(۱)
بأسمک اللّٰہم اموت و احیا.(بخاری و مسلم(
تیرے نام کی برکت سے، اے اللہ، میں رات کو موت سے ہم کنار ہوتا اور صبح دوبارہ زندگی پاتا ہوں۔
(۲)
بأسمک اللّٰہم ربی وضعت جنبی و بک ارفعہ. فان امسکت نفسی فارحمہا وان ارسلتہا فاحفظہا بما تحفظ بہ عبادک الصالحین.(بخاری، مسلم اور سنن اربعہ(
تیرے نام کی برکت سے، اے اللہ، میرے پروردگار، میں نے اپنا پہلو(بستر پر) رکھا۔ اور تیری ہی عنایت سے (صبح) اسے (بسترسے) اٹھاؤں گا۔
اگر تو نے میری روح (سوتے میں) روک لی تو میرے مالک اس پر رحم فرما کر اسے معاف کر دینا اور اگر میری روح تو نے لوٹا دی (اور مجھے زندہ رہنے دیا) تو اسی طرح سے اس کی حفاظت فرما، جیسے تو اپنے صالح بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔
اللّٰھم انت خلقت نفسی و انت تتوفہا، لک مماتہا ومحیاہا، و ان احییتہا فاحفظہا وان امتہا فاغفر لہا، اللّٰہم انی اسئلک العافیۃ.(مسلم، کتاب الذکر والتوبہ(
اے اللہ، تو نے ہی مجھے بنایا ہے اور تو ہی مجھے وفات دے گا۔ میری موت اور میری زندگی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ اگر تو مجھے زندہ رکھے تو میری حفاظت کر اور اگر موت دے تو میری مغفرت فرما۔ اے اللہ، میں تجھ سے عافیت کا طلب گار ہوں۔
ان دعاؤں کوسمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن مجید کی ایک آیت پر نگاہ ڈال لی جائے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْْہَاالْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُخْرآی إِلٰٓی أَجَلٍ مُّسَمًّی إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ.(الزمر ۳۹: ۴۲)
’’اللہ تعالیٰ ہی وفات دیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی ہوتی انھیں نیند (کی صورت میں وفات (دیتا ہے۔ چنانچہ جن کی موت کا فیصلہ کر چکا ہوتا ہے، انھیں تو وہ روک لیتا ہے اور دوسروں کو ایک وقت مقرر تک کے لیے رہائی دے دیتا ہے۔ (تو وہ نیند سے جاگ جاتے ہیں) اس میں یقیناًغور کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘
اس آیت کے مطابق جن کی اجل مقرر پوری ہو جاتی ہے، اللہ ان کی روح قبض کرلیتے ہیں۔ اور جن کی موت نہیں آئی ہوتی ان کو بھی وہ ہر روز موت اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا ایک نوعیت کا تجربہ کراتے ہیں۔ اس طرح ہر شخص کو ہر روز یہ دکھایا جا رہا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو ہمیشہ کی زندگی نہ سمجھے، بلکہ یہ حقیقت ہمیشہ پیش نظر رکھے کہ خدا نے ایک معین وقت تک کے لیے اسے یہ مہلت حیات دی ہے جو اپنے وقت مقررہ پر اس سے چھین لی جائے گی اور اسے خدا کے حضور میں پیش کر دیا جائے گا۔
اسی حقیقت کی یاددہانی کے لیے وہ الفاظ سکھا دیے ہیں کہ بندہ جب رات کو سونے لگے اور یہ دعائیں کرے تو اسے یہ حقیقت یاد آجائے کہ وہ موت کی طرف کشاں کشاں بڑھ رہا ہے۔ جس طرح وہ صبح اٹھا تھا اور اب پھر سونے کا وقت آگیا ہے، ٹھیک اسی طرح ایک دن اس نیند کا وقت بھی آجائے گا جس کے بعد آنکھ میدان حشر ہی میں کھلے گی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعائیں رات کو سوتے وقت پڑھنے کے لیے اسی لیے سکھائی ہیں کہ آدمی رات کو سوتے وقت موت کو یاد کرے، جیسے ہی آدمی کو موت یاد آئے گی، اسے اپنے گناہ یاد آئیں گے اور وہ ان پر اللہ سے معافی کا خواست گار ہوگا۔
