HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Sajid Hameed

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

نیا چاند دیکھنے کی دعا

 

اَللّٰہُ اَکْبَرُ. اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ. لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إلَّا باللّٰہِ. اَللّٰھُمَّ إنِّیْ أَسْاَلُکَ خَیْرَ ہَذَا الشَّھْرِ وَ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ الْقَدَرِ وَمِنْ سُوْءِ الْحَشْرِ.

اللہ بہت بڑا ہے۔ (اس چاند سے جسے بعض لوگ نحوست و برکت کا باعث سمجھتے ہیں، اس لیے) شکر کا حق دار بھی اللہ ہے۔ ساری قوت و قدرت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اے اللہ، میں اس (نئے چڑھنے والے) مہینے میں تجھ سے خیر کا طالب ہوں۔ اور بری تقدیر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اور اس سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں کہ قیامت کے دن میں برے طریقے سے تیرے حضور جمع کیا جاؤں۔

 

دعا کی وضاحت

 

اس دعا میں الفاظ تو مشکل نہیں ہیں، البتہ یہ بات وضاحت کی متقاضی ہے کہ ان کا چاند دیکھنے کے ساتھ منطقی ربط کیا ہے۔ ’اللّٰہ اکبر‘ سے اس دعا کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب چاند ستاروں کی گردش سے نیک و بد شگون لیتے تھے۔ چاند چونکہ مہینوں کی گنتی اور مواقیت کا ذریعہ ہے اور تقدیر اسی وقت کے پردوں میں لپٹی ہوئی آتی ہے۔ اس لیے چاند سے اس طرح کی آفتوں اور بد نصیبیوں کی نسبت کر دی جاتی تھی۔ بعض دنوں اور مہینوں کو منحوس قرار دے دیا جاتا۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کو دیکھتے ہی اللہ کی بڑائی بیان کی ہے تاکہ چاند کے بارے میں اس غلط تصور کی تغلیط کر کے دعا مانگی جائے۔ یعنی دنیا میں رنج و محن اور خیر و برکت کے اوقات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں، ان میں چاند کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

اللّٰہ اکبر‘ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’الحمد لِلّٰہ‘ کے الفاظ سے اللہ کا شکر ادا کیا ہے۔ شکر اگرچہ تنزیہ کا مفہوم اپنے اندر نہیں رکھتا، مگر جب وہ ایسے موقع پر آئے، جیسا کہ یہاں ہے تو اس سے مراد تنزیہ بھی ہو جاتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ چونکہ چاند کا خیرو شر کے لانے میں کوئی حصہ نہیں ہے، اس لیے شکر بھی اس کا روا نہیں ہے۔ وہ بھی اللہ ہی کا ہونا چاہیے، اس لیے کہ وہی شکر کا سزا وار ہے۔ ہمارا خیر اور ہمارا شر سب اسی کے ہاتھ میں ہے۔

اس کے بعد آپ نے اسی بات کو مزید واضح کیا ہے کہ یہ چاند ستارے کچھ اختیار و قوت نہیں رکھتے۔ ساری قوت و قدرت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس چاند کے طلوع سے جو مہینا شروع ہو گا اس میں ہمارے ساتھ اچھا برا جو کچھ ہو گا، وہ رب العزت کی قدرت و قوت سے ہو گا۔ ’لا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ‘ سے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مہینے میں پیش آمدہ خطرات سے پناہ مانگی ہے کہ ’اَللّٰھُمَّ إنِّیْ أَسْاَلُکَ خَیْرَ ہَذَا الشَّھْرِ وَ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ الْقَدَرِ وَمِنْ سُوْءِ الْحَشْرِ‘ (اے اللہ، میں اس (نئے چڑھنے والے) مہینے میں تجھ سے خیر کا طالب ہوں۔ اور بری تقدیر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اور اس سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں کہ قیامت کے دن میں برے طریقے سے تیرے حضور میں جمع کیا جاؤں۔(

[۱۹۹۸ء[

___________________

B