(۱)
ذَہَبَ الظَّمَاُ وَابْتَلَّتِ العُرُوْقُ وَ ثَبَتَ الْاََجْرُ إنْ شَاءَ اللّٰہُ.
پیاس جاتی رہی، رگیں تر ہو گئیں اور ان شاء اللہ اجر لکھا گیا۔
یہ افطار کے موقع کی دعا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اللہ کی نعمتوں پر شکر کرنے کا ایک خاص اسلوب اختیار کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شکر کے الفاظ استعمال کرنے کے بجائے اپنی کیفیت بیان کر کے شکر کا اظہار کیا ہے۔ افطار کے وقت جب آدمی پانی پیتا ہے اور وہ اس کی رگوں کو تر کرتا ہے تو اس وقت آدمی کو ایک فرحت اور تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ آدمی اس احساس اور اس خوشی کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ ہم افطار کی اس کیفیت کا اظہار بالعموم اپنے بہن بھائیوں کے سامنے کرتے ہیں جو اس وقت ہمارے پاس ہوتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اظہار اللہ سے کیا ہے، جس سے اس میں شکر کے معنی پیدا ہو گئے ہیں۔ ہماری مراد یہ ہے کہ جب ہم کسی کی طرف سے تحفہ ملنے پر یہ کہیں کہ اس نے تو میری فلاں فلاں ضرورت کو پورا کر دیا، اور میرے فلاں فلاں کام ہو گئے ہیں تو یہ اصل میں شکریہ ادا کرنے کا نہایت اعلیٰ طریقہ ہے۔
اپنی یہ کیفیت بیان کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ’’اس کا ثواب لکھا گیا‘‘ کے الفاظ نکلے ہیں۔ ان الفاظ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ثواب لکھے جانے کی بات کہہ کر درحقیقت روزہ کا ثواب طلب کیا ہے۔ اس طرح ان الفاظ سے وہ نیت بھی بیان ہو گئی ہے جس کے لیے روزہ رکھا گیا تھا۔ جب نیت صالح ہو تو اللہ کی مشیئت سے ثواب کا لکھا جانا یقینی ہے۔
(۲)
اَللّٰہُمَّ لَکَ صُمْتُ وَ عَلَی رِزْقِکَ أفْطَرْتُ.
اے اللہ، میں نے تیرے لیے (یہ) روزہ رکھا اور (اب) تیرے ہی رزق سے کھولا ہے۔
یہ دعا بھی پہلی دعا کا مضمون لیے ہوئے ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ اس میں اسلوب بیانیہ ہے۔ یعنی اس میں اپنی کیفیت بیان کر کے شکر ادا کیا تھا، جبکہ اس میں سادہ الفاظ میں یہ بات کہہ دی ہے کہ میں نے تیرے رزق پر روزہ کھولا۔ یہ نعمتوں کو پا کر ان کا اقرار ہے۔
اس دعا میں شکر اور نیت بیان کرنے میں پہلی دعا کے الٹ ترتیب اختیار کی گئی ہے۔ چنانچہ پہلے نیت بیان کی گئی ہے ’میں نے تیرے لیے روزہ رکھا‘ اور بعد میں یہ کہہ کر ’میں نے تیرے دیے ہوئے رزق سے روزہ کھولا‘ اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کیا گیا ہے۔
اس تبدیلی کی وجہ سے یہ دعا ہر طرح کے موسم کے روزوں کے لیے موزوں ہو گئی ہے۔ جبکہ پہلی دعا صرف ان روزوں میں مانگی جا سکتی ہے، جن میں آدمی کو پیاس کی شدت سے سابقہ پیش آتا ہے۔
(۳)
اَفْطَرَ عِنْدَکُمْ الصَّاَءِمُوْنَ وَ أَکَلَ طَعَامَکُمُ الأَبْرَارُ وَتَنَزَّلَتْ عَلَیْکُمْ الْمَلاَءِکَۃُ.
تمھارے پاس روزہ داروں نے روزہ کھولا، تمھارا کھانا خدا کے وفاداروں نے کھایا، سو تمھارے اوپر اللہ کے فرشتے (سکینت اور رحمت لے کر) اترے۔
اس دعا کا مضمون یہ بتا رہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا اپنے گھر یا کسی کے گھر اس موقع پر پڑھتے، جب افطار کی کسی دعوت میں شرکت فرماتے۔ اس میں میزبان کے لیے برکت اور رحمت کی دعاہے۔
اس دعا کے پہلے حصے میں جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کے نیک بندوں اور روزہ داروں نے تمھارے گھر روزہ افطارکیا اورکھانا کھایا، اس مبارک عمل کے پسندیدہ اورباعث برکت ہونے کی طرف اشارہ ہے یعنی تم نے اللہ کے بندوں کا روزہ کھلوا کر اپنے لیے برکتوں کے نزول کا موقع فراہم کیا ہے۔
دوسرے حصہ میں آپ نے اس برکت کو بیان کیا ہے جو ایسی مجالس میں فرشتوں کے نزول کی صورت میں اترتی ہے۔ قرآن مجید اور احادیث کے اشارات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے اللہ کی رحمت (مدد و عنایت) اور سکینت لے کر اترتے ہیں۔
رحمت سے مراد تو میزبان کے رزق میں اضافہ اور برکت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عام طریقہ یہ تھا کہ جب کسی کے گھر کھانے کی دعوت پر تشریف لے جاتے تو میزبان کے لیے دعا کرتے کہ اے اللہ، اس نے ہمیں کھلایا ہے تو اسے کھلا۔ اس نے ہمیں پلایا ہے تو اس کو پلا۔
سکینت سے مراد دعوت کے موقع پر میزبان کے دل کو اطمینان کی نعمت سے نوازنا ہے۔ یہ نعمت بالعموم نیکی کرنے پر حاصل ہوتی اور نیکی کرنے کے دوران میں مشکلات کے وقت ثابت قدمی کا باعث ہوتی ہے۔ چنانچہ اس دعا کے دوسرے حصے میں آپ نے میزبان کے لیے اس رحمت و سکینت کے اترنے کی بشارت دی ہے۔ جو روزہ کھلوانے والے کو حاصل ہوگی۔
[۱۹۹۸ء[
___________________