دین مختلف مواقع پر یہ یاددہانی اس لیے کراتا ہے کہ ہوا و ہوس کی یہ دنیا آدمی کو اپنے اندر گم کرلیتی ہے۔ اور آدمی اسی دنیا کی کامیابی کے لیے اس قدر مصروف ہو جاتا ہے کہ ایمان اور اس کے تقاضے بے اعتنائی کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔
اللہ کے نام کی برکت سے سونے اور اٹھنے کا مطلب اللہ کی ذات بابرکات کا سہارا اور اس کے بے پایاں فیض کا سوتے وقت حصول ہے۔ گویا آدمی سوتے وقت اللہ کی ذات کا سہارا حاصل کر لیتا ہے تاکہ عالم نیند میں جو حوادث اچانک وارد ہوسکتے ہیں، ان میں اللہ کا سہارا اسے حاصل رہے۔ اور اگر وہ نیند ہی کی حالت میں مر جائے تو یہ دعا اس کے ایمان کی سلامتی کی گواہ بن کر اس کے ساتھ جائے۔ اور اگر وہ صحیح و سالم بیدار ہو تو دنیاے فانی میں اس کی برکات اس کے لیے بدرقہ کا کام دیں۔
پہلی دعا میں ان برکات کو بیان نہیں کیا گیا، مگر دوسری اور تیسری دعا میں ان کو ان الفاظ میں کھول دیا گیا ہے کہ اگرمجھے رات کو سوتے میں موت آجائے تو اے اللہ، مجھ پر رحم فرمانا اور اگر میں صبح زندہ اٹھوں تو جس طرح تو اپنے صالح بندوں کی برائیوں سے حفاظت فرماتا ہے، اسی طرح میری بھی حفاظت فرمانا۔
پہلی دعا میں ’اموت‘ پر ’احیا‘ کے عطف سے اور دوسری دعا میں ’وضعت جنبی‘ پر ’وبک ارفعہ‘ کے عطف سے اور تیسری دعا میں ’مماتھا‘ پر ’ومحیاھا‘ کے عطف سے اس میں صبح بخیریت اٹھنے کی دعا بھی شامل ہو گئی ہے کہ اب میں موت کی آغوش میں جارہا ہوں تو اللہ کرے مجھے زندگی کی نعمت حاصل رہے اور میں صبح خیر سے اٹھوں اور خدا کے صالح بندوں کی طرح زندگی بسر کروں۔ گویا یہ دعا ایک طرف موت کی یاددہانی ہے اور دوسری طرف صبح خیر سے اٹھنے کی دعا بھی ہے۔
دوسری دعا میں ’فان امسکت نفسی‘ اور تیسری دعا میں ’وان احیتھا‘ سے آگے کا کلام اس بات کی یاددہانی بھی کر رہا ہے کہ انسان کی زندگی اور موت تمام تر اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس یاددہانی سے یہ بتانا مقصود ہے کہ موت و حیات کی اس زندگی کا فیصلہ آدمی کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہے کہ وہ جب چاہے اس میں اضافہ کر لے۔ اس کا اختیار سرتاسر اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جب مدت حیات پوری ہو جائے گی توموت اچانک کچھ بتائے بغیر آجائے گی۔ جو چیز اچانک آنے والی ہو،اس سے نچنت نہیں رہا جا سکتا۔ کیا خبر وہ اگلے ہی لمحے میں آنے والی ہو۔
ان دعاؤں کو ان احساسات کے ساتھ اگر پڑھ کر سوئیں گے تو ان کی برکات یقینا ظاہر ہوں گی۔
اس سے پہلے ہم سوتے وقت کے اذکار میں سے تین دعاؤں کا مفہوم و مدعا واضح کر چکے ہیں، جن کا موضوع نیندکے حوالے سے موت اور قیامت کے دن کی یاددہانی تھا۔ اس وقت ہم اس موقع کی دوسری دعاؤں کی شرح کریں گے۔
(۴)
اَللّٰھُمَّ اَسْلَمْتُ نَفْسِیِ اِلَیْکَ ، وَوَجَّھْتُ وَجْھِی اِلَیْکَ ، وَفَوَّضْتُ اَمْرِیْ اِلَیْکَ، وَاَلْجَأْتُ ظَھْرِی اِلَیْکَ --- رَغْبَۃً وَرُھَبْۃً اِلَیْکَ ، لَا مَلْجَاءَ وَلَا مَنْجَاءَ مِنْکَ اِلَّا اِلَیْکَ --- آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِیْ اَنْزَلْتَ وَنَبْیِکَ الَّذِیْ اَرْسَلْتَ.
