اندھیری رات ہو، بادل چھائے ہوئے ہوں، آندھی بھی چل رہی ہو اور تیز بارش اس آندھی کو طوفان بادوباراں کی صورت دے دے تو ایسے میں دیواروں کے پیچھے جلتے چراغ بھی بجھ جاتے ہیں۔
تقلید کا دور بھی علم و تحقیق کے چراغوں کے لیے کچھ ایسی ہی طوفانی رات ہے۔ اس میں اول تو چراغ جلانا ہی دشوار ہے اور اگر کوئی مرد درویش یہ چراغ روشن کر ہی لے تو یہ آندھیاں اور طوفان گویا ہروادی اور صحرا کو بھول کر اس چراغ کا رخ کرلیتے ہیں۔ کفر و انکار کے فتووں سے لے کر تذلیل و اہانت تک کے ہر طوفان کو اس چراغ پر آزمایا جاتا ہے۔ نہ جانے اس کی وجہ کیا ہے۔ شاید یہ روشنی لوگوں کو پسند نہیں ہوتی یا پھر ان چراغوں کو بجھانے کی سعی و جہد کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ:
اپنی محرومی کے احساس پہ شرمندہ ہیں
خود نہیں رکھتے تو اوروں کے بجھاتے ہیں چراغ
ان طوفانوں سے چراغ کو بچانے کے لیے ہاتھ کے پیالے سے کام لیجیے تو ہاتھ جلتے ہیں، دامن کا سہارا لیجیے تو وہ بھڑک اٹھتا ہے اور اگر اس سعی سے باز آ جائیے تو چراغ بجھتا ہے۔ گویا،
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے
ایسے ہی ایک طوفانی ماحول میں ایک چراغ کم و بیش ساٹھ سال تک روشن رہا، وہ بارہا ٹمٹمایا، تھرایا، سنبھلا اور پھر بالآخر بجھ گیا۔
مولانا حبیب الرحمن کاندھلوی اس رمضان المبارک میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کے حدیث کے میدان میں علمی کارنامے اپنی جگہ، ہماری نظر میں ان کا مقام اس لحاظ سے بہت بلند ہے کہ انھوں نے اپنی تحقیق سے جس بات کو حق سمجھا، اسی کو حق کہا اور جس کو ناحق پایا، اس کی تردید میں کبھی کوئی مصلحت پیش نظر نہیں رکھی۔
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
ان کی اس ہمت کی قدر و قیمت اس لحاظ سے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ انھوں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ تقلید اور جمود کا ماحول ہے، لیکن اس ماحول کا ایک حصہ ہوتے ہوئے بھی وہ ہمیشہ طائر بلند پرواز کی طرح ان پابندیوں سے آزاد رہے اور حق بات بے جھجک کہتے رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بے سرو سامانی کی وجہ سے ان کی تصانیف ان کی عمر کے آخری دور میں شائع ہو سکیں۔
چراغ صبح تک جلتے ہیں، بعض چراغ پو پھٹنے سے پہلے ہی بجھ جاتے ہیں۔ وہ سحر تو دیکھ نہیں پاتے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ وہ شب زندہ داروں کے لیے رات کی ظلمتوں میں مینارۂ نور ہوتے ہیں، راہ دکھاتے اور راہ روان شوق کا حوصلہ بھی بڑھاتے ہیں۔ مولانا نے علم و تحقیق کے افق پر طلوع آفتاب تو نہیں دیکھا، لیکن ان کی وجہ سے وادی علم کے سیاحوں کے لیے ایک طویل راہ ہموار ہو گئی ہے۔
اللہ مولانا کی خطاؤں سے درگزر فرمائے اور انھیں اپنی رحمت کے سایوں میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین
[۱۹۹۱ء]
___________________