یونس نینوا کی بستی میں اٹھا اور اس نے خدا کے نام کی منادی کی۔ اس کی دعوت سے دشت وجبل گونج اٹھے، مگر انسانوں کے دل اسے پتھر سے زیادہ سخت اور رات سے زیادہ تاریک دکھائی دیے۔ جب ان دلوں میں کوئی سوز پیدا ہوتا نظر نہ آیا اور ان میں اس نے روشنی کی کوئی کرن نہ دیکھی تو مایوس ہو کر وہ ساحل کی طرف نکل گیا اور شدت غم سے خدا کی اس تعلیم کو فراموش کر بیٹھا کہ:
’’اپنی دعوت کو کبھی زیادہ سمجھ کر ترک نہ کر دینا، بلکہ خدا کے فیصلے کا انتظار کرنا۔‘‘
سو، خدا نے یونس کو مچھلی کے پیٹ میں قید کر دیا۔ پھر اسے اس اندھیرے سے نکالا اور فرمایا:
’’جا، تیری قوم تیرے انتظار میں ہے۔‘‘
یونس مچھلی کے پیٹ سے نکل کر قوم کی طرف گیا تو دیکھا کہ اس کی قوم اپنے بادشاہ کے ساتھ اس کے استقبال کے لیے آئی ہے۔ یونس بہت حیران ہوا اور اس کو احساس ہوا کہ اس کی مایوسی ٹھیک نہ تھی۔ پھر اس کی قوم اس کے ہاتھ پر ایمان لائی اور مسلمان ہوئی۔
پھر کیا ہوا کہ وادی غیر ذی زرع میں محمد عربی کو خدا نے مبعوث کیا اوریہ حکم دیا کہ وہ خدا کے نام کی بڑائی بیان کرے اوراسے بھی نصیحت کی کہ :’’اپنی دعوت کو کبھی زیادہ سمجھ کر ترک نہ کردینا، بلکہ خدا کے فیصلے کا انتظار کرنا‘‘ اور یہ بھی فرمایا کہ: ’’مچھلی والے کی طرح جلدی نہ کرنا۔‘‘
تو اے داعیان حق، تم کیوں اپنے مخاطب سے اتنی جلدی مایوس ہو جاتے ہو؟ کیا تمھارے لیے انبیا کی سیرت میں کوئی سبق نہیں ہے؟
[۱۹۹۴ء[
___________________