HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Sajid Hameed

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

خدا کو دھوکا دینا --- ایک مہلک مرض

 

خدا کو دھوکا دینا مذہبی اقوام کا ایک مشترکہ مرض ہے، یہود کی یہ داستان قرآن میں بیان کی گئی ہے کہ وہ کس طرح قرآن کے نزول سے پہلے خود اپنے ہاتھ سے شریعت لکھتے اور کہتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ اس سے وہ حیلے تحریر کرتے اور خدا کی شریعت کے ساتھ کھیلتے۔ صدیوں کے تعامل سے خدا کو دھوکا دینے کی یہ عادت اتنی پختہ ہو چکی تھی کہ جب قرآن مجید نازل ہوا تو یہود نے اس موقع پر بھی خدا کو (نعوذ باللہ) جل دینے کی کوشش کی۔ 

اس کا بیان قرآن مجید میں آیا ہے:

’’وہ اللہ اور اہل ایمان، دونوں کو فریب دینا چاہتے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ اپنے آپ ہی کو فریب دے رہے ہیں، لیکن اس کا شعور نہیں رکھتے۔‘‘ (البقرہ۲: ۹)

دھوکا دینے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے طریقے سے جرم کیاجائے کہ شریعت یا فقہ کے ظاہری ڈھانچے کی پیروی بھی ہو جائے اور وہ کام بھی ہو جائے جو شریعت کے منشا کے خلاف تھا۔ اس کی ایک مشہور مثال یہود کا سبت کے دن کا حیلہ ہے، جس میں وہ سبت کے دن بظاہر شکار بھی نہ کرتے اور اس حیلے کے ذریعے سے مچھلیاں بھی پکڑ لیتے۔ 

امت مسلمہ میں بھی دھوکے کا یہ مرض عام ہے۔ اسی مرض کی وجہ سے ہم نے کئی حرام اشیا اپنے اوپر حلال کر لی ہیں اور کئی ممنوع کاموں کے لیے راستے نکال لیے ہیں۔ سود کی کئی شکلیں ہم نے اپنے لیے اسی طریقے سے حلال کر رکھی ہیں۔ خدا کو دھوکا دینے کا ایک سادہ راستہ ہم نے یہ نکالا ہوا ہے کہ اپنے حالات مولوی صاحب کو بتا کر مجبوری ثابت کر کے ان سے فتویٰ لے لیا اور پھر خواہ وہ مجبوری ہو یا نہ ہو، اس پر عمل کرتے رہے اور اپنی تسلی کے لیے اسی فتوے کو کافی سمجھا۔ اس کی سادہ مثال زکوٰۃ دینے میں ہے۔ لوگوں کو فقہا کا یہ فتویٰ معلوم ہے کہ جس پر قرض ہو، وہ زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہے۔ چنانچہ اب لوگ اس موقع پر زکوٰۃ نہیں دیتے کہ جب ان پر قرض ہو، خواہ قرض کی مقدار معمولی ہو۔ مثلاً بعض اوقات زکوٰۃ پچاس ہزار روپے بن رہی ہو گی اور قرض اس سے کہیں تھوڑا سا ہو گا، مگر اس بہانے سے زکوٰۃ روک لی جائے گی۔ 

