HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Sajid Hameed

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

فراہی سیمینار

 

’’مدرستہ الاصلاح‘‘ کے در و دیوار مہمانان گرامی کے منتظر ہیں۔ مدرسہ کا نو تعمیر شدہ ہال آنے والوں کے قدموں میں بچھا جا رہا ہے۔ لوگ آ کر بیٹھتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ سب کسی کھوئے ہوئے کی جستجو میں آ بیٹھے ہیں۔ دلوں میں کسی کی یاد ماضی کے پردوں کے پیچھے جھانکنے پر مجبور کر رہی ہے۔ بعض ذہنوں میں ماضی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ نگاہوں میں دوڑ رہا ہے: حمید الدین فراہی علیہ الرحمہ سادہ وباوقار لباس، ترکی ٹوپی، بے تسموں کے جدید طرز کے جوتے، چہرے پر ایک شان استغنا، ایک وقار اور سنجیدگی، زہد و ورع کا پیکر، ترجمان القرآن، مجسمۂ اذعان و ایقان، صاحب نظام القرآن۔اپنے کمرے سے نکل کر درس کے کمرے کی طرف رواں:

 

اے غائب از نظر کہ شدی ہم نشیں دل

 

درس جاری ہے۔ لفظ و معنی کا رشتہ قائم ہے۔ سمع و فواد فیض یاب ہو رہے ہیں اور عالم یہ ہے کہ:

 

نشاط بادہ پرستاں بہ منتہیٰ بہ رسید

ہنوز ساقی ما بادہ در سبو دارد

 

ہال لوگوں سے بھر چکا ہے۔ اس میں اہل علم اور علم دوست لوگوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔ مگر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کسی کو آنا تھا جو ابھی نہیں آیا۔ لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں: مولاناامین احسن تشریف لائے یا نہیں؟ مگر جواب نفی میں ملتاہے۔ حسرت کہ مدرسہ کے سابق استاد، حمید الدین کے’ امین‘ بڑھاپے کی وجہ سے بھارت کا سفر نہ کر سکے۔ ’’مدرستہ الاصلاح‘‘ کہتا رہا کہ کسی اور کو بھی تو آنا تھا! آہ کہ

 

وکم من بعید الدار مستوجب القرب

 

مگر مولانا کا بڑھاپا پاؤں کی زنجیر بن گیا ہے۔ یہ مرد آزاد اس بڑھاپے کے ہاتھوں پابند ہے۔ اس وقت یہ پابندی دل آرزو مند پر بطور خاص گراں رہی ، لیکن بے تابی شوق کا عالم یہ رہا کہ ثقل سماعت کے باوجود انھوں نے اس سیمینار کی روداد شیخ سلطان احمدصاحب سے سنی اور دیر تک سنتے رہے: 

 

دیوانگاں ہزار گریباں دریدہ اند

دست طلب بہ دامن صحرا نہ می رسد

 

شیخ سلطان احمد صاحب نے سیمینار کی روداد سناتے ہوئے فرمایا: 

یہ سیمینار بہت کامیاب رہا۔ ہر مجلس میں ڈیڑھ دو سو حاضرین تو ضرور موجود رہے اور تیسرے دن تک یہ جذب و شوق دیکھنے کو ملتا رہا۔ اس سیمینار کا افتتاح مولانا ابوالحسن علی ندوی نے کیا۔ کہتے ہیں کہ ستر کے قریب مقالے موصول ہوئے۔ تین دن کے اس پروگرام میں ان سب کا سن لینا ناممکن نظر آتا تھا۔ سب مقالہ نگار اپنا اپنامقالہ پڑھنا چاہتے تھے۔ مگر وقت کی قلت کے باعث کچھ مقالے نہیں پڑھے جا سکے۔ چنانچہ انتظامیہ نے بعد میں سب مقالے چھاپنے کا ارادہ کیا ہے۔یہ مقالے مولانا فراہی کی زندگی، ان کے علوم و فنون اور فکر و فلسفہ کے حوالے سے لکھے گئے تھے۔