اے اللہ، میں نے اپنے آپ کو تیرے حوالے کیا اور اپنا رخ تیری طرف کر لیا اور اپنا معاملہ تیرے سپرد کیا اور تیری پشت پناہی حاصل کی۔
امید اور بیم (دونوں صورتوں میں اے اللہ)، تیری ہی طرف،( اس لیے کہ) تیرے سوا تیرے عتاب سے بچ کر جانے کے لیے کوئی اور پناہ اور کوئی اور ٹھکانا نہیں ہے۔
)اے اللہ،) تیری اس کتاب پر جو تو نے نازل کی اور تیرے اس نبی پر جسے تو نے رسول بنا کر بھیجا، میں ایمان لایا۔ (صحاح ستہ(
یہ دعا اس حکم الٰہی کا جواب ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان کیا ہے کہ: ’امرنا لنسلم لرب العالمین‘، ’’ہمیں اللہ رب العزت کے آگے سرفگندگی (عبادت و اطاعت) اور حوالگی کا حکم دیا گیا۔‘‘ --- واضح رہے کہ عرب اللہ تعالیٰ کے سوا کئی ایسے معبودان باطل کے قائل تھے جنھیں وہ خدا کی ربوبیت میں شریک مانتے تھے۔ اس اعتبار سے یہ دعا شرک کی نفی کے مضمون کی بھی حامل ہے --- یہی وجہ ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ اگر تم یہ دعا پڑھ کر سوئے اور اسی رات کو رخصت ہو گئے تو تمھاری موت فطرت پر ہو گی۔ فطرت کے لفظ سے اشارہ ’الست بربکم‘ کے عہد فطرت کی طرف ہے۔ اس دعا میں یہ عہد پوری طرح ظاہر ہے۔ مراد یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ہی تمام عالم کا رب ہے اور اس دنیا کا تنہا مالک وہی ہے تو پھر عافیت اور نجات اسی میں ہے کہ اپنا معاملہ اسی کے حوالے کیا جائے۔ مختصر طور پر یوں کہنا چاہیے کہ یہ دعا اپنے آپ کو خدا کی حفاظت میں دینے کی دعا ہے۔ جو عہد فطرت کے صحیح شعور کے بعد کی گئی ہے۔
چنانچہ اس دعا میں یہ سکھایا گیا ہے کہ اگر تم سونے لگو تو اس عہد فطرت کے حوالے سے اللہ کی امان طلب کر کے سویا کرو، تاکہ اگر تم مر جاؤ تو یہ تمھارے ایمان کی شہادت بنے اور عذاب قیامت سے پناہ کا باعث ہو۔ اگر صبح زندہ اٹھو تو عہد فطرت کی یہ یاددہانی اچھے اعمال کا سبب بنے۔
اس دعا کا آغاز ’اسلمت نفسی الیک‘ سے ہوا ہے۔ سوتے وقت آدمی کے ذہن میں اس کے دو مطلب آسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ میں سونے لگا ہوں تو ہو سکتا ہے کہ میں مر جاؤں تو یہ جان اللہ کے حوالے ہے۔ اس سے یہ طلب کرنا پیش نظر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اچھا معاملہ کرے اور قیامت کے دن اس کے گناہ معاف فرمائے۔ اسے اپنی پناہ میں رکھے۔ دوسرے یہ کہ میرا معاملہ اب اللہ کے سپرد ہے۔ یہ ایک طرف اللہ کی بندگی میں آنے کا اظہار ہے تودوسری طرف اپنے آپ کو اللہ کی حفاظت میں دینے کی دعا ہے۔ یعنی میں اچھا ہوں یا برا تو ہی میرا مالک ہے۔ دن بھر کی کوتاہیوں اور گناہوں کے بعد تیرے ہی دروازے پر آیا ہوں۔سو تو اپنی امان میں لے لے۔
اس کے بعد یہ کہا گیا ہے کہ ’ووجھت وجھی الیک‘۔ یہ الفاظ اس عہد کی یاددہانی ہیں کہ میری تمام مساعی کا مقصود اللہ ہی ہے۔ میں اسی کی طرف آگے بڑھوں گا۔ میں نے دنیا سے منہ موڑ کر اس کی طرف کرلیا ہے۔
اس پر جو جملہ عطف کیا گیا ہے، وہ ’وفوضت امری الیک‘ کا ہے ۔یہ بھی اسی سپردگی اور تذلل کا بیان ہے جس کا ذکر اوپر کے جملوں میں ہوا ہے۔ یہ اللہ سے محافظت اور نگرانی کی دعا کا جملہ ہے۔ اس جملے سے ’رضیت باللّٰہ ربا‘ کے ایمانی تقاضے کی بھی نشان دہی ہوتی ہے کہ اب اللہ اس دنیا میں ہمارے ساتھ جوکچھ بھی کریں گے ہم اس پر راضی رہیں گے۔ ظاہر ہے خدا اپنے بندوں کے لیے سختیاں بھی نازل کرتا ہے۔ ان سختیوں میں اگر اللہ کا سہارا اور پشت پناہی حاصل نہ ہو تو آدمی شاید ہی ان آزمایشوں میں کامیاب ہو۔ اس لیے اپنی جان اور اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہی سہارے اور پشت پناہی کی درخواست بھی کی گئی ہے تاکہ ایمان کی اس آزمایش میں اللہ رب العزت کا سہارا ہمیں حاصل رہے۔ اس کے لیے دعا میں ’الجأت ظہری الیک‘ والا جملہ آیا ہے۔
