HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Sajid Hameed

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

اولئک علیٰ ھدی من ربھم

 

سورۂ بقرہ کی ابتداہی میں صحابہ رضوان اللہ علیہم کے ایمان لانے کا بیان ان الفاظ پر ختم ہوا ہے: ’اُولٰٓءِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘ (یہی لوگ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور یہی فلاح پائیں گے)۔

اس آیت میں سب سے بڑی بات جس پر غور کرنا چاہیے، وہ ’ہُدًی مِّن رَّبِّھِمْ‘ کے الفاظ میں ہے، یعنی رب کی ہدایت۔ سب الہامی مذاہب کی تاریخ اس اعتبار سے یکساں ہے کہ وہ ’’اپنے رب کی ہدایت‘‘ سے شروع ہوتے رہے اور پھر اپنے ماننے والوں کے ہاتھوں سے لکھے ہوئے فتووں کی نذر ہو کر ’’اپنے رب کی ہدایت‘‘ ہونے کے اعزاز سے محروم ہو جاتے رہے ہیں۔ یہودیت پر ہم سے پہلے قرآن کا یہی تبصرہ ہے: ’...یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْھِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ: ہٰذَا مِنْ عِنْدَ اللّٰہِ‘، ’’... فتویٰ اپنے ہاتھ سے لکھتے اور پھر کہتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔‘‘ (البقرہ۲: ۷۹)

ہماری امت نے بھی کچھ ایسا ہی کیا۔ چنانچہ آج ساری امت اپنی اپنی لکھی اور اکٹھی کی ہوئی باتوں میں مگن ہے۔ اور اپنے ہاتھوں سے کیے ہوئے اس کام کو اللہ کا دین سمجھتے ہیں۔ اگر قرآن آج نازل ہوتا تو شاید اس کا ہم پر بھی تبصرہ یہی ہوتا کہ ’... یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْھِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ: ہٰذَا مِنْ عِنْدَ اللّٰہِ‘، ’’... فتویٰ اپنے ہاتھ سے لکھتے اور پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔‘‘

اس ’’اپنے لکھے ہوئے دین ‘‘سے محبت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج اصلاح امت کے لیے قرآن اور سنت ثابتہ پر مبنی کوئی بات بلند ہوتی ہے تو وہ صرف اس وجہ سے رد کردی جاتی ہے کہ یہ ان کے مسلک (ہاتھ سے لکھے ہوئے دین ) کے خلاف ہے، حالانکہ وہ ’ہُدًی مِّنْ رَّبِّہِمْ‘ ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم اپنی اس روش کی وجہ سے ’اُولٰٓءِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنْ رَّبِّہِمْ‘ کے اعزاز سے محرو م ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ صحابہ نے یہ اعزاز حاصل ہی اس وجہ سے کیا تھا کہ وہ سب گروہی، نسلی اور مذہبی تعصب سے بلند ہو کر اس دین پر ایمان لائے تھے جو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے۔انھوں نے متعصب لوگوں کے برعکس یہ نہیں کہا کہ ہم نے اپنے آباواجداد کو جس دین پر پایا ہے، بس اسی کو تسلیم کریں گے۔ صحابہ نے جس حق کو خدا کا دین سمجھا، اسے قبول کرلیا۔ 

صحابہ اسی وجہ سے اس اعزاز کے مستحق ٹھیرے کہ ’’وہ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں‘‘۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم کے اس عمل کی روشنی میں اگر ہم نے بھی یہ اعزاز حاصل کرنا ہے تو یہ ضروری ہے کہ قرآن اور سنت ثابتہ کی طرف ہر تعصب کو بھول کر صرف اس وجہ سے لوٹ جائیں کہ یہ ’’ہمارے رب کی ہدایت‘‘ ہے۔ دیکھیے اسی رویے کے ساتھ آخرت کی کامیابی کی نوید بھی ہے کہ ’وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘ ’’اور یہی فلاح پائیں گے‘‘۔ اس کے برعکس اس وقت کے یہود نے اپنے گروہی اور نسلی تعصب کی وجہ سے جب ’’رب کی اس ہدایت‘‘ کو جھٹلادیا توان کے مقابلے میں صحابہ کی یہ شان بیان کی گئی اور ظاہر ہے کہ یہود کے خلاف یہ بات آپ سے آپ ثابت ہو گئی کہ وہ نہ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور نہ فلاح پائیں گے۔

اب ہمارے سامنے قرآن مجید کے اس مقام کے حوالے سے دو مثالیں ہیں۔ ایک صحابہ کی جو صرف اس لیے جیتے ہیں کہ اپنے رب کی ہدایت پر رہیں اور دوسرے یہود ہیں جو تعصب کی وجہ سے اپنے فقہا اور صوفیوں کو نہیں چھوڑتے، مگر خدا کی ہدایت کا انکار کردیتے ہیں۔ ہمیں اپنے طرزعمل کو انھی پر پرکھ کر دیکھنا چاہیے کہ آیا ہم صحابہ کی طرح ہیں یا اس زمانے کے یہود کی طرح؟ 

[۲۰۰۲ء[

___________________

B