علوم قرآنی میں دور جدید کا خالق، معارف اسلامی کی تشکیل جدید کا نقیب، فکرو فلسفہ کی تجدید کا سامان ساز، حدیث وسنت کے گم کردہ باب کا فاتح، قدیم و جدید کا رمزشناس، ’’حقیقت شرک و توحید‘‘ اور’’حقیقت تقویٰ‘‘ کا مؤلف، ’’مقالات اصلاحی‘‘ کا مقالہ نگار، ’’دعوت دین اوراس کا طریق کار‘‘ کا مصنف، ’’مجموعۂ تفاسیر فراہی‘‘ کا مترجم، عائلی کمیشن کی رپورٹ کا تنقید نگار، امام امین احسن اصلاحی، آج ہم میں موجود نہیں۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
آج سے دو ڈھائی سال پہلے جب امام امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ نے اپنی علالت اورضعف قویٰ کی بنا پر درس قرآن و حدیث کا سلسلہ بند کیا تو نہ جانے کیوں ذہن میں یہ مصرع، جسے میں نے عنوان بنایا ہے، خود بخود موزوں ہو گیا تھا۔ لیکن یہ مصرع آگے بڑھ کرنظم کی صورت میں ڈھل نہ سکا۔
آج جب مولانا کی وفات کی خبر سنی تو یہ’’بزم سخن‘‘ کی ترکیب کاروان علم و عرفاں میں بدل گئی۔ مجھے خیال ہوا کہ معارف اسلامیہ کی تشکیل جدید کے لیے امام فراہی سے جو علم کا قافلہ چلا تھا، اس کا ایک اور امام رخصت ہوگیا۔ وہ ثانی اثنین چل بساجو پہلے کے علم وفکر کا امین تھا۔ وہ اصلاحی رخصت ہو گیا جو علم قرآن کی تجدید و اصلاح میں فراہی سے کسی طرح کم نہیں تھا۔وہ انبیاے بنی اسرائیل کا مثیل رخصت ہوگیا، جس نے احیاے امت کے لیے اسی شاخ تاک کی باغبانی کی جسے انبیا بوتے اور اس کی آب یاری کرتے آرہے تھے۔ وہ طوبیٰ کا سزا وار چلا گیا جو اس امت میں اجنبی تھا۔ ۱
یہ سب کچھ غلط نہیں ہے۔ مولانا کو میں نے پچھلے دس بارہ برس سے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ان کے ہفتہ وار درس قرآن و حدیث کی نشست میں باقاعدہ حاضری کے ساتھ ساتھ ہر ہفتہ میں ایک دن استاد گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی اور چند احباب کی معیت میں فجر کے بعد ان کے گھر بھی حاضر ہوتا رہا۔ ان ملاقاتوں میں ان کی طبیعت اور مزاج کے کئی پہلو سامنے آئے۔
ان کی جس چیز نے مجھے گرویدہ کیا، وہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسے انسان تھے جس نے ’رضیت باللّٰہ ربا‘کا سبق خوب پختگی سے یاد کررکھا تھا۔ میں نے انھیں علمی آرا دیتے، سیاسی تبصرے کرتے، تنقید اور تعریف سنتے، فکر و نظر کی گتھیاں سلجھاتے اور خاموش بیٹھے، غرض کئی مواقع پر دیکھا ہے۔
مولانا کو میں نے بڑھاپے کے اس حصے میں دیکھا ہے جب قویٰ مضمحل ہو چکتے، قلب و ذہن کی فعالیت ختم ہو جاتی، لیکن مولانا عمرکے اس حصے میں بھی پوری طرح چاک و چوبند اور توانا دکھائی دیتے تھے۔ وہ درس قرآن و حدیث کی تیاری کے لیے باقاعدہ مطالعہ کرتے۔ بخاری کے درس کے لیے دو تین شروح پڑھتے، ان کے مباحث کا ناقدانہ تجزیہ کرتے، ان کی غلطیوں کی نشان دہی کرتے اوراس شان سے درس دیتے کہ یہ محسوس نہ ہوتا کہ کوئی کہن سال بزرگ درس دے رہا ہے۔