ایمان کی یہ آزمایشیں آدمی کو زندگی بھر امید و بیم کے مراحل سے گزارتی رہتی ہیں۔ اگر آدمی اپنے ایمان میں پختہ نہ ہو تو جب مشکل آتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے لمبی لمبی دعائیں کرتا ہے، منتیں مان لیتا ہے اور یہ عہد بھی کر لیتا ہے کہ اب کے اگر بچ گیا تو اللہ کا نیک بندہ بن کے رہے گا، لیکن جب اللہ اس کی مشکل حل کر دیتا ہے تو وہ اپنی تدبیروں اور اپنے بزرگوں کے گن گانے لگتا ہے اور خدا کو اس طرح بھول جاتا ہے جیسے اس نے اسے کبھی پکارا ہی نہیں تھا۔
اس دعا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ ہم امید و بیم ’رغبۃ ورھبۃ الیک‘ دونوں میں اللہ کی آس لگانے والے اور اسی کو پکارنے والے بنیں۔ مراد یہ ہے کہ اے اللہ، میں اپنے معاملے کو زندگی کے خشک و تر حالات میں تیرے ہی حوالے کرتا ہوں تواس میں میرا پشتی بان بن جا۔ اس لیے کہ ’لا ملجاء ولا منجاء منک الا الیک‘ اگر تو مجھ سے ناراض ہو گیا تو میرے لیے اگر کوئی نجات اور پناہ ہے تو وہ تیری ہی رحمت کے سایے میں ہے۔
یہ دعا حوالگی کے اقرار پر مبنی ہے۔ یہ حوالگی اور سپردگی اس حقیقی ایمان کا اظہار ہے جو اسی کو نصیب ہوتا ہے جو اللہ رب العزت پر صحیح معنی میں ایمان رکھتا اور اس کی راہ میں بڑی سے بڑی قربانی کے لیے تیار ہو، جو اپنے قول و عمل میں اپنے رب ہی کا ہو کر رہے، جو اپنے آپ کو اس طرح اپنے رب کے حوالے کر دے کہ دنیا کی عزیز سے عزیز تر چیز بھی اس کے نزدیک خدا سے زیادہ عزیز نہ رہے۔ جسے معلوم ہو کہ اس کی پناہ اس کا سہارا اور اس کی قوت و جمعیت صرف اور صرف اللہ ہے۔ وہی تنہا اس دنیا کا رب ہے۔ چنانچہ اگر وہ اپنے معاملہ کو رب العالمین کے سپرد نہ کرے اور اس کی پناہ نہ لے، اس کی نازل کردہ ہدایت کو تسلیم نہ کرے تو وہ مارا جائے گا۔
اس دعا کا خاتمہ اللہ کی کتاب قرآن مجید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان کے اقرار پر کیا ہے،گویا یہ اس بات کا اظہار ہے کہ اس عہد فطرت کی یاددہانی اور اس کی تجدید کے لیے یہ کتاب اوریہ پیغمبرآئے ہیں، ہم اسی عہدفطرت کی رہنمائی میں ان پر بھی ایمان لائے۔ اس لیے کہ انھیں تو نے بھیجا ہے۔
خلاصہ یہ کہ یہ دعا ایک طرف عہد فطرت کی تذکیر اور اللہ وحدہ لاشریک کی ربوبیت کا اقرار ہے۔ اور اس عہد فطرت سے پھوٹنے والے اس ایمان کی تذکیر ہے جو ہم اس دنیا میں خدا کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر لاتے ہیں۔ اور دوسری طرف اس میں اللہ تعالیٰ سے یہ درخواست ہے کہ وہ خشک و تر حالات میں اس عہد پر قائم رہنے کے لیے اپنا سہارا ہمیں عنایت فرمائے۔ اس لیے کہ اللہ سے یہ سہارا حاصل نہ ہوا تو پھر کہیں سے نہیں ملے گا۔
اس دعا کو اگر ہم اسی تذکیر اور یاددہانی کا ذریعہ بنائیں اور اسی مقصد سے رات کو پڑھ کر سوئیں تو اس میں شبہ نہیں کہ نیند کی حالت میں اگر ہمیں موت آ جائے تو ہماری زندگی کا خاتمہ فطرت پر ہو گا۔
(۵)
اللّٰھم قنی عذابک. یوم تبعث عبادک.
الٰہی، مجھے اس روز اپنے عذاب سے بچا جس روز تو اپنے بندوں کو (حساب کے لیے) اٹھائے گا۔(سنن ابی داؤد(
سوتے وقت اگر آدمی کو قیامت یاد آجائے تو اس وقت وہ یہ دعا کرے۔ اگر آدمی اپنی زندگی خدا کے لیے بسر کر رہا ہو تو ہر رات اس کے لیے موت اور ہر صبح اس کے لیے صبح نشور ہے۔ یہ قیامت کے دن اللہ کے عذاب سے بچنے کی دعا ہے۔ اور آخرت پر اپنے ایمان کا اظہار ہے ۔
(۶)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَنَا وََسَقَانَا وکَفَانَا وَآوَانَا. فَکَمْ مِّمَّنْ لَا کَافِیَ لَہُ وَلَا مُؤْوِیَ.
