HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Sajid Hameed

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

یوم الفرقان اور قرآن

 

جنگ بدر کو ہمارے مورخین جس انداز سے بیان کرتے ہیں،حقیقت میں معرکۂ بدر کی نوعیت اس سے مختلف ہے۔ہم اس مضمون میں غزوۂ بدر کے ان پہلووں کو واضح کریں گے جو عموماًبیان نہیں کیے جاتے۔یہ غزوہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور غلبۂ اسلام کی جدوجہد میں ایک فیصلہ کن اہمیت کا حامل ہے۔ اس غزوہ سے قریش مکہ پر اللہ تعالیٰ کی اس سنت کے نفاذ کا آغاز ہوا،جو اس نے ان قوموں کے لیے طے کر رکھی ہے جن میں وہ اپنے رسول مبعوث کرتا ہے۔ اپنی اس سنت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان یہی ہے کہ تم اس میں کبھی تبدیلی نہیں پاؤ گے۔

ہم یہ جانتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول تھے۔ رسولوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ اپنی قوم پر ہمیشہ غالب رہتے ہیں:

کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِیْ إِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ. )المجادلہ ۵۸: ۲۱)

’’اللہ نے قانون لکھ رکھا ہے کہ میں اور میرے رسول، بالضرور، غالب رہیں گے۔ اور اللہ،بلاشبہ،قوی اور زبردست ہے۔‘‘

رسولوں کے اس غلبے کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ رسول کی قوم کو ایمان نہ لانے کی صورت میں آسمانی عذاب کے ذریعے سے نیست و نابود کر دیا جاتا ہے۔ رسول اور اس کے ساتھی اس عذاب سے محفوظ رہتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ اگر رسول کی قوم میں سے ایک معتدبہ تعداد ایمان لے آئے اور رسول کو ایک دارالہجرت اور اس میں اقتدار بھی میسر آجائے تو پھر یہ عذاب رسول کے صحابہ کی تلواروں کے ذریعے سے آتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم میں سے بھی ایک قابل ذکر تعداد ایمان لے آئی تھی اور انھیں یثرب )مدینہ(میں اقتدار کے ساتھ دارالہجرت بھی میسر آ گیا تھا۔ اس لیے نوح و لوط علیہما السلام کی طرح آپ کی قوم پر آسمانی عذاب نہیں آیا،بلکہ یہ عذاب صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم کے ہاتھوں سے آیا:

قَاتِلُوْہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللّٰہُ بِأَیْْدِیْکُمْ وَیُخْزِہِمْ وَیَنْصُرْکُمْ عَلَیْْہِمْ وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ) .التوبہ۹: ۱۴)

’’ان سے لڑو، اللہ ان کو تمھارے ہاتھوں عذاب دے گا۔اور انھیں رسوا کرے گا۔ تمھیں ان پر غلبہ عطا کرے گا(جس سے) مومنین کے دل ٹھنڈے کرے گا۔‘‘

جنگ بدر قریش پر عذاب الٰہی کے نزول کا پہلا مرحلہ تھا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتے تھے کہ جب مشرکین مکہ نے قافلۂ تجارت کی حفاظت کے بہانے مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کر ہی لیا ہے تو اب ان کو بچ کر نہ جانے دیا جائے۔ ان پر اس عذاب کی پہلی قسط نازل کر دی جائے جو اللہ نے رسولوں کو جھٹلانے والی قوموں کے لیے لکھ رکھا ہے تاکہ کفر کی جڑ کٹ جائے اور اسلام کا بول بالا ہو:

وَیُرِیْدُ اللّٰہُ أَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمَاتِہٖوَیَقْطَعَ دَابِرَ الْکَافِرِیْنَ. (الانفال ۸: ۷)

’’ اور اللہ (اس جنگ سے) چاہتا ہے کہ وہ حق کا بول بالا کرے اور کافروں کی جڑکاٹ کر رکھ دے۔‘‘

جنگ بدر کا عذاب قوم قریش کو نیست و نابود کرنے ہی کے لیے نہیں، بلکہ ’لاغلبن انا ورسلی‘کی سنت الٰہی کے مطابق غلبۂ رسول کے لیے فیصلہ کن بھی تھا۔ اس جنگ کا انجام حیرت انگیز طور پر یہ ہو ا کہ اس جنگ میں شریک قریش کے بڑے بڑے سردار مارے گئے اور ان کی کارفرما قوت و قیادت کم و بیش ختم ہو گئی۔ اس لحاظ سے جنگ بدر رسول کو جھٹلانے کے جرم میں نازل ہونے والے عذاب کی پہلی قسط تھی۔