 

للناس فیما یعشقون مذاھب

 

اعظم گڑھ میں اس پروگرام پر اتنے لوگوں کا جمع ہونا، علما کا اس تعداد میں مقالے لکھ کر لانا، فکرفراہی کی حقانیت کو تسلیم کرنا اور حمید الدین فراہی کے کام کا اعتراف کرنا، اس چیز کی دلیل ہے کہ یہ فکر اب اگر اللہ نے چاہا تو اس دنیا میں قائم رہے گا۔

اس سیمینار نے ہمیں یہ دکھا دیا ہے کہ وہ ’’ فکر فراہی‘‘ جو کبھی لوگوں کے لیے ایک اجنبی سی چیز تھا، اب ہندوستان کے اہل علم و دانش کے لیے اجنبی نہیں رہا۔ اس فکر کے شدید ترین مخالف اس کی دن بدن ترقی سے مرعوب ہیں۔ بے خبر اس فکر کو جاننے لگے اوراس پر سوچنے اور غور کرنے کے لیے آمادہ نظر آتے ہیں۔ ’’مدرستہ الاصلاح‘‘میں برسوں کے کام نے کئی لوگ پیدا کر دیے ہیں جو اس فکر کی، اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق، خدمت کر رہے ہیں۔ اپنے، پرائے سب دم بخود ہیں کہ اس سیمینار میں ہندوستان کے تمام علمی حلقوں سے لوگ آئے۔’’دارالمصنفین‘‘ اور ’’جامعۃ الفلاح‘‘ سے بھی احباب نے شرکت کی۔ اب ’’ مدرستہ الاصلاح‘‘ ،بلاشبہ، یہ کہنے کا حق رکھتا ہے کہ: 

 

اذا قلت شعرأ اصبح الدھر منشدأ

 

یہ پروگرام روزانہ تین نشستوں میں ہوتا۔ پہلی نشست ظہر تک چلتی۔اس کے بعدطعام و آرام کے لیے وقفہ رہتا۔ پھر یہ نشست عصر کے بعد دوبارہ شروع ہوتی اور مغرب تک چلتی۔ مغرب کے بعد تیسری نشست عشا پر جا کر ختم ہوتی تھی۔ یہ پروگرام ’’مدرستہ الاصلاح‘‘ کے زیر تعمیر ہوسٹل میں ہوا۔اس کی نامکمل عمارت ایک بڑے ہال کی مانند ہے۔ اسی سے جلسہ گاہ کا کام لیا گیا۔ مہمان ہوسٹل کے کمروں میں ٹھہرائے گئے۔ انتظامات ہر لحاظ سے بے مثال تھے۔

’’مدرستہ الاصلاح‘‘ نے پچھلے سالوں میں خوب ترقی کی ہے۔ اس وقت مدرسہ میں سات سو کے قریب طلبہ زیر تعلیم ہیں۔بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر نئی عمارت بنائی جا رہی ہے۔ ’’مدرستہ الاصلاح‘‘ اب شان دار عمارتوں کی صورت میں نمایاں ہے۔ امام حمید الدین فراہی اور مولانا امین احسن صاحب اصلاحی کے کمروں کو اسی طرح محفوظ کر لیا گیا ہے تاکہ ان کی یاد گار رہے۔

مولانا اصلاحی نے یہ روداد سنی تو فرمایا: خدا کا شکر ہے کہ یہ سیمیناربہت کامیاب رہا۔ ’’مدرستہ الاصلاح‘‘ والوں کی انتظام و انصرام کی صلاحیت تو ان دنوں بھی مشہور تھی جب ان کے پاس وسائل نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس کی کامیابی کی خبر وہ آخری خوشی ہے جو مجھے حاصل ہوئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ میری زندگی کے کچھ دن بڑھ گئے ہیں۔

[۱۹۹۱ء]

___________________

B