شکر ہے اللہ کا، جس نے ہمیں کھلایا، پلایا اور (رہنے اور سونے کے لیے یہ) ٹھکانا عطا کیا۔ کتنے ہی لوگ ایسے ہوں گے، جو بے سہارا اور بے ٹھکانا ہوں گے۔
یہ اظہار تشکر کی دعا ہے۔ سوتے وقت آدمی اگر محسوس کرے کہ اللہ نے اسے کتنا کچھ دے رکھا ہے۔ اسے پیٹ بھرنے کو کھانا، پیاس بجھانے کو پانی اور سر چھپانے کو گھر میسر ہے تو اللہ کا شکر ہے۔ اس لیے کہ کتنے ہی لوگ ہوں گے جنھیں کوئی کھانا کھلانے والا ہے نہ مشکلات میں سہارا دینے والا، اور نہ ان کے پاس سر چھپانے کے لیے گھر ہے۔
یہ اس احساس پر خدا کے شکر کا ذکر ہے کہ اللہ نے بہت سے لوگوں کے مقابلے میں اسے رزق بھی دے رکھا ہے اور گھر بھی۔ یہ نعمتیں اسے حاصل ہیں، جبکہ کئی لوگ اس سے محروم ہیں اور ظاہر ہے، یہ نعمتیں اس کا ذاتی استحقاق نہیں ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے محض اپنی رحمت سے دی ہیں۔ جس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس کا شکر کیا جائے۔
یہ دعا ایک اعتبار سے شکر گزاری ہے تو دوسری طرف اس بات کی تعلیم ہے کہ اپنے سے کم مایہ لوگوں کی طرف دیکھ کر انھیں حقیرسمجھنے اور اپنے آپ کو بڑا کہنے کے بجائے اس خیر الرازقین کا شکر ادا کیا جائے جس نے اسے بہتوں سے زیادہ دیا ہے۔
قرآن مجید سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دین اصل میں یہ چاہتا ہے کہ آدمی مشکلات میں مایوس ہونے اور جزع فزع کرنے کے بجائے صبر کرے اور خدا کی عنایتیں اگر اسے حاصل ہوں تو اس پر اکڑنے کے بجائے اس کا شکر ادا کرے۔ جس نے تنگی و خوش حالی میں دین کا یہ مطلوبہ رویہ اختیار کیا وہی کامیاب ہو گا۔
چنانچہ رات کو سوتے وقت آدمی اگر ان نعمتوں پر شکر ادا کرکے سوئے تو گویا اس نے اپنی ان نعمتوں پر صحیح رویہ اختیار کیا۔ یہ صالح رویہ اس کے لیے قیامت کے دن باعث نجات ہو گا، جس کا وقت اسی رات کی طرح ایک دن آ جائے گا۔
(۷)
قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ. اَللّٰہُ الصَّمَدُ. لَمْ یَلِدْ، وَلَمْ یُوْلَدْ. وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗکُفُوًا أَحَدٌ.
تم کہو، اللہ سب سے الگ ہے۔ اللہ سب کے ساتھ ہے۔ وہ نہ باپ ہے نہ بیٹا، اور نہ اس کا کوئی ہم سر ہے۔
______
قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ. مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ. وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ. وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ. وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ.
تم (دعا کے لیے) کہو کہ میں ہر چیز کے نمودار کرنے والے، خداوند کی پناہ چاہتا ہوں، تمام مخلوقات کے شر سے اور (بالخصوص) اندھیرے کے شر سے، جب وہ چھا جائے اور گرہوں میں پھونکنے والوں کے شر سے اور ہر حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے۔
______
قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ. مَلِکِ النَّاسِ. إِلٰہِ النَّاسِ. مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ. الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ. مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ.
تم (دعا کے لیے) کہو کہ میں انسانوں کے پروردگار، انسانوں کے بادشاہ، انسانوں کے معبود کی پناہ چاہتا ہوں، اس کے شر سے جو وسوسہ ڈالتا، پھر الگ ہو کر بیٹھ جاتا ہے، جو دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے جنوں اور انسانوں میں سے۔
سورۂ اخلاص میں ہم نے ’احد‘ کا ترجمہ سب سے الگ کیا ہے۔ اس لیے کہ ’احد‘ کے معنی ہر پہلو سے یگانہ، یکتا اور بے ہمہ کے ہیں۔ چنانچہ لازم ہے کہ اسے ہر رشتہ و قرابت اور سانجھ سے بالاتر سمجھا جائے۔
’صمد‘ کا لفظ اس بڑی چٹان کے لیے آتا ہے جس کی دشمن کے حملے کے وقت پناہ پکڑی جاتی ہے، یہیں سے لوگ قوم کے اس سردار کو ’صمد‘ کہنے لگے جو قوم کا پشت پناہ ہو اور سب اسی کا سہارا پکڑتے ہوں اور انھیں اس سے پناہ اور سہارا ملتا ہو۔
’لم یلد‘ سے ’کفوا احد‘ تک جو صفات الٰہی بتائی گئیں ہیں، وہ اس کے احد ہونے کا تقاضا ہیں۔ جن کو کھول کر بیان کر دیا گیا ہے تاکہ کوئی التباس باقی نہ رہے۔
اگلی دونوں سورتیں (الفلق اور الناس) اللہ کے ’الصمد‘ ہونے کا تقاضا ہیں۔ جن میں اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کی گئی ہے۔
سورۂ فلق اور سورۂ ناس اس وقت نازل ہوئی ہیں، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن کامیابی سے ہم کنار ہو رہا تھا، جس کو شکست خوردہ کرنے کے لیے یہود، قریش اور شیاطین جن و انس آپ پر پل پڑنے کی تیاری کر رہے تھے۔ اس حملے میں ان کے ہتھیار جادو ٹونا اور وسوسہ اندازی کی نوعیت کے ہتھکنڈے تھے۔ یہ دونوں ہتھیار ایسے ہیں کہ آدمی انھیں دیکھ نہیں سکتا۔ یہ بے خبری میں آ لیتے ہیں۔ تلوار سے حملہ آور اتنا خطرناک نہیں ہے، جتنا ان پوشیدہ ہتھیاروں سے حملہ کرنے والا خطرناک ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ان دونوں میں ایک قدر مشترک یہ بھی ہے کہ ان دونوں کو استعمال کرنے والا کھل کر دشمن کی حیثیت سے سامنے نہیں آتا، بلکہ دوست یا کم از کم غیر دشمن نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے، ایسے پوشیدہ دشمن سے پناہ وہ خداے ’صمد‘ ہی دے سکتا ہے، جو ہرنمودار ہونے والی چیز کا رب ہو۔ جو کچھ بھی اس دنیا میں نمو پاتا ہو، وہ اسی کی ربوبیت و تخلیق کا مرہون ہو۔