مکہ میں موجود سرداروں میں سے ابو لہب اس جنگ میں شریک نہیں ہوا۔ اس نے اپنی جگہ اپنے ایک قرض دار کو بھیج دیاتھا۔ مگر اس کے باوجود ابو لہب کا انجام سرداران قریش سے مختلف نہیں ہوا،بلکہ ان سے بھی برا ہوا۔ بدر کے بعد سورۂ لہب نازل ۱؂ہوئی جس میں صاف صاف اعلان کر دیا گیا کہ ابو لہب صحابہ کی تلواروں سے تو بچ گیا، مگر اس عذاب سے نہ بچ سکے گا جو اس کے جرم کی لازمی سزا ہے اور قیامت کے دن بھی وہ ضرور دوزخ میں ڈالا جائے گا۔چنانچہ فرمایا:

تَبَّتْیَدَآ أَبِیْ لَہَبٍ وَّتَبَّ مَآ أَغْنٰی عَنْہُ مَالُہٗوَمَا کَسَبَ سَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَہَبٍ وَّامْرَأَتُہٗحَمَّالَۃَ الْحَطَبِ فِیْ جِیْدِہَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ.(اللہب۱۱۱: ۱۔۵)

’’ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ گئے(اُس کے ساتھی مارے گئے)اور خود بھی تباہ ہوا۔نہ اُس کا مال اُس کے کام آسکا اورنہ اُس کی کمائی۔ وہ بھڑکتی آگ میں پڑے گا اور اُس کی بیوی بھی (آگ میں جائے گی اپنا) ایندھن(خود)ڈھوتی ہوئی۔ اس کی گردن میں(ایندھن ڈھونے والیوں کی رسی جیسی) موٹی رسی ہو گی۔‘‘

اس طرح قریش مکہ کی پوری کمان اس جنگ کا لقمہ بن گئی۔ عتبہ ،شیبہ، ابوجہل، ابوالبختری، زمعہ بن الاسود، عاص بن ہشام، امیہ بن خلف اور منبہ بن حجاج جیسے بڑے سردار اس جنگ میں مارے گئے۔ یہ سب قریش کے بڑے سردار تھے۔ان کے علاوہ عباس ،عقیل، نوفل، اسود بن عامر، عبداللہ بن رمعہ اور کئی دوسرے بڑے لوگ گرفتار ہوئے۔چنانچہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ یہ جنگ تکذیب رسول کے جرم پر قریش کے لیے عذاب الٰہی تھی،جس نے قریش کے بیش تر اہم قائدین نگل لیے تھے۔

یہ عذاب، جیسا کہ ہم نے ذکر کیا، رسول کو جھٹلانے والی قوم پر نازل ہوتا ہے۔ ہم نے جنگ بدر کو اس لیے عذاب الٰہی قرار دیا ہے کہ خود قرآن مجید نے سورۂ انفال میں قریش کے اس انجام کو آل فرعون کے انجام سے تشبیہ دی ہے۔ جس طرح فرعون اور اس کے اعیان و اکابر موسیٰ علیہ السلام کا پیچھا کرتے ہوئے غرق دریا ہو گئے تھے۔ اسی طرح قریش کے نمایاں سردار بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھا کرتے ہوئے بدر میں مارے گئے۔ فرمایا:

کَدَأْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ کَفَرُوْا بِاٰیَاتِ اللّٰہِ فَأَخَذَہُمُ اللّٰہُ بِذُنُوْبِہِمْ إِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ شَدِیْدُ الْعِقَابِ.(الانفال۸: ۵۲)

’’اُن کے ساتھ وہی ہوا جو آل فرعون کے ساتھ ہوااور جو ان سے پہلے تھے۔انھوں نے آیات الٰہی کا انکار کیا تو اللہ نے ان کو ان کے جرائم کے بدلے میں پکڑ لیا۔ اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘

پھر فرمایا:

کَدَأْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ کَذَّبُوْا باٰیَاتِ رَبِّہِمْ فَأَہْلَکْنَاہُمْ بِذُنُوْبِہِمْ وَأَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَکُلٌّ کَانُوْا ظَالِمِیْنَ.(الانفال۸: ۵۴)

