابِ عظیم ہے: (ایک) اپنی بیوی سے بدکاری کرانے والا ۔ (دوسرا) والدین کا گستاخ و سرکش اور (تیسرا) شراب کا خم (بلا نوش شرابی)۔
توضیح کے لیے ملاحظہ فرمایے،’’اشراق‘‘نومبر ۱۹۹۳۔
اللہ نے ہمیں ایک دوسرے پر نگران بنایا ہے۔والد اولاد کا، شوہر بیوی کا، آقا غلام کا، افسر ماتحت کا، بھائی بھائی کا، دوست دوست کا اور ہم سایہ ہم سایے کا نگران ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مومن، مومن کا آئینہ ہے (ابوداؤد، کتاب الادب)۔ اس نگرانی کا مقصد یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے مسلمان بھائی میں کوئی برائی دیکھے تو اس کی اصلاح کے لیے اچھے اسلوب میں اسے تلقین کرے۔ اس نگرانی کی ذمہ داری سرپرستوں،یعنی باپ پر بیٹوں، میاں پر بیوی اور افسر پر ماتحتوں کے حوالے سے اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس صورت میں،ان پر لازم ہے کہ و ہ تلقین ہی پر اکتفا نہ کریں،بلکہ انھیں اس برائی سے روک دیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ان کی پرسش ہو گی،جیسا کہ آپ کے فرمان ’کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ‘ میں بھی بیان ہوا ہے کہ تم سب (اپنے لوگوں کے) نگران ہو، اورتم سے، ان کے بارے میں پوچھا جائے گا، لیکن یہ سر پرست،اگر روکنے کے بجائے، برائی کرانے والے بن جائیں تو یہ ایک نہایت ہی سنگین جرم ہے ۔مثال کے طورپر،غلام عورتوں سے بدکاری کرانے والے آقاؤں کو قرآن کی وعید ہے:
وَلَا تُکْرِہُوْا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَآءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَمَنْ یُّکْرِہْہُّنَّ فَإِنَّ اللّٰہَ مِنْ بَعْدِ إِکْرَاہِہِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.(النور ۲۴: ۳۳)
’’اور اپنی لونڈیوں کو متاعِ دنیا کے لیے، پیشے پر مجبور نہ کرو، جبکہ وہ عفت کی زندگی کی خواہاں ہیں،اور جوان کو مجبور کرے گا، تو اس اکراہ کے بعد،اللہ ان کے لیے تو غفور و رحیم ہے،( البتہ،یہ لوگ اپنا انجام سوچ رکھیں، جو ان کی عفت کے ساتھ یہ گھناؤنا کھیل کھیل رہے ہیں)۔‘‘
یہی حکم اس شوہر کے لیے ہے، جو اپنی بیوی سے بدکاری کرائے،بلکہ اس سے بھی سخت،کیونکہ بیوی کے ساتھ آدمی کی غیرت بھی وابستہ ہوتی ہے۔
قرآن مجید کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن والدین کی نافرمانی اور گستاخی کو شرک کے بعد سب سے بڑا جرم قرار دیتا ہے۔ اسی لیے قرآن مجید نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا جہاں جہاں حکم دیا ہے، کم و بیش، ہر جگہ، شرک کی ممانعت کے، فوراً بعد دیا ہے۔ مثلاً سورۂ بقرہ میں ہے:
لاَ تَعْبُدُوْنَ إِلاَّ اللّٰہَ وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَانًا.(۲: ۸۳)
’’اللہ کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو، اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘‘
اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی پیدایش اور پرورش میں انسان کے والدین کا بھی حصہ ہے اور والدین کے سوا یہ مرتبہ کسی کو حاصل نہیں ہے۔چنانچہ، اگر انسان ان کا ناشکرا ہو سکتا ہے، جن کو صبح شام اپنی پرورش میں مصائب و تکالیف اٹھاتے دیکھتا ہے، تو وہ اس خدا کا شکر گزار کیوں کر رہ سکتا ہے، جو پردۂ اسباب کی اوٹ سے کرم فرما ہوتا ہے،جس نے انسان کو اس وقت والدہ کی گود فراہم کی،جب وہ ایک گھونٹ دودھ طلب کرنے کی بھی صلاحیت نہ رکھتا تھا۔
سورۂ لقمان میں اسے بڑی تفصیل سے واضح کیا گیا ہے:
وَوَصَّیْْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْْہِ حَمَلَتْہُ أُمُّہٗوَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ وَفِصَالُہٗفِیْ عَامَیْْنِ أَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْْکَ إِلَیَّ الْمَصِیْرُ. وَإِنْ جَاہَدَاکَ عَلآی أَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہٖعِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا. (۳۱: ۱۴۔۱۵)
’’اور ہم نے انسان کو والدین کے معاملے میں ہدایت کی۔ اس کی ماں نے دکھ پر دکھ جھیل کر اس کو پیٹ میں رکھا، اور دو سال میں اس کا دودھ چھڑانا ہوا، اور ہدایت یہ کی کہ میرا شکر گزاربن اور اپنے والدین کا بھی۔ میری ہی طرف، بالآخر، لوٹنا ہے۔اور اگر وہ دباؤ ڈالیں کہ کسی چیز کو میرا شریک ٹھہرا، جس کے باب میں تیرے پاس کوئی دلیل نہیں، تو ان کی بات مت مان۔ (مگر ان کے اس حکم کے باوجود) دنیا میں ان کے ساتھ نیک سلوک رکھ۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے حق کے، معاً،بعد والدین کے حق کا یہ ذکر اس بات کی دلیل ہے کہ خدا کے بعد،سب سے بڑا حق انسان پر،اگر کوئی ہے تو ماں باپ ہی کا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ ان سے سرکشی اللہ سے سرکشی کے بعد سب سے بڑا جرم ہے۔چنانچہ جس طرح اللہ کا سرکش جہنمی ہے،ویسے ہی والدین کا سرکش بھی جہنمی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے، جیسا کہ اس آیت سے واضح ہے،ہر صورت میں،ان سے حسن سلوک اور ان کی فرماں برداری کا حکم دیا ہے،یہاں تک کہ شرک جیسے سنگین جرم کے لیے کہنے کے باوجود ان سے نیک سلوک کا حکم دیا ہے۔
حدیث میں’ مدمن الخمر‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اس طرح کا اسلوب عربیت کے قاعدے کے مطابق،اس فعل کے مبالغے اور عادت پر دلالت کے لیے اختیار کر لیا جاتا ہے۔ چنانچہ، یہاں بھی،اس سے مراد، اس شخص کا عادی شرابی اور بلا نوش ہونا ہے۔ قرآن مجید میں بھی اس اسلوب کی مثالیں ملتی ہیں،سورۂ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کا ایک جملہ نقل کیا ہے،جس میں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر کسی کے لیے ہمہ تن گوش ہونے اور پوری توجہ اور التفات سے بات سننے کی عادت حسنہ کی ہجوکی کہ ’ہُوَ أُذُنٌ‘ ’’وہ تو بس کان ہی ہیں‘‘ (۹: ۶۱) یعنی ہر ایک کی بات سننے اور باور کر لینے والے۔ بعینہٖیہی اسلوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں اختیار کیا ہے۔
شراب کے بارے میں قرآن مجید کا فرمان ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن. إِنَّمَایُرِیْدُ الشَّیْْطٰنُ أَنْ یُّوْقِعَ بَیْْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ فَہَلْ أَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ. (المائدہ ۵: ۹۰۔۹۱)