سورۂ فلق میں حاسد اپنے جوش حسد میں جن گھٹیا کاموں پہ اتر آتے ہیں، ان کی ان گھٹیا سرگرمیوں سے جن میں جادو ٹونا نمایاں ہے، اس سے پناہ مانگی گئی ہے۔ اگر امت مسلمہ کے حوالے سے دیکھا جائے تو قرآن کی رو سے اس امت کے حاسد یہود ہیں۔ سورۂ بقرہ میں قرآن مجید نے اسے ’حسدا من عند انفسہم‘ کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ اور اگر بنی نوع آدم کے حوالے سے دیکھیں تو ابلیس اور اس کی ذریت ان کی حاسد ہے۔ سورۂ ناس میں ’من الجنۃ والناس‘ سے انھی دونوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔
سورۂ فلق میں جادوٹونے اور رات کے فتنہ گروں کی فتنہ خیزیوں سے اور سورۂ ناس میں لوگوں کی وسوسہ اندازیوں سے پنا ہ طلب کی گئی ہے۔ پہلی میں رب الفلق سے اور دوسری میں لوگوں کے رب، ان کے بادشاہ اور ان کے معبود سے پناہ مانگی گئی ہے۔ اسی لیے کہ انھی صفات کی حامل ذات ان چیزوں سے پناہ دلا سکتی ہے۔
ان تینوں سورتوں کو سوتے ہوئے ملا کر پڑھنے سے غالباً مقصود یہ ہو سکتا ہے کہ مثلاً سورۂ اخلاص کا مقصد یہ ہے کہ بندہ رات کو اس حالت میں سوئے کہ وہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین مکہ کے اس تصور سے خدا کو منزہ قرار دے کہ اس کے کچھ شریک ہیں اور اس کی اولاد بھی ہے۔ تاکہ رات کو اس کی سرگرمیوں کا اختتام توحید خالص کے اقرار پر ہو۔
اسی طرح سورۂ فلق اور سورۂ ناس کے پڑھنے سے مقصود یہ ہے کہ رات فتنہ گروں کو فتنہ گری کا موقع فراہم کرتی ہے۔ نیند میں آدمی چونکہ بے خبر ہوتا ہے،اس لیے سونے سے پہلے وہ اپنے آپ کو رات میں پیش آمدہ خطرات کی وجہ سے غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے اسے ایسے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے جو سوتے میں اس کی نگہبانی کرے۔ ظاہر ہے، اس میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ محفوظ پناہ کس کی ہوسکتی ہے۔ جو ’الصمد‘، ’رب الفلق‘، ’رب الناس‘، ’مالک‘ اور ’الٰہ الناس‘ ہے۔
(۸)
لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ، وَإِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْٓ أَنْفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ ، فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ، وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْْ ءٍ قَدِیْرٌ. اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ أُنْزِلَ إِلَیْْہِ مِنْ رَّبِّہٖوَالْمُؤْمِنُوْنَ ، کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓءِکَتِہٖوَکُتُبِہٖوَرُسُلِہٖلاَ نُفَرِّقُ بَیْْنَ أَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ، وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَإِلَیْْکَ الْمَصِیْرُ. لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَہَا، لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْْہَا مَا اکْتَسَبَتْ ، رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَآ إِنْ نَّسِیْنَآ أَوْ أَخْطَاْنَا ، رَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَیْْنَآ إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗعَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا، رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ، وَاعْفُ عَنَّا ، وَاغْفِرْ لَنَا، وَارْحَمْنَا، أَنْتَ مَوْلٰنَا، فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ.(البقرہ۲: ۲۸۴۔۲۸۶)
جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے، سب خدا ہی کا ہے۔ جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے، اسے ظاہر کرو یا چھپاؤ، خدا اس کا تم سے حساب لے گا، پھر جس کو چاہے گا، بخشے گا اور جس کو چاہے گا، سزا دے گا۔اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
اللہ کا یہ رسول اور مومنین اس چیز پرایمان لائے، جو اس رسول پر اس کے رب کی طرف سے اتاری گئی۔ یہ سب ایمان لائے اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر۔ (ان کا اقرار ہے کہ) ہم خدا کے رسولوں میں کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم نے مانا اور اطاعت کی۔ اے پروردگار، ہم تیری مغفرت کے طلب گار ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔
اللہ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ ہر ایک پائے گا جو کمائے گا۔ اور بھرے گا جو کرے گا۔ --- اے پروردگار، اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کربیٹھیں تو ہم سے مواخذہ نہ فرمانا۔ اور اے ہمارے پروردگار، ہمارے اوپر اس طرح کا کوئی بار نہ ڈال، جیسا تو نے ان لوگوں پر ڈالا جو ہم سے پہلے ہو گزرے۔ اور اے ہمارے پروردگار، ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جسے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہ ہو۔ اور ہمیں معاف کر، ہمیں بخش اور ہم پر رحم فرما تو ہمارا مولا ہے، پس کافروں کے مقابل میں ہماری مدد کر۔
لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ، وَإِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْٓ أَنْفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ، فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ، وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْْءٍ قَدِیْرٌ.
