HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Sajid Hameed

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

ایاک نستعین: ایک اہم پیغام

 

سورۂ فاتحہ جن مضامین کی حامل ہے، وہ یقیناً نہایت گہرے اور وسیع سمندر کے مانند ہیں، تصور رب، ہدایت، اس کی بنیاد، اس کی طلب، اس کا شعور اور اس کی تاریخ کو جس خوبی سے اس سورہ میں تلمیح، کنایے اور بیان کے اسالیب میں سمیٹا گیا ہے، اس کی نظیر شاید ہی کسی کلام میں ملتی ہو۔ ہم ان سب مضامین سے صرف نظر کرتے ہوئے اس لیے کہ ان پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے قارئین کو ایک ایسی بات کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں، جسے وہ ہر روز پڑھتے ہیں، مگر اس کے اہم پیغام سے غیرا رادی طور پر بے اعتنائی سے گزرجاتے ہیں۔

سورۂ فاتحہ کا یہ پیغام اس کی آیت ’اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘ کے بین السطور ہے۔ ’نستعین‘ میں جس استعانت اور مدد کی بات کی گئی ہے، وہ عام انسانی سطح پر مانگی گئی مدد نہیں ہے، بلکہ یہ وہ مدد ہے جو کسی مافوق الفطرت قوتوں کی مالک ذات سے مانگی گئی ہو۔ مثلاً ایک مدد دریا میں ڈوبنے والا ساحل پر چلتے راہ گیروں کو پکار کر مانگتا ہے، جو وہاں موجود ہونے کی وجہ سے اس کی پکار سن سکتے ہیں اور پانی میں اتر کر اس کی جان بچا سکتے ہیں۔ 

ایک مدد وہ ہے جومثلاً ڈوبنے والا کسی ایسے شخص کو پکار کر مانگتا ہے جو نہ وہاں موجود ہوتا ہے اور نہ وہ راہ گیر کی طرح پانی میں اتر کر اس کی مدد کرتا ہے، بلکہ پکارنے والے کو یہ یقین ہوتاہے کہ وہ یہاں موجود نہ ہونے کے باوجود اس کی پکار سنتا ہے اور پانی میں اترے بغیر اپنی جگہ پر بیٹھا بیٹھا اپنی غیر مرئی قوتوں سے اسے بچا سکتا ہے۔ یہی استعانت یہاں ’نستعین‘ میں مراد ہے۔ اگر اس استعانت کی حقیقت پر غور کیا جائے تو یہ ’نعبد‘ سے الگ نہیں ہے، بلکہ اسی کا ایک بڑا حصہ ہے۔ استعانت دعا ہے اور دعا عبادت کا بھی مغز ہے۔ چنانچہ اگر استعانت عبادت ہی کا ایک بڑا حصہ ہے تو پھر یہ سوال پید ا ہوتا ہے کہ اسے الگ سے بیان کیوں کیا گیا ہے اور اتنی اہم سورہ میں اسے ہی کیوں بیان کیا گیا ہے۔

اس کو الگ سے بیان کرنے کا ایک پہلو یہ ہے کہ اسلام کے بعد بالخصوص اور اسلام سے پہلے بالعموم، یہ بات تاریخ مذاہب میں دیکھی جا سکتی ہے کہ شرک کا آغاز ہمیشہ استعانت ہی سے ہوتا ہے۔ لوگ کچھ بزرگوں یا خیالی شخصیات کو خدا کا مقرب سمجھتے اور اپنے گناہوں کی معافی اور اپنے دنیوی مسائل کے حل کے لیے ان کی وساطت سے مددطلب کرتے ہیں۔ 

ٹھیک اسی طرح امت مسلمہ میں بھی بعض علاقوں اور مکاتب فکر میں شرک شروع ہو رہا ہے۔ یہ شرک استعانت ہی کی نوعیت کا ہے۔ لوگ ماضی و حال کی بعض شخصیات کو ’’وسیلہ‘‘ قرار دیتے اور ان سے اولاد، مال و دولت کی محرومی کی صورت میں طالب مدد ہوتے ہیں۔ 

ہم سورۂ فاتحہ کی اس آیت کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کی اس رہنمائی کو پورے وثوق سے سمجھ سکتے ہیں کہ یہ استعانت بھی شرک ہے۔ جس طرح کسی کے آگے سجدہ کرنا ممنوع ہے، اسی طرح اس نوعیت کی مدد طلب کرنا بھی شرک و گناہ ہے۔ ’ایاک نعبد‘ کے بعد ’ایاک نستعین‘ کا اضافہ امت کی تعلیم کے لیے تھا۔ چونکہ پرستش اور استعانت، دونوں میں شرک ہوتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہماری یاددہانی کے لیے ’ایاک نستعین‘ کو سورۂ فاتحہ کا حصہ بنا دیا ہے تاکہ پانچ وقت کی نماز امت کو اس بات کی یاد دہانی کرائے کہ پرستش کی طر ح خدا کے سوا کسی سے طلب مدد یا استعانت بھی بچنے کی چیز ہے۔

خدا ہمیں ’ایاک نعبد‘ کے ساتھ ساتھ ’ایاک نستعین‘ کا سبق یاد رکھنے اوراس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

[۲۰۰۲ء[

___________________

 

B