لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبحَانَکَ، اَللّٰھُمَّ اَسْتَغْفِرُکَ لِذَنبِیْ، وَاَسْاَلُکَ رَحْمَتَکَ. اَللّٰھُمَّ زِدْنِیْ عِلْمًا، وَلَا تُزِغْ قَلْبِیْ بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنِیْ وَھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ.(ابوداؤد،کتاب الأدب(
تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں، تیری ذات پاک و بے عیب ہے، اے اللہ، میں تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتا ہوں۔ تیری رحمت کا طلب گار ہوں۔
اے اللہ، میرے علم میں اضافہ فرما، ہدایت دینے کے بعد میرے دل میں کجی پیدا نہ کر اور خاص اپنی طرف سے مجھ پر رحمت فرما۔ بے شک، تو بہت دینے والا ہے۔
یہ دعا رات کو اٹھنے کے بعد تاریکی کے ماحول میں کی گئی ہے۔ تاریکی خوف اور اندیشوں کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہوتی ہے۔ یہ اندیشے شیطان کے نرغے میں آنے کے بھی ہو سکتے ہیں اور مشکلات و حادثات کے بھی۔
اسی طرح تاریکی جہالت اور ضلالت کی بھی تعبیر ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ.(البقرہ ۲: ۲۵۷)
’’وہ انھیں (ضلالت کی ) تاریکیوں سے نکال کر (ہدایت کی) روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔‘‘
معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں تاریکی کے انھی دونوں پہلووں کی رعایت ملحوظ ہے۔ دعا کا پہلا حصہ جو ’اسالک رحمتک‘ پر ختم ہوتا ہے، اس میں الٰہ واحد سے رحمت اور اپنے گناہوں پر مغفرت طلب کی گئی ہے۔ گناہوں پر مغفرت اس لیے طلب کی ہے کہ یہ اس موقع پر کسی گناہ میں پڑ جانے سے بچانے کی ڈھال بن جائے اور بندہ شیطان کے نرغے میں آنے سے بچ جائے۔
’لا الٰہ الا انت سبحانک‘ کا جملہ اس مفہوم کا حامل ہے کہ اے اللہ، تو ہی الٰہ اور ملجا و ماویٰ ہے جو تاریکی میں ہو سکنے والے حادثات میں ہماری پشت پناہی کرے۔ ’سبحانک‘ سے مراد یہ ہے کہ ظلمت و نور تو نے ہی بنائے ہیں۔ ان کے بنانے میں کوئی خطا اور کوئی خامی نہیں ہے۔ ان میں پیش آنے والے حادثات ہمارے ہی گناہوں کا نتیجہ ہیں، اس لیے اس کے بعد بندہ اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتا اور نزول رحمت کی دعا مانگتا ہے۔
دعا کا دوسرا حصہ تاریکی کے دوسرے پہلو، جہالت و ضلالت سے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ اے میرے اللہ، مجھے علم ہدایت کی روشنی عنایت فرما۔ اور علم میں اتنا اضافہ فرما کہ میں زندگی کے تاریک مقامات پر بھی حق سے دور نہ رہوں اور میرے دل میں کجی پیدا نہ ہو۔ یہ واقعہ ہے کہ زندگی کی مشکلات میں اگر خدا کی سنن کا صحیح علم نہ ہو تو آدمی اوہام میں مبتلا ہو کر شرک اور لادینیت کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے موقعوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے جہاں اس کی سنن و صفات کے علم حقیقی میں اضافے کی دعا کی ہے، وہیں رحمت کی دعا بھی کی ہے۔ رحمت کی دعا کرنے میں آپ نے ’من لدنک‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں جن کا موقع استعمال بالعموم یہ ہوتا ہے کہ جب خدا کی رحمت کے نزول کا سبب بھی کوئی موجود نہ ہواور نہ ہماری ذات ہی اس کے نزول کی مستحق ہو۔ اس موقع پر ’من لدنک‘ استعمال کرنے سے مقصود یہ ہے کہ جب تیرا دیا ہوا علم ہم استعمال نہ کر سکیں اور اس وجہ سے گمراہی میں پڑنے کا پورا امکان ہو تو خاص اپنی طرف سے ہمارے اوپر اپنی رحمت نازل فرما کر ہمیں گمراہی سے بچا لینا۔
آخر میں اللہ تعالیٰ کی صفت ’وھاب‘ کا واسطہ دے کر اپنی دعا کی تاثیر کو بڑھایا ہے۔
[۱۹۹۸ء[
___________________