یہ سورۂ بقرہ کی آخری تین آیات ہیں، پہلی آیت میں یہودونصاریٰ کے ذات خداوندی کے بارے میں بعض غلط نظریات کے حوالے سے امت مسلمہ کو تنبیہ کے انداز میں یہ بتایا گیا ہے کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے، سب خدا ہی کی ملکیت اور اس کے اختیار و تصرف میں ہے۔ وہ بندوں کے دل کی ان تمام باتوں سے واقف ہے جو تم ظاہر کرتے ہو یا چھپاتے ہو۔ اس لیے وہ دل ہی کے لحاظ سے تمھارا حساب کرے گا۔ اور اپنے اختیار مطلق سے جسے اپنے اصولوں پر مغفرت کا حق دار پائے گا، اس کی مغفرت فرمائے گا۔ جسے سزا کا مستحق سمجھے گا، اسے سزا دے گا۔ کسی کی مجال نہیں کہ اس کے فیصلوں اور ارادوں میں مداخلت کر سکے۔
رات کی دعا میں یہ آیت اس لیے رکھ دی گئی ہے کہ امت اہل کتاب کی طرح اس وہم میں مبتلا نہ ہو جائے کہ اللہ صرف ظاہر ہی پر معاملہ کرتا ہے۔ اور یہ بھی کہ اس کے اختیار اور اس کے فیصلوں کو شفاعتوں اور سفارشوں سے بدلا جا سکتا ہے۔ اس آیت میں اس بات کی پوری طرح نفی کر دی گئی ہے تاکہ امت کا ہر فرد اگر اسے رات کو پڑھ کر سوئے تو اسے اس حقیقت کا روزانہ ادراک ہو کہ خدا کی ذات سے معاملہ ہونا ہے اور کس اصول پر ہونا ہے۔
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ أُنْزِلَ إِلَیْْہِ مِنْ رَّبِّہٖوَالْمُؤْمِنُوْنَ، کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓءِکَتِہٖوَکُتُبِہٖوَرُسُلِہٖلاَ نُفَرِّقُ بَیْْنَ أَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ، وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَإِلَیْْکَ الْمَصِیْرُ.
سورۂ بقرہ کے مباحث پر جن کی نگاہ ہے، وہ جانتے ہیں کہ یہاں رسول اور مسلمانوں کے ایمان کی خبر دینے سے مقصود، یہود کے اس عقیدے سے اظہار برأت و مخالفت ہے جس کے مطابق وہ کچھ ابنیا کو مانتے اور کچھ کا انکار کرتے تھے۔ یہاں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ ہم مسلمان ان تمام رسولوں پر برابر ایمان رکھتے ہیں، ہم فرشتوں، رسولوں اور کتابوں کے دشمن نہیں ہیں، بلکہ سب پر ایمان رکھتے ہیں اور رسولوں کے باب میں ہم کسی گروہی تعصب کا شکار نہیں ہیں۔
اسی طرح ہدایت کے اس باب میں یہود کے طرز عمل کے برخلاف ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ ہم اس کو سنتے، اس کو مانتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔
اس عہد کے بعد دعا کے الفاظ ہیں کہ ’غفرانک ربنا‘۔ اے ہمارے رب، ہم تیری مغفرت کے طالب ہیں۔ ’سمعنا و اطعنا‘ کے اقرار کے بعد دعا کا زبان پر جاری ہونا، اس امر کا اظہار ہے کہ یہ اقرار ایک عظیم ذمہ داری کا اقرار ہے۔ اس میں بڑی بڑی آزمایشیں پیش آتی ہیں۔ اور ہر قدم پر لغزشوں، کوتاہیوں اور ٹھوکروں کے اندیشے ہیں۔ یہاں اسی حقیقت کا شعور اس دعاے مغفرت کا موجب بنا ہے۔
اس دعا کے بعد ’والیک المصیر‘ کے الفاظ آتے ہیں۔ ایک تو اس میں آخرت پر ایمان کا اظہار ہے جو اوپر بیان نہیں ہوا تھا اور دوسرے ان الفاظ میں اس عقیدے کے اظہار سے اس میں کامل سپردگی کے معنی بھی پیدا ہو گئے ہیں کہ تیرے سوا کوئی نہیں کہ کسی بھی پہلو سے مرجع و ماویٰ بن سکے۔
یہ اس قرآنی دعا کی دوسری آیت ہے۔ مقصود اس سے ان اہل کتاب اور ان لوگوں پر ایک لطیف تعریض بھی ہے جو اپنے آباو اجداد اور شرکا و شفعا کے اعتماد میں سمع و طاعت کی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہو بیٹھے ہیں۔ لیکن اس امت پر یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹنا، اسی کے آگے پیش ہونا اور اسی کے آگے جواب دہی کرنی ہے ۔
