HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Sajid Hameed

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

صبح و شام کے اذکار

 

(۱)

 

عن ابی ہریرۃ قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعلم اصحابہ یقول اذا اصبح احدکم فلیقل:

اللّٰہم بک اصبحنا وبک امسینا وبک نحیا وبک نموت والیک المصیر واذا امسی فلیقل:

اللّٰہم بک امسینا وبک اصبحنا وبک نحیا وبک نموت والیک النشور. (الترمذی: کتاب الدعوات(

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام کو سکھایا کرتے تھے کہ جب صبح ہو تو یہ دعا کیا کرو:

اے اللہ، تیرے فضل سے ہم نے صبح کی اور تیرے ہی کرم سے ہم نے شام کی۔ ہم تیری ہی عنایت سے زندہ ہیں اور ہم تیرے ہی حکم سے مر جائیں گے اور آخر کار ہم تیری ہی طرف لوٹنے والے ہیں۔

نبی صلی اللہ نے فرمایا کہ جب شام ہو تو یہ دعا کیا کرو:

اے اللہ، تیرے کرم سے ہم نے شام کی اور تیرے ہی فضل سے ہم نے صبح کی۔ ہم تیری ہی عنایت سے زندہ ہیں، اور ہم تیرے ہی حکم سے مر جائیں گے، اور آخر کار ہم تیرے حضور میں اکٹھے ہونے والے ہیں۔

 

دعا کی وضاحت

 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح و شام کے اوقات میں یہ دعا اس لیے سکھائی ہے کہ آدمی صبح و شام کی آمدورفت سے، زندگی کے بعد موت کی یاد دہانی حاصل کرے۔ اسے ان اوقات میں یہ محسوس ہو کہ صبح و شام کا یہ تسلسل، اسے کشاں کشاں اپنے رب کی طرف لے جارہا ہے۔

روز و شب کا یہ سلسلہ ایک طرف آدمی کو وقت کے گزرنے کا احساس دلائے کہ اس کی مختصر زندگی میں سے ایک دن اور کم ہو گیا ہے اور وہ اپنے انجام سے روز بروز قریب سے قریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے تو دوسری طرف یہ سلسلہ اسے زندگی اور موت کا بانداز تمثیل مشاہدہ کرائے۔ وہ دن کی چہل پہل اور سرگرمیاں دیکھنے کے بعد یہ دیکھے کہ رات نے کس طرح ہر چیز پر موت طاری کردی ہے۔ چرند پرند، انسان و حیوان، سب نیند کی آغوش میں جا سوئے ہیں اور پھر وہ خود نیند کی پرسکون وادی میں اتر کر موت کے تجربے سے گزرے۔

فطرت کے سب مظاہر انسان کی یاد دہانی کے لیے ہیں، مگر انسان اپنے کاموں میں گم ہو کر ان مظاہر فطرت سے یاد دہانی حاصل نہیں کر تا، بلکہ ان بڑے بڑے تغیرات کو بھی وہ معمول کے چھوٹے چھوٹے واقعات کی طرح توجہ دیے بغیر آگے بڑھ جاتا ہے۔ ان اوقات میں یہ دعا اسی لیے سکھائی گئی ہے کہ یہ دعا بندۂ مومن کی توجہ ان مظاہر کی طرف مبذول کرے تاکہ وہ ان آیات الٰہی میں غور و فکر کر کے ان حقائق کو اپنے ذہن میں تازہ کر لے، جنھیں وہ اپنے کاموں میں مصروف ہو کر بھلا چکا تھا۔

یاد دہانی کا یہ اہتمام دین اس لیے کرتا ہے کہ آدمی زندگی کی گہما گہمیوں میں بھول کر کہیں شر کی شاہراہ پر نہ جا نکلے۔ چنانچہ دین اسے ہر موڑ پر یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ خدا کے حضور پیش ہونے کے لیے، طوعاً و کرہاً، آگے بڑھ رہا ہے۔

