HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Sajid Hameed

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

بے خوابی کی دعا

 

اَللّٰھمَّ رَبَّ السَّمٰوَاتِ السَّبْعِ وَمَا اَظَلَّتْ وَ رَبَّ الْاَرْضِیْنِ وَماَ اَقَلَّتْ. وَرَبَّ الشَّیَاطِیْنِ وَمَا اَضَلَّتْ. کُنْ لِیْ جَارًا مِنْ شَرِّ خَلْقِکَ کُلِّہِمْ جَمِیْعًا اَنْ یَفْرُطَ عَلَیَّ اَحَدٌ مِّنْھُمْ اَوْ اَنْ یَطْغٰی عَلَیَّ. عَزَّ جَارُکَ وَجَلَّ ثَنَاؤکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ.

اے اللہ، اے سات آسمانوں اور جو کچھ ان کے سایے میں ہے، ان کے رب۔ اور اے زمینوں اور جو کچھ یہ زمینیں اٹھائے ہوئے ہیں، ان کے رب، اور شیطانوں اور جنھیں انھوں نے گمراہ کیا ہے، ان کے رب، اپنی ساری مخلوقات کے شر سے میرا پناہ دینے والا بن جا کہ مبادا ان میں سے کوئی میرے ساتھ تعدی کرے یا اپنی سرکشی سے مجھ پر غلبہ پا لے۔ جسے تو نے پناہ دی وہ (ان شیطانوں کے لیے) قابو سے باہر ہو گیا۔ اور تیری صفات بہت بلند ہیں۔ تیرے سوا کوئی پناہ دہندہ نہیں اور الٰہ بس تو ہی ہے۔

 

دعا کی وضاحت

 

اگر آدمی کو نیند نہ آ رہی ہو یا کسی وجہ سے آنکھ کھلنے کے بعد اس کی نیند اچٹ جائے تو ایسے موقع کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا سکھائی ہے۔

اسدعا میں آسمانوں، زمینوں اور ان میں موجود تمام مخلوقات اور شیاطین اور ان کے گمراہ کردہ لوگوں کے رب سے حمایت اور پناہ طلب کی گئی ہے۔ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو باتوں سے پناہ مانگی ہے:

ایک اس بات سے کہ میرے ساتھ تعدی کی جائے۔ اس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’یفرط علیّ‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ ’فرط‘ کے ساتھ جب ’علی‘ کا صلہ آئے تو اس کے معنی کسی کے خلاف تیزی سے کیے گئے اقدام کے ہوتے ہیں، جس میں دوسرے کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ شیاطین تو اولاد آدم کی راہ کھوٹی کرنے کے لیے گھات لگائے ہوئے ہیں۔ رات کی اس تنہائی میں مجھے تنہا اور غافل پاکر مجھ پر حملہ آور نہ ہوں۔

اور دوسری چیز جس سے آپ نے پناہ مانگی ہے وہ ’یطغی علی‘ کے الفاظ سے مانگی ہے۔ ’یطغی علی‘ کے معنی کسی پرجوش و طغیان سے مسلط ہونے کے ہیں۔ یہ الفاظ شیاطین کے مقابلے میں شیاطین انس کے طریقۂ واردات سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں۔ یعنی دوسروں پر جنگ مسلط کرنا، مذہبی جبر کرنا اور اقتدار و حکومت پا کر انسانوں کو غلام بنا لینا اور انھیں ڈرا کر اپنی مقصد برآریوں کے لیے استعمال کرنا، مذہبی پیشوائی کے روپ میں انھیں اوہام میں مبتلا کر کے پھانس لینا وغیرہ۔ یہ تمام حربے اسی ’یطغی علی‘ میں آئیں گے۔ یہ ظاہر ہے، ان لوگوں کا شیوہ ہے جنھیں شیاطین گمراہ کر کے اپنے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جن کا اوپر دعا میں ذکر بھی ہوا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھی دونوں سے پناہ مانگنے کے لیے یہ دعا کی ہے کہ اپنی ساری مخلوقات کے شر سے میرا پناہ دینے والا بن جا۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’عز جارک وجل ثناؤک‘ کے الفاظ سکھائے ہیں۔ یہ ایک طرف تو اس دعا کرنے والے کے لیے اطمینان اور تسلی کے الفاظ ہیں کہ دعا کرنے والے کو اطمینان حاصل ہو کہ وہ جس ہستی سے پناہ لے رہا ہے وہ ایسی ہے کہ جس کو وہ پناہ دے، شیاطین کے لیے اسے کوئی نقصان پہنچانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ان کے لیے اسے قابو کرنا یا چکما دینا دشوار ہو جاتا ہے تو دوسری طرف یہ ذات باری کی صفات کا واسطہ دے کر اس پر اعتماد اور توکل کا اظہار ہے جس کا مقصد ذات باری کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہے۔

آگے اس کی دلیل دی ہے کہ ایسا اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات بہت بلند ہیں۔ کوئی اپنی صفات میں اللہ کی صفات کو نہیں پہنچ سکتا۔ چنانچہ جب کوئی اس کی صفات کا حامل نہیں ہو سکتا تو اس کا مقابلہ کیسے کرسکتا ہے۔ صفات درحقیقت کسی ذات کی خوبیوں ہی کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ کسی ذات کی صلاحیتوں کو بھی بیان کرتی ہیں۔ اس لیے صفات کی بلندی اصل میں صلاحیتوں کی بلندی ہے۔ مراد یہ ہے کہ کوئی اس جیسا ہو گا تو تبھی ایسا ممکن ہے کہ اس کی پناہ کا حصار توڑ کر مجھے کوئی گزند پہنچا سکے گا۔

ولا الٰہ غیرک ولا الٰہ الا انت‘۔ یہاں ’الٰہ‘ کے معنی ماوراے اسباب کار ساز اور پناہ دہندہ کے ہیں۔ ایک ہی بات دو اسالیب میں دہرائی گئی ہے۔ اس سے بات میں تاکید بھی پیدا ہو گئی ہے اور تکرار کی وجہ سے منت سماجت یا اپیل کا مفہوم بھی پیدا ہو گیا ہے۔ اس سے دعا کی اثر پذیری میں اضافہ ہوا ہے۔

[۱۹۹۸ء[

___________________

B