تیسری آیت کا آغاز ’لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَہَا ، لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْْہَا مَا اکْتَسَبَتْ‘ سے ہوتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اوپر بیان کردہ سمع و طاعت کی ذمہ داری کے بعد تسلی کا جملہ بھی ہے اور دینونت کا اصول بھی کہ کس اصول پر وہ اپنے بندوں سے معاملہ کرے گا۔ پہلی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی ہمت و قوت سے بڑھ کر ذمہ داری نہیں ڈالے گا۔ اس اصول میں اللہ کے بندوں کے لیے تسلی بھی ہے کہ خدا ہمارے اوپر حد سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالے گا۔ یعنی جو چیز بندوں کی وسع سے باہر ہو گی اس پر مواخذہ نہیں ہو گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ سب کو اپنی کمائی ہی سے واسطہ پڑے گا۔ جو اس نے خود بویا اسی کا پھل کل کھائے گا۔ اس میں بھی بندوں کے لیے یہ تسلی ہے کہ ایسا نہیں ہو گا کہ کل قیامت کے دن ہمارے اوپر ان افعال کا بھی بوجھ ڈال دیا جائے جنھیں ہم نے سرے سے انجام ہی نہ دیا ہو۔ اور نہ ایسا ہو گا کہ ہمارے کارنامے اور ہماری نیکیوں کو اٹھا کر دوسروں کے کھاتے میں ڈال دیا جائے، بلکہ اس میں اصول یہ ہو گا کہ ہر آدمی کو بس اسی سے سابقہ پیش آئے گا جو اس نے خود کمایا ہو گا۔
اس ضروری وضاحت اورتسلی کے بعد دعا پھر شروع ہوتی ہے ’رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَآ إِنْ نَّسِیْنَآ أَوْ أَخْطَاْنَا‘ کہ اے ہمارے رب، جو ذمہ داری بھول چوک سے رہ جائے یا بے شعوری میں ہم کوئی غلط کام کر جائیں تو اس کا مواخذہ نہ فرمانا۔ یہ دعا چونکہ اللہ نے بندوں کی زبان پر جاری کی ہے، اس لیے یہ بھی اسی دینونت کا اصول قرار پائے گی، جس کا ایک پہلو ’لا یکلف اللّٰہ‘ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خطا و نسیان اور بھول چوک میں اللہ تعالیٰ کسی سے مواخذہ نہیں کرے گا۔
دعا کا اگلا حصہ یہ ہے کہ ’رَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَیْْنَآ إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗعَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا‘ یعنی ذمہ داریوں کا ایسا بوجھ ہم پر نہ ڈال جو اہل کتاب پر ان کی سرکشی کی بنیاد پر ڈالا گیا، جسے بالآخر وہ اٹھا نہ سکے۔
’رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَۃَ لَنَا بِہٖوَاعْفُ عَنَّا، وَاغْفِرْ لَنَا، وَارْحَمْنَا‘ یعنی ’سمعنا و اطعنا‘ کی راہ میں ہم پر کوئی ایسی آزمایش نہ ڈالنا جو ہماری قوت برداشت سے باہر ہو۔ اور اگر ان آزمایشوں میں جو ایمان کا لازمہ ہیں، ہم کمزور ثابت ہوں تو ہم سے درگزر فرما، ہماری ان کوتاہیوں کو اپنی مغفرت سے ڈھانپ دے۔ اور ہم پر رحمت فرما، اس لیے کہ اس راہ اطاعت میں یہی چیزیں ہمارا سہارا ہیں۔
’أَنْتَ مَوْلٰنَا، فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ‘ آخر میں دعا مخالفین اسلام کے خلاف نصرت کی دعا ہے۔ دعا کا یہ ٹکڑا اسی وقت موزوں ہے جب مسلمان دین پر سمع و طاعت کے اس عہد پر پوری طرح قائم ہوں، جس کا اقرار اس دعا میں کیا گیا ہے۔ وگرنہ یہ دعا بے معنی قرار پاتی ہے۔
رات کو سوتے وقت آدمی کو یہ دعا ان امور کی تعلیم دینے کے لیے ہے، جن کا اوپر ذکر ہوا، جو شخص یہ دعا سوچ سمجھ کر پڑھے گا اس کے نفس کا نظریات و اعمال کے پہلو سے تزکیہ ہو گا اور وہ ’یحسابکم اللّٰہ‘ کی منزل آسانی سے پا لے گا۔
[۱۹۹۸ء[
___________________