HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Sajid Hameed

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

اصلاح بزور بازو نیست

 

ہر راہی جو ا پنے راستے سے واقف نہ ہو، اپنے رہنما کا محتاج ہوتا ہے۔ ازل سے انسان اسی روش پر چلا آرہا ہے۔ نہ کسی قوم نے آج تک اس سے انحراف کیا ہے، اور نہ کسی معاشرے نے۔ 

ہمارا رہنما دین اسلام ہے۔ ہم، اگر کوئی اقدام کریں تو لازم ہے کہ اس دین کی رہنمائی میں کریں جو ہمارا ہادی ہے، مگر افسوس کہ اس دور میں عامی تو کیا ، خود دین کے علم بردار بھی، دین ہی کے لیے، دین کے نام پر، غیر دینی حرکات کرتے نظر آتے ہیں۔

مثلاً ، اسلام نے ریاست کے اندر، حکومت کے سوا، کسی کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ کسی برائی کے خاتمے کے لیے مسلح اقدام کرے۔ اسلام کے اجتماعی اصولوں کے مطابق یہ صرف حکومت کا حق ہے۔ یہ حق کسی شہری کو حاصل نہیں ہے،خواہ اس نے اپنے گرد کتنی ہی جمعیت جمع کرلی ہو اورکتنی ہی قوت بہم پہنچائی ہو۔ یہ اصلاح نہیں انارکی ہے، یہ حق ادا کرنا نہیں حق تلفی ہے، یہ جہاد نہیں فساد ہے۔ ایسا کرنے والا ’ فساد فی الارض ‘کا باعث بنتا ہے،اس لیے وہ گردن زدنی ہے۔

اس سلسلے میں اسلام کو پروا نہیں کہ ایسا کرنے والا کون ہے۔ کسی دینی تحریک کا لیڈر ہے یا دین کے کسی محاذ کا مجاہد، وہ کسی بیوہ کی مدد کر رہا ہے یا کسی غریب کی چیز غصب کرنے والوں سے چھیننے جارہا ہے۔ اس کے نزدیک یہ سب ’مفسدین فی الارض‘ ہیں۔ دین کی متعین کردہ حدود سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ نہ جانے مسلمان یہ کیوں بھول گئے ہیں کہ اچھی لگنے والی ہر چیز نیکی نہیں ہوتی،نیکی صرف وہ ہے جو قرآن و سنت کے خلاف نہ ہو۔ ہمیں ہر اصلاحی کام کرتے ہوئے یہ دیکھ لینا چاہیے کہ جس کو ہم اصلاح کہہ رہے ہیں، کہیں وہ قرآن کے نزدیک فسادتو نہیں ہے۔ کہیں ہماری حالت وہی تونہیں ہے کہ’’جب ان سے یہ کہا جاتا ہے: زمین میں فساد نہ مچاؤ توکہتے ہیں: ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں‘‘۔ اور پھر قرآن یہ اعلان کر دیتا ہے کہ ’’آگاہ رہو کہ یہ فساد کرنے والے ہیں۔‘‘ (البقرہ ۲: ۱۱۔ ۱۲)

[۱۹۹۴ء[

___________________

 

B