 

(۲)

 

ان ابا بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ قال: یا رسول اللّٰہ علمنی ما اقول اذا اصبحت، و اذا امسیت فقال: یا ابا بکر قل:

اللّٰہم فاطر السمٰوات والارض عالم الغیب والشہادۃ لا الٰہ الا انت رب کل شیء وملیکہ اعوذ بک من شر نفسی و من شر الشیطان وشرکہ وان اقترف علی نفسی سوء ا او اجرہ الی مسلم. (ترمذی، کتاب الدعوات(

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ یا رسول اللہ، مجھے کوئی ایسی دعا سکھائیں، جسے میں صبح و شام کے اوقات میں پڑھا کروں۔ آپ نے فرمایا کہ اے ابوبکر،یہ دعا پڑھا کرو:

اے اللہ، اے زمین و آسمان کے خالق، اے نہاں و عیاں کے واقف، تیرے سوا کوئی الہٰ نہیں، اے ہر چیز کے مالک و پروردگار، میں تجھ سے اپنے نفس کی برائی، شیطان کے شر اور اس کے پھیلائے ہوئے جال کے پھندوں سے تیری پناہ کا طالب ہوں۔ اور اس بات سے پناہ چاہتا ہوں کہ خود کسی برائی کا ارتکاب کروں یا کسی دوسرے مسلمان کے لیے برائی کا موجب بنوں۔

 

دعا کی وضاحت

 

صبح اور شام کے اوقات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یہ دعا اس حکمت کے پیش نظر سکھائی ہے کہ آدمی اپنے دن اور رات کا آغاز اس شعور کے ساتھ کرے کہ شیاطین جن و انس اس کے لیے ہر وقت گھات لگائے ہوئے ہیں اور اسے ان کے شر سے بچنے کے لیے ہوشیار رہنا ہے۔ اس کا نفس ہر لمحے معرض خطر میں ہے۔ دعا کے الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس بات کا شعور دلانا بھی مقصود ہے کہ شیطان کے جال دو طرح سے آدمی کو گناہ میں مبتلا کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ آدمی خود گناہ کا ارتکاب کرے اور دوسرے یہ کہ آدمی دوسروں کو گناہ کرنے پر ابھارے۔ آدمی کو ان دونوں ہی گناہوں سے متنبہ رہنا چاہیے۔

یہ دعا آپ نے بالخصوص حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سکھائی ہے، اس لیے کہ ان میں قائدانہ صلاحیتیں تھیں۔ جن لوگوں میں یہ صلاحیتیں ہوتی ہیں، وہ دوسروں پر اثر انداز ہو کر انھیں اچھے اور برے کاموں کے لیے عام آدمی کی نسبت زیادہ آسانی سے آمادہ کر سکتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے انھیں اس دعا میں بالخصوص یہ بات سکھائی کہ وہ اللہ سے اس بات کی پناہ مانگیں کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کے لیے برائی کا موجب بنیں۔

یہ دعا ایک طرف ان دونوں پہلووں سے آدمی کے شعور کو بیدار کرتی ہے اور دوسری طرف ایک شیطان کے فتنوں میں گھرے ہوئے آدمی کے دل سے یہ صدا بن کر بلند ہوتی ہے کہ اے مالک و آقا، مجھے اپنی پناہ میں لے لے ، مجھے شیطانی چالوں سے بچا۔ دن اور رات کے آغاز میں یہ دعا اس لیے سکھائی گئی ہے کہ آدمی اس احساس کے ساتھ اپنے دن اور رات کا آغاز کرے کہ گویا اس نے ایک حصار اپنے گرد قائم کر لیا ہے۔ یہ دعا جس قدر گہرے شعور کے ساتھ کی جائے گی، خدا کی پناہ کا یہ حصار اسی قدر محکم ہو گا۔

[۱۹۹۷ء[

___________________

 

B