اس طرح کے اور بھی کئی حیلے ہیں، مثلاً عربوں کو زکوٰۃ دیتے وقت دیکھا گیا ہے کہ جب وہ زکوٰۃ دیتے ہیں تو ان کی زکوٰۃ سیروں کے حساب سے زیورات کی صورت میں نکلتی ہے۔ زکوٰۃ کا حساب وہ پوری دیانت داری سے کرتے ہیں۔ ان زیورات کو وہ ایک بالٹی میں ڈالتے ہیں اور ان زیورات کے اوپر چار پانچ سیر گندم ڈال کر اسے ڈھانپ دیتے ہیں۔ پھر وہ بالٹی کسی فقیر کو دے دی جاتی ہے جو زکوٰۃ لینے کے لیے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے۔ جب فقیروہ بالٹی لے کر چل پڑتا ہے تو گھر کا کوئی فرد اس کے پیچھے جا کر اس سے پوچھتا ہے کہ آیا یہ گندم بیچنے کے لیے ہے؟ تو وہ اس فقیر سے یہ چار پانچ کلو گندم دو ڈھائی سو روپے میں خرید کر گھر لے آتا ہے۔ جس کے نیچے لاکھوں روپے کی مالیت کے زیورات چھپے ہوتے ہیں۔ بظاہر تو اس میں انھوں نے زکوٰۃ پوری دیانت داری سے نکالی اور فقیر کو دے دی اور اس کے علم میں آنے سے پہلے اس سے وہ چند سو روپوں میں خرید لی گئی۔ 

اس کے بعد حیلہ باز ذہن یہ سمجھتا ہے کہ اس نے خدا کے قانون کے مطابق پوری زکوٰۃ ادا کی، اب وہ فقیر سے بالٹی بھر گندم اس کی مرضی سے خرید کر لایا ہے۔ حالانکہ وہ خدا کو دھوکا دے رہاہے۔ اس نے حقیقت میں بس وہی رقم زکوٰۃ میں نکالی ہے جو اس نے بالٹی بھر گندم کو خریدنے میں صرف کی ہے۔ 

ہم کاروبار میں، لین دین میں اور اس طرح کے بے شمار مواقع پر ایسا ناجائز قانونی اور شرعی راستہ نکالتے ہیں کہ بظاہر اسے ہم شرعی طریقے پر کر رہے ہوتے ہیں، مگر حقیقت میں وہ ویسا نہیں ہوتا ۔ 

واضح رہنا چاہیے کہ انسان کے اعمال کا اجرو ثواب اس کی نیت کے مطابق ملے گا نہ کہ اس کے ظاہر کے مطابق۔ اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کرے اور جماعت صحابہ میں شریک رہے، مگر اس کی نیت خدا کی رضا نہ ہو تو اسے اس کا ثواب نہیں ملے گا، بلکہ اگر اس نے ایسا منافقت یا ریاکاری کی وجہ سے کیا ہے تو اسے اس کی سزا بھی ملے گی، اس لیے کہ یہ مومنین اور خدا کو دھوکا دینا ہے۔ 

یہ تقویٰ کے لیے ایک مہلک مرض ہے۔ ایسا شخص کبھی تقویٰ کی نعمت سے بہرہ مند نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ تقویٰ کا مسکن دل کا نگر ہے۔ اگر اس نگر میں فریب اور دھوکا رہنے لگ جائے تو پھر تقویٰ یہاں نہ پیدا ہو سکتا ہے اور نہ یہاں ٹک ہی سکتا ہے۔ چنانچہ جو لوگ تقویٰ کے طالب ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر سے اس طرح کے تمام افکار و اعمال کو کرید کرید کر نکالیں، جن کی بنیاد اسی دھوکے پر ہے۔ 

ہم علیٰ وجہ البصیرت یہ سمجھتے ہیں کہ اس فریب اور اس دھوکے کے ایک ایک جز کے نکلنے پر دل کی اس زمین میں تقویٰ و نیکی کا ایک ایک پودا اگتا چلا جائے گا، جو رفتہ رفتہ شجر طیبہ کی شکل اختیار کرے گا۔ جس کے بارے میں قرآن مجید میں آیا ہے کہ اس کی جڑیں بہت گہری ہیں کہ اسے اکھاڑنا ممکن نہیں اور اس کی شاخیں آسمان تک بلند ہیں کہ جنھیں خزاں کی بادسموم سے کوئی اندیشہ نہیں۔ 

اللہ ہمیں اس مرض کے دل سے کریدنے میں مدد فرمائے اور اس شجر طیبہ کی نشوونما کی توفیق عطا فرمائے۔

[۲۰۰۲ء[

___________________

B