’’ان کے ساتھ وہی ہوا جو آل فرعون اور ان سے پہلے لوگوں کے ساتھ ہوا۔ انھوں نے اپنے رب کی آیتوں کا انکار کیا تو ہم نے انھیں ان کے جرائم کے بدلے میں ہلاک کر دیا اور آل فرعون کو (دریا میں) غرق کر دیا۔ اور یہ سب کے سب ظالم تھے۔‘‘

 

فیصلہ کن جنگ

دوسری چیز یہ واضح رہنی چاہیے کہ معرکۂ بدر مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے مابین حق و باطل کی کسوٹی کی حیثیت رکھتا تھا۔اس کا معاملہ حنین و تبوک جیسا نہیں تھا۔یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے اسے’یوم الفرقان‘کا نام دیا ہے۔خود قریش مکہ بھی جنگ سے پہلے اسے یہی حیثیت دیتے تھے۔ ابوجہل نے بدر کے میدان میں جو دعا کی اس سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے:

اللّٰھم أعز الفئتین واکرم القبیلتین.(ابن کثیر، جلد۲)

’’اے اللہ،دونوں میں سے عزیز گروہ کو اور عزت دار شریف گروہ کو فتح عطاکر۔‘‘

اور

اللّٰھم اولانا بالحق فانصرہ.(ابن کثیر، جلد ۲)

’’اے اللہ جوحق کے قریب گروہ ہے، اُس کی مدد فرما۔‘‘

ابو جہل کی اس دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ خود کفار مکہ بھی ایک فیصلہ کن جنگ لڑنے کے لیے آئے تھے تاکہ یہ فیصلہ ہو جائے کہ کون حق پر ہے اور کون نہیں۔قرآن مجید نے بھی اس جنگ کو یہی حیثیت دی ہے۔فرمایا:

إِنْ تَسْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَآءَ کُمُ الْفَتْحُ وَإِنْ تَنْتَہُوْا فَہُوَ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَإِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ وَلَنْ تُغْنِیَ عَنْکُمْ فِءَتُکُمْ شَیْْءًا وَّلَوْ کَثُرَتْ وَأَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ.(الانفال۸: ۱۹)

’’اگر تم فیصلہ چاہتے ہو تو تمھارے سامنے (بدر کی صورت میں) فیصلہ آ چکا۔ اگر تم باز آ جاؤ تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے۔اور اگر تم پھر یہی کرو گے تو ہم بھی یہی کچھ کریں گے اور تمھاری جمعیت تمھارے کچھ کام نہ آئے گی، خواہ وہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو،(اس لیے کہ) اللہ مومنین کے ساتھ ہے۔‘‘

یہی وہ چیز ہے جس نے جنگ بدر کو فرقان کی حیثیت دی۔جسے اس آیت میں’الفتح‘ کے لفظ سے اور دوسرے مقام پر’یوم الفرقان‘ کے نام سے تعبیر کیا گیا:

إِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ وَمَآ أَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ.(الانفال ۸: ۴۱)

’’اگر تم اللہ پر اور اُس چیز پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے بندے پر فرقان کے دن، یعنی دونوں لشکروں کی مڈ بھیڑ کے دن نازل کی۔‘‘

 

مسلمانوں کے اصل دشمن

تیسری چیز یہ واضح رہنی چاہیے کہ اس جنگ میں مسلمانوں کے اصل دشمن گو مشرکین مکہ ہی تھے، لیکن انھیں یہود اور منافقین کی پشت پناہی حاصل تھی۔اس لیے یہ جنگ اصل میں منصب امامت سے معزول اہل کتاب،خصوصاً بنی اسرائیل،مشرکین مکہ اور مسلمانوں کے درمیان فیصلہ کی جنگ تھی۔ چونکہ بنی اسرائیل اپنی امامت کے منصب سے محروم ہونے، اپنی دل پسند دینی روایات کی شکست و ریخت اور جزیرہ نماے عرب میں اپنے مقام و مرتبہ کے زوال کو دیکھ کر پریشان تھے،اس لیے وہ مسلمانوں کے ساتھ معاہدے کے باوجود قریش مکہ سے گٹھ جوڑ کیے ہوئے تھے۔چنانچہ عرب میں مسلمانوں کے اصل دشمن یہی یہود اور مشرکین مکہ تھے:

لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ أَشْرَکُوْا.(المائدہ۵: ۸۲)