اسی طرح فجر کے بعد کی نشستوں میں بھی ایک زندہ دل اور تازہ دم بزرگ سے ملاقات رہتی۔ کئی سال جاری رہنے والی ان نشستوں میں ایک دن بھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ اسی نوے سال کی عمرکے باوجود صبح سویرے اٹھنے سے عاجز رہے ہوں یا بڑھاپے کی کمزوری اور بے ہمتی نے انھیں ہم سے ملنے سے روک دیا ہو، بلکہ ہم جب بھی گئے، انھیں جاگتے اور انتظار کرتے ہوئے پایا۔ یہ سب کچھ ان کی قوت ارادی کا کرشمہ تھا۔ صبح کی نشستوں کا یہ سلسلہ دو ڈھائی سال پہلے ان پر فالج کے حملے کے بعد رکا ۔
علمی گتھیوں کو سلجھانے کی قوت بھی پوری طرح اب تک ان میں موجود تھی۔ بہت سی مشکل احادیث کی انھوں نے نہایت عمدگی سے توضیح کی، ان کا صحیح موقع ومحل متعین کیا، غریب الفاظ کے صحیح معنی تک پہنچے ، جس سے روایت روزروشن کی طرح واضح ہو جاتی۔ اسی طرح بخاری کی مشکلات کو بھی انھوں نے حل کیا ۔وہ کہا کرتے تھے:بخاری حدیث کی کتاب نہیں،بلکہ امام بخاری کی فقہ کا مجموعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری پہلے، باب کے نام سے، اپنا فتویٰ درج کرتے ہیں پھراس کی تائید میں روایات لاتے ہیں۔
مزاج میں بڑھاپے کی یبوست بھی نہیں تھی، نہایت خوش گوار انداز میں ملتے۔ ایک خاص طرح کی طنز، ان کی طبیعت کا خاصا تھی۔ میں شروع شروع میں ان کی مجالس میں خاموش رہتا۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں ان کی فجر کی مجلس میں حاضر نہ ہو سکا۔ اگلی دفعہ جب میں حاضر ہوا تو فرمایا:’’ آپ کہیں گئے ہوئے تھے۔‘‘ میں نے ہاں میں سر ہلادیا اور خاموش رہا۔ اس کے بعد دوسرے موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ مجلس کے اختتام پر ہم اٹھے اور ان سے ہاتھ ملانے لگے۔ جب میں نے ان سے ہاتھ ملایا تو بولے:آپ کچھ بولتے نہیں، انسان کی تعریف’’حیوان ناطق‘‘کی گئی ہے۔‘‘
مولانا اپنے بلندعلمی مقام کے باوجود چھوٹے بڑے کی تنقید بڑی توجہ اورمحبت سے سنتے تھے۔ ایک دفعہ صبح کی نشست میں، میں نے ان سے ایک اختلافی سوال کیا تو فرمایا:’’آپ اپناسوال چھوڑ جائیں، میں غور کروں گا۔‘‘اگلے ہفتے جب ہم ان کے گھر پہنچے اور ملاقات کے کمرے میں جاکر بیٹھ گئے۔ مولانا ذرا دیر سے آئے، ان کے ہاتھ میں ان کی کتاب’’مبادی تدبر حدیث‘‘ تھی۔ میری طرف وہ کتاب بڑھا کر گویا ہوئے:’’یہ آپ کے لیے ہے، میں نے بڑی مشکل سے اس پر دستخط کیے ہیں۔ آپ کی رائے ٹھیک تھی۔‘‘ یہ گویا میری حوصلہ افزائی کے لیے ان کی طرف سے انعام تھا۔
مولانا کے یہ الفاظ اور یہ حوصلہ افزائی میرے لیے ناقابل یقین امر تھا۔ یہ وہ دن تھا جب میں نے یہ جانا کہ مولانا فی الواقع صاحب علم ہیں۔ وہ چاہتے تو مجھے ٹال سکتے تھے۔ میرے اعتراض کو محض اپنی شخصیت کے زورپر ردکر سکتے تھے، لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ جس سے میری نگاہ میں مولانا کا مقام اوربلند ہو گیا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ’لا یضرھم من خذلھم‘ والی روایت مجھے پہلی مرتبہ سمجھ میں آئی، جس میں فرمایا گیا ہے کہ ایسے اہل علم اپنے مخالفین پر ہمیشہ غالب رہیں گے۔ یہ روایت انھی خوبیوں کے حامل علما کے باب میں وارد ہے۔ جن کا جینا اور مرنا حق کے لیے ہوتا ہے، وہ آخر کیسے مغلوب ہو سکتے ہیں ؟
