HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Sajid Hameed

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

میت پر ماتم

 

عن ابی بردۃ بن ابی موسٰی قال: وجع ابو موسٰی وجعا فغشی علیہ وراسہ فی حجر امراۃ من اھلہ ]واقبلت امراتہ ام عبد اللّٰہ تصیح برنۃ[ فلم یستطیع ان یرد علیھا شیئا فلما افاق، فقال: انا برئ مما برئ منہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، الم تعلمی ما قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم؟ وکان یحدثھا: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: انا برئ من الصالقۃ والحالقۃ والشاقۃ. (بخاری، کتاب الایمان۔ مسلم، کتاب الایمان۔ مسند احمد)

ابو بردہ فرماتے ہیں کہ ان کے باپ ابو موسیٰ کو ایک مرتبہ ایک ایسی تکلیف ہوئی کہ ان پر بے ہوشی طاری ہوگئی ،اس وقت ان کا سر گھر کی کسی خاتون کے زانو پر تھا۔ ]ان کی بیوی اُم عبد اللہ بلند آواز سے چیختی چلاتی آئیں۔[ ابو موسیٰ تکلیف کی وجہ سے انھیں روک نہ سکے۔ چنانچہ جب انھیں افاقہ ہوا تو انھوں نے فرمایا: میں اس چیز سے بری ہوں، جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے براء ت کا اظہار فرمایا۔ پھر انھوں نے ام عبد اللہ سے فرمایا:کیا تمھیں معلوم نہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا؟ اور پھر انھوں نے یہ حدیث بیان فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میں میت پر چیخنے والی، ماتم کے لیے سر منڈانے والی اور سینہ پیٹتے ہوئے کپڑے پھاڑنے والی عورتوں( کے ان برے افعال) سے بری ہوں۔

 

شرح حدیث

 

عربوں کا یہ دستور تھا کہ میت کا ماتم طویل عرصے تک کرتے رہتے اور اگر کسی سردار کا انتقال ہو جاتا تو یہ ماتم سالوں تک جاری رہتا اور اس میں مرنے والے کی عظمت اور بڑائی سمجھی جاتی تھی۔ عورتیں غم کے اظہار کے لیے اپنے سروں میں خاک ڈال لیتیں، سر کے بال مونڈ لیتیں اور کئی کئی دن تک بین کرتیں، پیٹ پیٹ کر اپنے کپڑے پھاڑ لیتیں اور نہانا دھونا ترک کر دیتیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں ’صالقۃ‘، ’شاقۃ‘ اور ’حالقۃ‘ سے ان کی انھی عادات و رسوم کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

’میں ان سے بری ہوں‘سے مراد یہ ہے کہ یہ سب چیزیں وہ ہیں جن کی میں نے انھیں نہ تعلیم دی ہے اور نہ یہ چیزیں اس دین میں ہیں جو میں لے کر آیا ہوں۔ دوسری روایتوں میں آپ نے ’لیس منا‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہاں بھی ان سے مراد یہی ہے کہ ایسا کرنے والا اس معاملے میں ہمارے دین پر عمل پیرا نہیں ہے۔

قرآن مجید نے ہمارے لیے ایسے معاملات میں واضح ہدایات دی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی بنیاد یہی آیات ہیں ،سورۂ حدید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

مَآ أَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْٓ أَنْفُسِکُمْ إِلَّا فِیْٓ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ أَنْ نَّبْرَأَہَا إِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ. لِّکَیْْلَا تَأْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰکُمْ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ. الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَیَأْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَمَنْ یَّتَوَلَّ فَإِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ.(حدید۵۷: ۲۲۔۲۴)

’’اورتمھیں کوئی مصیبت بھی نہیں پہنچتی ہے، نہ زمینی پیداوار میں اور نہ تمھارے اپنے نفوس کے اندر، مگر یہ کہ وہ لکھی ہوئی ہے ایک کتاب میں، اس سے پہلے کہ ہم اس کو وجود میں لائیں اور یہ اللہ کے لیے نہایت آسان ہے۔ یہ بات تمھیں اس لیے بتائی جا رہی ہے کہ جو چیز جاتی رہے اس پر غم نہ کرو اور نہ اس چیز پر اتراؤ جو اس نے تمھیں بخشی ہے اور یاد رکھو کہ اللہ اکڑنے والوں اور فخر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ اللہ پر پختہ ایمان رکھنے والوں اور اس کے فیصلوں پر راضی رہنے والوں کا رویہ قرآن مجید میں یہ بیان ہوا ہے کہ جب ان پر ایسی کوئی مشکل آتی ہے تو ان کا رویہ کامل سپردگی اور رضا کا ہوتا ہے۔ ارشاد ہے:

وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ. الَّذِیْنَ إِذَآ أَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْٓا إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّآ إِلَیْْہِ رَاجِعُوْنَ. أُولٰٓءِکَ عَلَیْْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَأُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ.(البقرہ۲: ۱۵۵۔۱۵۷) 

’’ان ثابت قدموں کو خوش خبری سنا دو، جن پر کوئی مصیبت آتی ہے تو پکار اٹھتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، انھی پر اللہ کی عنایتیں اور رحمتیں ہوں گی اوریہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘

اس آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ آدمی جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اس سے دین مصائب کے مواقع پر چاہتا ہے کہ وہ صبر و استقامت سے ان کا سامنا کرے۔ اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکلے جو اس کے ایمان و عقیدہ سے انحراف پر دلالت کرتی ہو۔

اس آیت کی روشنی میں اس حدیث سے جو باتیں معلوم ہوتی ہیں، وہ مختصراً اس طرح ہیں:

پہلی بات یہ ہے کہ موت اللہ کی طرف سے آتی ہے، اس لیے اس کو ظلم نہیں سمجھنا چاہیے اور اگر آدمی اس پر چیخے اورچلائے تو وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کرتاہے کہ اس کی نظر میں اللہ نے (نعوذ باللہ) اس پر ظلم کیا ہے۔

دوسری یہ کہ موت لواحقین کے لیے تذکیر اور یاد دہانی ہے۔ یہ آدمی کو یاد دلاتی ہے کہ ان مرنے والوں کی طرح، اسے بھی ایک دن موت سے ہم کنار ہونا ہے ۔چنانچہ اسے اس پر بجائے رونے پیٹنے کے اپنی بندگی کا اظہار اس طرح کرنا چاہیے کہ اس کا دل پکار اٹھے کہ ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور ہمیں بھی ایک دن اسی کے دربار میں حاضر ہونا ہے اور جب ہم اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں تو پھر اموال کا چھن جانا، دوستوں اور عزیزوں کا جدا ہو جانا، کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا ۔لیکن اگر وہ چیختا اور چلاتا ہے تو وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ وہ اللہ کے اس موت و حیات کے نظام پر راضی نہیں ہے۔ وہ رورو کر گویا اس پر احتجاج کر رہا ہے اور اس کے بھائی کے لیے موت کا جو حکم آسمان سے آیا ہے، اسے وہ صبر کے ساتھ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

تیسری یہ کہ موت پر صبر اور استقامت دکھانے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی ر حمتیں اور فضل ہے اور یہی لوگ اللہ کے سکھائے ہوئے راستے پر ہیں اور جو لوگ ان مواقع پر صبر اور استقامت سے کام نہیں لیتے، وہ اللہ کے سکھائے ہوئے راستے کو اختیار کرنے والے نہیں بنے۔

[۱۹۹۸ء] 

___________________

B