’’تم لوگوں میں اہل ایمان کے سب سے بڑے دشمن ان یہود اور مشرکین ہی کو پاؤ گے۔‘‘

 

منصب امامت کی منتقلی

جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ یہود اور مشرکین مسلمانوں کے اصل دشمن تھے،اس لیے مدینہ میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ خطر ہ ان یہود ہی سے تھا۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تشریف لاتے ہی یہود کے قبائل سے معاہدے کرنے شروع کر دیے تھے تاکہ وہ مسلمانوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔ ظاہر ہے کہ یہ معاہدے ان کے دلوں سے اسلام کی دشمنی تو نکال سکتے تھے ، اس لیے تحو یل قبلہ کے وقت ان کا جوش اور غیظ و غضب دیدنی تھا۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود اس جنگ میں مشرکین کے ساتھ درپردہ ملے ہوئے تھے۔ براہ راست اقدام وہ اس لیے نہیں کر سکتے تھے کہ معاہدات کی رو سے وہ مسلمانوں کے حلیف تھے ۔ دوسرے اس لیے کہ اس میں ان کی بزدلی بھی آڑے آتی تھی۔ قرآن کا ارشاد ہے:

وَإِذْ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْْطَانُ أَعْمَالَہُمْ وَقَالَ لاَ غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّیْ جَارٌ لَّکُمْ فَلَمَّا تَرَآءَ تِ الْفِءَتَانِ نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیْْہِ وَقَالَ إِنِّیْٓ بَرِیْءٌ مِّنْکُمْ إِنِّیْٓ أَرٰی مَا لاَ تَرَوْنَ إِنِّیْٓ أَخَافُ اللّٰہَ وَاللّٰہُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ.(الانفال۸: ۴۸)

’’اور یاد کرو، جب شیطان نے ان کے اعمال ان کے دلوں میں کھبا دیے اور کہا: آج لوگوں میں سے کوئی نہیں کہ تم پر غالب آ سکے۔اور میں تمھارا پشت پناہ ہوں۔تو جب دونوں گروہ آمنے سامنے ہوئے تو وہ اُلٹے پاؤں بھاگا،اور بولا کہ میں تم سے بری ہوں۔میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں وہ تم نہیں دیکھتے۔میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ سخت سزادینے والا ہے۔‘‘

امام امین ا حسن اصلاحی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’سیرت و مغازی کی کتابوں سے بھی اور قرآن کے ارشادات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہود شروع ہی سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے خائف تھے۔ ابھی آپ مکہ ہی میں تھے کہ انھوں نے طرح طرح سے قریش کو آپ کے خلاف اکسانا شروع کر دیا۔مدینہ ہجرت فرمانے اور آپ کو انصار کی حمایت حاصل ہو جانے کے بعد تو خاص طور پر انھوں نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا کہ ان کے سینے پر پتھر کی ایک بھاری سل رکھ دی گئی ہے۔ مستقبل کے سیاسی اندیشوں کے علاوہ خود اپنے صحیفوں کی پیشین گوئیوں کی بنا پر بھی ڈرتے تھے کہ مبادا یہ وہی پیغمبر ہوں جن کا ذکر ان کے ہاں پہلے سے چلا آرہا ہے۔

اپنی بزدلی کے سبب سے وہ آپ کے خلاف براہ راست کوئی اقدام کرنے کی جرأ ت بھی نہیں کر سکتے تھے۔البتہ، درپردہ، وہ قریش کے لیڈروں کو برابر اکساتے رہے اورمدینہ میں اوس و خزرج کے اندر بھی ساز باز کرتے رہے۔ ایسے حالات میں یہ بات با لکل قرین قیاس ہے کہ قریش نے جب قافلہ کی حفاظت کے بہانے مدینہ پر حملہ کی اسکیم بنائی ہو تو اس میں یہود کا مشورہ بھی شامل رہا ہو۔اور انھوں نے قریش کو ورغلایا ہو کہ اول تو تمھاری بھاری جمعیت خود ہی مٹھی بھر مسلمانوں کو کچل دینے کے لیے کافی ہے، لیکن ضرورت پڑی تو ہم بھی تمھاری مدد کو حاضر ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۴۹۰)

