عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: ’من حمل السلاح علینا، فلیس منّا‘.(متفق علیہ اصحاب الصحاح واحمد بن حنبل)
ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے ہمارے خلاف ہتھیار اُٹھائے،وہ ہم میں سے نہیں۔
’ہمارے‘ سے مراد ریاست اسلامیہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ اسلامی ریاست کے حکمران کی حیثیت سے ارشاد فرمایا ہے۔ ’حمل علینا‘ میں ’علینا‘ کے الفاظ عربیت کے قاعدے کے مطابق ’ریاست اسلامیہ‘ یا دوسرے الفاظ میں’جماعۃ المسلمین‘ کے معنی پر دلالت کر رہے ہیں۔
’ہتھیار اٹھانے‘ سے مراد ریاست اسلامیہ کے خلاف باغیانہ اقدام ہے، جس کا مقصد فساد و ابتری ہو۔ اسلاف بھی اس سے یہی مراد لیتے ہیں۔ابن حجر فرماتے ہیں:
لا یتناول من قاتل البغاۃ من اھل الحق فیحمل علی البغاۃ وعلی منبدأ بالقتال ظالمًا.(فتح الباری ۱۳/ ۲۳)
’’بغاوت کچلنے والے، اہل حق اس حکم کی زد میں نہیں آتے،اس حکم کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جو باغی ہیں اورجو نا حق خون بہائیں۔‘‘
چنانچہ،اس حکم کے تحت وہ تمام جرائم آ جائیں گے جو نظم ریاست کے خلاف ہوں، جن سے ریاست میں ایسی بدامنی پھیل جائے کہ لوگ اپنی جان،مال اور عزت کی طرف سے خطرے میں مبتلا ہو جائیں۔اسی طرح وہ تمام جرائم جو حکومت کے لیے’لا اینڈ آرڈر‘ (Law and Order) کا مسئلہ پیدا کردیں،وہ بھی اسی حکم کے تحت آئیں گے،جیسے دہشت گردی اور تخریب کاری وغیرہ۔ اس مقصد کے لیے جو بھی جرم کیا جائے خواہ وہ قتل، ڈکیتی، رہزنی اور زنا بالجبر ہو یا مسلح بغاوت، وہ جرم اسی حکم کے تحت آئے گا۔
۳۔ قرآن مجید نے بغاوت جیسے جرائم کو اللہ اور رسول سے جنگ قرار دیا ہے اور اس کے مجرموں کے لیے سخت سزاؤں کا حکم دیا ہے:
إِنَّمَا جَزآؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗوَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا أَنْ یُّقَتَّلُوْٓا أَوْ یُصَلَّبُوْٓا أَوْ تُقَطَّعَ أَیْْدِیْہِمْ وَأَرْجُلُہُمْ مِّنْ خِلَافٍ أَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ذٰلِکَ لَہُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَلَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ.(المائدہ ۵: ۳۳)
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے بغاوت کرتے ہیں اور ملک میں فساد برپا کرنے میں سرگرم ہیں،ان لوگوں کی سزا تو بس یہ ہے کہ عبرت ناک طور پر قتل کیے جائیں یا سولی پر لٹکائے جائیں یا ان کے ہاتھ اور پاؤں بے ترتیب کاٹ ڈالے جائیں یا علاقہ بدر کر دیے جائیں ۔یہ ان کے لیے اس دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بھی، ان کے لیے ایک عذاب عظیم ہے۔‘‘
اسی آیت کے آخری جملے ’یہ ان کے لیے اس دنیا میں رسوائی ہے او رآخرت میں بھی ان کے لیے ایک عذاب عظیم ہے۔‘کو مد نظر رکھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیر بحث حدیث میں یہ فرمایا ہے کہ ’وہ ہم میں سے نہیں‘اسے اس آیت کی روشنی میں سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ان کے لیے درد ناک سزائیں ہیں اور آخرت میں درد ناک عذاب۔ گویا، وہ نہ دنیا میں’جماعۃ المسلمین‘کے فرد رہے اور نہ آخرت میں ان کے ساتھ مومنین جیسا برتاؤ کیا جائے گا۔
[۱۹۹۳ء]
___________________