’’ اے ایمان والو، شراب، جوا، تھان، اور پانسے کے تیر، بالکل ، نجس شیطانی کاموں میں سے ہیں۔ تو ان سے بچو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔ شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ تمھیں شراب اور جوئے میں لگا کر تمھارے درمیان دشمنی اور کینہ ڈالے، اور تمھیں اللہ کی یاد اور نماز سے روکے، تو بتاؤ، کیا اب بھی تم ان چیزوں سے باز نہیں آؤ گے؟‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے،غالباً،اسی آیت کی توضیح میں،شراب کے بارے میں یہ سخت وعید سنائی ہے۔اس آیہ مبارکہ میں شراب نوشی کو شیطانی اعمال میں سے قرار دیا گیا ہے،اور یہ فرمایا ہے کہ شیطان تمھیں اس میں لگا کر اپنی مقصد براری کرتا ہے،اور روز ازل سے جو دشمنی اس کے اور بنی آدم کے درمیان چلی آ رہی ہے،اس کی بناپر،ابن آدم کو گمراہ کرنا چاہتا ہے۔
دوسری بات یہ فرمائی ہے کہ شراب کے ذریعے سے شیطان،انسان کو ذکر الٰہی سے روکتا ہے،جبکہ اسلام نے زندگی کی تمام رفعت وعظمت ذکر الٰہی سے وابستہ کی ہے۔جو شخص خدا سے غافل ہوا،وہ خود اپنی قدر و قیمت کو فراموش کر بیٹھا۔ ’نَسُوا اللّٰہَ فَأَنْسَاہُمْ أَنْفُسَہُمْ‘ (الحشر ۵۹: ۱۹) میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ کی یاد انسان کو حقیقی دنیا میں رکھتی ہے۔ جس کی وجہ سے، انسان کبھی بے راہ نہیں ہوتا۔ اگر کبھی کوئی لغزش ہوتی ہے تو خدا کی یاد اسے سنبھال لیتی ہے۔ اس کے بالکل برعکس، شراب انسان کو، اس حقیقی زندگی سے کاٹ کر،خیالی دنیا میں لے جاتی ہے، اور وہ اس خیالی دنیا کاایسا رسیا ہو جاتا ہے کہ پھر حقیقی دنیا اس کے لیے تلخ ہو جاتی ہے۔ چنانچہ،وہ اسی دل فریب دنیا کا ہو کر رہ جاتااور اسی میں بدمست رہتا ہے۔ اور حقیقت کاسامنا کرنے کو تیار نہیں ہوتا، اور اسی حال میں، اس کی زندگی ختم ہو جاتی ہے۔
اس کی بدبختی پر غور کیجیے کہ وہ زندگی بھر خواب دیکھتا رہا،اورکبھی جاگنے اور زندگی کے بھیانک انجام پر غور کرنے کی اس نے زحمت گوارا نہ کی،اور نہ آخرت کی تیاری کے بارے میں اس نے کبھی سوچا تو کیا خدا سے اس قدر غفلت اس سزا کا باعث نہیں بننی چاہیے کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے؟
دوسری وجہ یہ ہے کہ انسان کا اصل امتیاز،اس کی عقل اور شعور ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی ہدایت کا مخاطب،اسی عقل و شعور ہی کی وجہ سے بنایا ہے،او ریہی چیز ہے جو اسے آزمایش کے قابل بناتی ہے،جبکہ شراب اس شعور کے لیے زہرقاتل ہے۔جب یہ امتیازی وصف ہی نہ رہے تو پھر انسان و حیوان میں کوئی فرق نہیں ہے،بلکہ انسان جانوروں سے بھی زیادہ برا ہے:
إِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لاَ یَعْقِلُوْنَ.(الانفال ۸: ۲۲)
’’اللہ کے نزدیک بدترین جانور یہ گونگے بہرے لوگ ہیں،جو عقل و شعور سے کام نہیں لیتے۔‘‘
شراب،انسان کو ایسا ہی اندھا بہرا بنا دیتی ہے کہ وہ’شر الدواب‘بن کے رہ جاتا ہے۔ چنانچہ،جو جنت انسانوں کے لیے بنائی گئی ہے،اس میں جانوروں کا داخلہ چہ معنی دارد؟
[۱۹۹۳ء]
___________________