(۱)
اَلْحَمّدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَحْیَانَا بَعْدَ مَآ اَمَاتَنَا وَ اِلَیّہِ اَلنُّشُوْرُ.
اللہ کا شکر کہ جس نے ہمیں مردہ کر دینے کے بعد زندگی عطا کی۔ اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
سوتے وقت کے اذکار میں ہم یہ دعا سیکھ چکے ہیں کہ ’اللّٰھم باسمک اموت واحیا...‘ ۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس رات کو یہ دعا پڑھ کر سوتے اسی صبح زیربحث دعا پڑھتے تھے۔ --- اس کی شرح میں ہم یہ جان چکے ہیں کہ نیند اس دنیا میں موت کی اور صبح کے وقت اٹھنا صبح نشور کی تمثیل ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعائیں سکھا کر ان دونوں مواقع کو ان دو آنے والے وقتوں کے لیے یاددہانی کا ذریعہ بنایا ہے۔
دعا کا آغاز رات بھر نیند کی آغوش میں موت سے ہم کنار رہنے کے بعد صبح زندگی عطا ہونے پر شکر سے کیا گیا ہے۔ نعمتوں کے عطا ہونے پر شکر گزاری حقیقی عبادت ہے۔ صبح بیداری کے وقت زندگی ملنے پر یہ شکر گزاری ایک طرف اللہ کی عبادت ہے اور دوسری طرف زندگی کی گراں قدرنعمت کی قیمت کے احساس کا اظہار ہے اور اس بات کی تعلیم ہے کہ اس نعمت کے دیے جانے کا مقصد اور غایت کیا ہے۔
’والیہ النشور‘ سے اس کے اسی مقصد کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جس طرح آج زندگی کی نعمت ملنے پر اس دنیا کی صبح میں آنکھ کھلی ہے، اسی طرح کل زندگی سے محرومی کے بعد صبح نشور میں آنکھ کھلے گی۔ یہ اس اصل منزل کی یاد ہے جسے پانے کی جدوجہد کے لیے انسان کو یہاں بھیجا گیا ہے۔
آدمی صبح اٹھ کر جس طرح شام تک کے پروگرام بناتا ہے اور ان پروگراموں میں اپنے دنیوی کاموں کا لائحۂ عمل ترتیب دیتا ہے کہ آج میں نے یہ کچھ کرنا ہے اور یہاں اور وہاں جانا ہے، اسی طرح اس یاددہانی کا مقصد یہ ہے کہ آدمی دنیا کی ان سرگرمیوں میں الجھ کر اس اصل غایت کو بھول جانے کے بجائے اسے بھی اپنے پروگراموں کا حصہ بنائے اور یہ طے کر لے کہ اگلی دنیا میں اپنا گھر بنانے کے لیے آج کے دن کیا کچھ کرنا ہے۔
اگر ہم اس دعا سے یہ فائدہ اٹھائیں تو یقیناً اس کی برکات سے نہ صرف یہ کہ اس فانی دنیا میں مستفید ہوں گے، بلکہ صبح نشور کو جب اعمال نامے دیے جائیں گے تو اس دعا کے ثمرات میں سے ایک ثمرہ یہ بھی ہو گا کہ اللہ کی عنایت سے ہمارا اعمال نامہ نیک اعمال سے بھرا ہو گا اور ہم اپنے رب کے پسندیدہ لوگوں میں شامل ہوں گے۔
(۲)
اَلْحَمّدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِیْ فِیْ جَسَدِیْ وَرَدَّ عَلَیَّ رُوْحِیْ، وَاَذِنَ لِیْ بِذِکْرِہٖ.
شکر ہے اللہ کا جس نے میرے جسم کی تھکن مٹا کر اسے راحت بخشی اور میری روح نیند میں روک لینے کے بجائے مجھے لوٹا دی۔ اور اپنی یاد کے لیے پھر توفیق بخشی۔
روایتوں کے مطابق یہ دعا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس صبح کو کرتے جس رات کو آپ ’باسمک اللّٰہم ربی وضعت جنبی‘ والی دعا کر کے سوتے۔ اس دعا میں روح کے روک لیے جانے پر رحمت طلب کی تھی اور روح کے لوٹائے جانے پر نگہبانی کی دعا کی تھی۔ اب اس صبح کی دعا میں روح کے لوٹائے جانے پر اللہ کا شکر ادا کیا گیا ہے اور اللہ کی نگہبانی کا پہلا ثمر جو اس دعا کی توفیق کی صورت میں حاصل ہوا ہے، اس پر بھی شکر ادا کیا گیا ہے۔
(۳)
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہٗ. لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ. وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ. اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسُبْحَانَ اللّٰہِ. وَلٓا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ. وَاللّٰہُ اَکَبْرَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ.
اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ وہی تنہا الٰہ ہے۔ اس کا کوئی ساجھی نہیں۔ ساری بادشاہی اسی کی ہے۔ ساری صفات حمیدہ اسی کی ہیں۔ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ شکر کا حقیقی سزاوار اللہ ہے اور وہ ہر عیب سے پاک ہے۔ اور اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ وہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ کی مدد کے بغیر کوئی کوشش اور کوئی قوت کارگر نہیں ہے اے اللہ، مجھے معاف کر دے۔
یہ دعا ذات الٰہی کی بعض صفات کے تعارف اور توحید کے مضمون کی حاملہے۔ پہلا حصہ ’لا الٰہ الا اللّٰہ‘ سے شروع ہو کر ’وہو علٰی کل شی قدیر‘ پرختم ہوتا ہے، اس میں ذات الٰہی کی فیض رسانی کے حوالے سے اس کا تعارف کرایا گیا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات کو الٰہ واحد اور ساری کائنات کا مالک و بادشاہ اور ہر عیب و کمزوری سے منزہ قرار دیا ہے۔ اللہ کی بادشاہت کا سب سے نمایاں پہلو قدرت کاملہ ہے، جس کی وجہ سے وہ ایسا ہر کام کر سکتا ہے، جس کا وہ ارادہ کر لے۔ چنانچہ جو ذات الٰہ واحد ہو اور اس جیسی کوئی اور ذات نہ ہو، پوری کائنات اسی کے قبضہ و اقتدار میں ہو اور وہ تمام اوصاف حمیدہ کی مالک ہو، ہر کسی کے لیے فیض رسانی کی قدرت کاملہ رکھتی ہو تو یہ ایک واضح سی بات ہے کہ ایسی ذات ہر فیض کا منبع اور ہر خیر کا سرچشمہ ہو گی۔
’ولہ الملک‘ اور ’لا شریک لہ‘ سے اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ وہ جس کو کچھ دینا چاہے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جسے وہ محروم رکھنا چاہے، اسے کوئی دے نہیں سکتا۔ کوئی نبی اور کوئی ولی، کوئی دیوتا اور کوئی دیوی ایسی نہیں جو اس کے کاموں میں شریک ہو یا حارج ہو۔ وہ لاشریک ہے اور کائنات میں بس اسی کی حکومت ہے۔
اسی طرح ’وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرِ‘ سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ایسی چیزیں بھی عطا کر سکتا ہے جو بظاہر حالات میں ناممکن معلوم ہوتی ہوں۔
’سبحان اللّٰہ‘ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ وہ بے مقصد کام کرے۔ یہ دنیا جو اس کی فیض رسانیوں سے بھری پڑی ہے۔ جس کے گوشے گوشے میں اس کی حمد و ستایش کے اسباب بکھرے ہوئے ہیں۔ وہ بے غایت و بے مقصد نہیں ہو سکتی۔ یہ دنیا ضرور کسی ایسے انجام تک پہنچے گی کہ قلوب و اذہان اسے دیکھ کر پھر تسبیح و حمد کے ترانوں سے خدا کی حمد و ستایش بیان کرنے لگیں گے۔ اس سے مراد وہ انجام ہے جو قیامت کے دن ظاہر ہو گا۔
دعا کا دوسرا حصہ دوسرے ’لا الٰہ الا اللّٰہ‘ سے شروع ہو کر ’لا حول ولا قوۃ‘ پر ختم ہوتا ہے۔ پہلے حصہ میں فیض رسانی کا پہلو پیش نظر ہے جس سے اس کائنات کے بامقصد ہونے پر استدلال کیا گیا ہے، جس کی طرف ’الحمد للّّٰہ‘ اور ’سبحان اللّٰہ‘ کے جملے اشارہ کر رہے ہیں۔ دعا کے دوسرے حصے میں خدا کی بڑائی اور کبریائی کا پہلو بیان ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کے اوپر کوئی نہیں، جس کے آگے اسے جھکنا پڑے۔ اور جس کی بات ماننی پڑے۔ وہ سب سے بڑا ہے۔ کسی کی کوئی کوشش اور کوئی تدبیر اور کسی کی کوئی قوت اور کسی کا کوئی زور اس کی تدبیروں اور اس کے ارادوں کو ناکام نہیں کر سکتا۔ یہاں ’لا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ‘ سے یہی مراد ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو یہ قوت حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کا کچھ بنا یا بگاڑ سکے۔
دعا کے ان دونوں حصوں کو جمع کر دیا جائے تو مطلب یہ ہے کہ وہ دینے والا ہے۔ اور اس کے دینے میں کسی کو مجال نہیں کہ رکاوٹ ڈال سکے۔ سورۂ ذاریات میں اللہ تعالیٰ نے اس ساری بات کو ایک جملے میں بیان کر دیا ہے: ’اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ‘ (اللہ ہی روزی رساں، زور آور، جس کی قوت محکم ہے)۔
اللہ کی صفات کا یہ سارا بیان، جیسا کہ ’سبحان اللّٰہ‘ کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے، قیامت کی عدالت کے قیام پر دلالت کرتا ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ اس دن کے انجام بد سے بچنے کے لیے اپنے گناہوں کی معافی طلب کر لی جائے۔ اس لیے آپ نے آخر میں دعا کی کہ اے اللہ، مجھے معاف فرما دے تاکہ میں قیامت کے دن تیرے عذاب سے بچ جاؤں۔
حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اوپر کی صفات الٰہی کے اقرار و شعور کے بعد مغفرت طلب کرے گا تو اس کی یہ دعاے مغفرت ضرور قبول کر لی جائے گی۔ اور اس کے بعد جو نیکی اور جو دعا بھی کرے گا، وہ بھی قبول کی جائے گی۔ اس لیے کہ یہ شعوری ایمان کی نہایت اعلیٰ سطح ہے جسے قرآن مجید نے سورۂ آل عمران کی آیت ۱۹۱میں بیان کیا ہے کہ:
وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِوَالْاَرْضِ، رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.
’’اور (یہ اہل دانش) آسمانوں اور زمین کی خلقت پر غور کرتے ہیں، (جس کے نتیجے میں ان کی دعا یہ ہوتی ہے کہ) اے ہمارے پروردگار، تو نے یہ کارخانہ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ تو اس سے پاک ہے کہ کوئی عبث کام کرے۔ سو تو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔‘‘
[۱۹۹۸ء[
___________________