چنانچہ اس آیت کے مطابق شیطان یعنی یہود ۲؂میدان بدر سے بھاگ نکلے۔اس طرح گویاشیطان کے خلاف، جو انسان کا ازلی دشمن ہے اور اس کے پیروکاروں کے خلاف شکست کا فیصلہ سنا دیا گیا۔مختصراً یہ کہ بدر کی فتح عرب میں شرک کی قوتوں کی شکست تھی اور پورے عرب پر اس حکومت کے قیام کے لیے پہلی بڑی فوجی کا رروائی تھی جس کو سیدنا مسیح علیہ السلام نے ’’خدا وند کی پادشاہی‘‘ قرار دیا تھا۔

چونکہ بنی اسرائیل بھی امامت کے منصب سے معزول کیے جا رہے تھے اور یہ منصب اب امت مسلمہ کو سونپا جانے والا تھا،اس لیے جنگ بدر،اس معزولی اور اس ذمہ داری کے سونپنے کی وہ اہم کڑی ہے کہ جس نے ہوا کا رخ ٹھیک ٹھیک متعین کر دیا تھا کہ قدرت الٰہیہ کا منشا اس نوخیز ملت اسلامیہ کے بارے میں کیا ہے۔یادرہے کہ اس جنگ سے تھوڑے ہی دن پہلے شعبان ۲ھ کو تحویل قبلہ کے احکام نازل ہوئے اور ٹھیک اگلے ماہ، رمضان میں بدر کا معرکہ پیش آیا۔تحویل قبلہ، یہود کی معزولی اور بدر کا معرکہ فتح مکہ کا پتا دے رہے تھے۔گویا یہ اس عظیم تبدلی کے لیے ابتدائی اقدامات تھے جس کے نتیجے میں بنی اسرائیل منصب امامت سے معزول کیے جا رہے تھے اور قریش مکہ ابراہیم علیہ السلام کی میراث سے محروم کیے جانے والے تھے، الاّیہ کہ وہ ایمان لے آئیں۔

[۱۹۹۲ء[

_________

 

۱؂مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے: ’’تدبر قرآن‘‘ ،امین احسن اصلاحی: جلد ۹، تفسیر سورۂ لہب۔

۲؂بعض مورخین نے اس آیت میں مذکورہ شیطان سے ابلیس مراد لیا اور کہا ہے کہ ابلیس سراقہ بن مالک بن جعشم مدلجی کے روپ میں آیا اور قریش کو اپنی تائید و نصرت کا یقین دلایا،لیکن عین لڑائی میں بھاگ نکلا۔حارث بن ہشام نے اسے پکڑ لیا ،لیکن اس نے ایسی ضرب لگائی کہ حارث گر گیا اور سراقہ پھر بھاگ نکلا۔قریش نے کہا کہ سراقہ کہاں بھاگے جاتے ہو؟کیا تم نے مدد کا وعدہ نہیں کیا تھا کہ ہم سے جدا نہیں ہو گے؟تو اس نے کہا:میں وہ چیز دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے۔مجھے اللہ سے ڈر لگتا ہے۔اور اللہ بہت سخت سزا دینے والاہے۔اس کے بعد وہ سمندر میں کود گیا۔ 

یہ بات، ہماری رائے میں،ٹھیک نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس’شیطان‘ سے ابلیس صرف اسی صورت میں مراد لیا جا سکتا تھا، جب اس کانام لیا جاتا یا پھر کلام میں کوئی ایسا قرینہ ہوتا جو اس کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ۔شیطان سے جن وانس کے سب اشرار مراد ہو سکتے ہیں۔اس لیے جیسا کہ ہم نے اوپر ذکرکیا،اس ’شیطان‘ سے مراد’یہود‘ ہیں۔ دراصل مکالمے کے جملے ’انّی جارلکم‘ اور ’انّی بریء منکم‘ ایسے جملے ہیں کہ جو کسی ظاہری کردار کا تقاضا کرتے ہیں۔اسی وجہ سے لوگوں نے ’شیطان‘ کو ’سراقہ مدلجی‘ کا روپ دے دیا،جبکہ درحقیقت ایسانہیں ہے۔البتہ، اتنی بات کہی جا سکتی ہے کہ شیطان یعنی ابلیس اور اس کی ذریت اس سارے عرصے میں وسوسہ اندازیاں کرتے رہے ہوں گے اور یہود و قریش اس کے آلۂ کاربن گئے ہوں۔اس واقعہ پر جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے،کئی عقلی و واقعاتی اعتراضات بھی وارد ہوتے ہیں جن کے نقل کرنے کا یہاں موقع نہیں ہے۔

___________________

B