مولانا ایسے ہی ایک حق پرست تھے۔ میں نے صوفیا کے بارے میں بڑوں سے سن رکھا تھا کہ حق ان کے ساتھ گردش کرتا ہے، لیکن مولاناکو میں نے دیکھا کہ وہاں چلے جاتے جہاں حق انھیں لے جاتا۔شاید یہی وصف تھا، جس کی بنا پر وہ ایسی تفسیر لکھنے میں کامیاب ہوئے کہ جو فی الواقع قرآن کی تفسیر ہے۔ جس میں ان کا اپنا فکر و فلسفہ داخل نہیں ہو سکا۔
مولانا ایک متقی شخص تھے، لیکن کبھی اپنے تقویٰ کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا۔ جب بھی اس طرح کے کسی موضوع پر بات ہوتی، اپنی کوتاہیوں کا ذکر کرتے۔
ایک مرتبہ ہمارے کسی دوست نے ان سے پوچھا کہ نماز میں خیال کی یکسوئی کیسے حاصل کی جائے۔ فرمانے لگے:’’آدمی کو بتدریج اس مقام تک پہنچنا چاہیے کہ وہ ساری نماز کامل یکسوئی سے پڑھ سکے۔ میں مشکل سے ایک عرصہ تک فاتحہ کی یہ آیت دعا،’اھدنا الصراط المستقیم‘ہی پر توجہ دے پاتا تھا۔‘‘مولانا اگر یہ بھی فرما دیتے کہ انھیں تو یہ مسئلہ کبھی درپیش نہیں ہوا تو ہم انکار نہیں کر سکتے تھے۔
مولانا کا مرض الموت جب طوالت پکڑگیا تونہ جانے کیسے کیسے سوالات ذہن میں ابھرتے۔ ان سوالوں میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ آیا مولانا سے اللہ راضی نہیں ؟ اس کے جواب میں کبھی میں اپنے آپ کو یہ کہہ کر حوصلہ دیتا کہ اس طرح اللہ انھیں گناہوں سے پاک کر رہا ہے۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کو بھی یاد کر لیتا اورتسلی پالیتا کہ آخری وقت کی تکلیف اللہ کی ناراضی کی علامت نہیں ہے، لیکن ان تمام تسلیوں کے باوجودایک خدشہ اور بھی تھا کہ کہیں تکلیف کی شدت میں کوئی ایسا کلمہ ان کی زبان سے نہ نکل جائے جو ان کے لیے مواخذے کا سبب بن جائے۔
لیک یہ خدشات اس وقت دم توڑ گئے جب ایک دن ہم کچھ دوست ان کی تیمار داری کرنے گئے۔ ان کے خدمت گار سے مولانا کا حال پوچھاتو اس نے بتایا کہ:’ ’مولانا اب کافی بہتر ہیں، اب بات کا جواب اشارے کنایے سے دینے لگے ہیں۔‘‘ ان کے حق میں جو بات اس نے بتائی وہ یہ تھی کہ :’’آج ظہر کے وقت میں نے مولانا سے کہا کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے تو مولانا نے بلا تامل اپنے ہاتھ سینے پر باندھ لیے۔‘‘مولانا نے نماز پڑھی یا نہیں، میں نے یہ بات جان لی کہ وفا کا یہ پیکر کل کی طرح آج بھی خدا کا وفا شعار بندہ ہے۔
مولانا کی نماز جنازہ میں جب لوگ سینے پر ہاتھ باندھے کھڑے تھے تو میں مولانا کے ان بندھے ہوئے ہاتھوں کو اپنی نم آلود آنکھوں سے دیکھ رہا تھااور دعا کر رہاتھا: ’اللہم اغفر لہ ذنوبہ، وارزقہ دارا خیرا من دارہ و اہلا خیرا من اہلہ، وادخلہ فی عبادک و ادخلہ فی جنتک‘۔
[۱۹۹۸ء]
_________
۱ان جملوں میں ۱۔ ’علما ء امتی کأنبیاء بنی اسرائیل‘ ۲۔ ’بدا الاسلام غریباً‘، روایتوں کی طرف اشارہ ہے۔
___________________