HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Sajid Hameed

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

خرید و فروخت میں دھوکا

 

عن ابی ھریرۃ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، مرعلی صبرۃ من طعام، فادخل یدہ فیھا. فنالت اصابعہ بللا. فقال: یا صاحب الطعام، ما ھذا؟ قال: اصابتہ السماء، یارسول اللّٰہ. قال: افلا جعلتہ فوق الطعام حتی یراہ الناس؟ ثم قال: من غش فلیس منا.(اخرجہ مسلم وترمذی واحمد بن حنبل) 

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، غلے کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے۔آپ نے اُس ڈھیر میں اپنا ہاتھ داخل کیا تو نیچے کے غلے میں نمی محسوس کی۔آپ نے دریافت فرمایا:بھئی،یہ کیا ہے؟غلہ فروش نے کہا: یا رسول اللہ، اسے بارش نے آلیا تھا(اس لیے بھیگ گیاہے)۔آپ نے فرمایا:بھیگے ہوئے غلے کو اوپر کیوں نہیں رکھتے؟تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں (اور دھوکا نہ کھائیں)۔ پھر آپ نے فرمایا:جس نے دھوکا دیا،وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ 

 

شرح حدیث

 

یعنی یہ ضروری ہے کہ آدمی جو چیز بیچے،ا س کے عیوب اور خامیا ں خریدنے والے سے نہ چھپائے تاکہ وہ کسی دھوکے میں نہ رہے۔آپ کا فرمان ہے:

لا یحل لمسلم باع من اخیہ بیعا فیہ عیب الابینہ لہ. (ابن ماجہ،کتاب التجارات) 

’’اہل ایمان میں سے کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی عیب دار چیز،اس کا عیب بتائے بغیر،اپنے بھائی کے ہاتھ فروخت کردے۔‘‘

اسلام نے خرید و فروخت کے معاملات میں ضرر اور غرر سے گریز کا اصول رکھا ہے تاکہ فریقین ایک دوسرے کو دھوکا دینے اور نقصان پہنچانے سے باز رہیں۔نہ وہ گھٹیا چیزوں کو اچھی چیزوں میں ملا کر بیچیں اور نہ ناپ تول میں کمی کریں۔

لین دین کے معاملات میں بد دیانتی،دھوکا اور ضرررسانی معاشرتی زندگی کے لیے اتنی مہلک چیزیں ہیں کہ قرآن مجید نے کئی مقامات پر ناپ تول میں کمی بیشی کو ’فساد فی الارض ‘ سے تعبیر کیا ہے:

فَاَوْفُوا الْکَیْْلَ وَالْمِیْزَانَ وَلاَ تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْیَآءَ ہُمْ وَلاَ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلاَحِہَا ذٰلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ.(الاعراف۷: ۸۵)

’’ناپ تول پوری کرو، لوگوں کی چیزوں میں کمی نہ کرو اور اس طرح زمین میں اصلاح کے بعد فساد برپا نہ کرو،یہی تمھارے حق میں بہتر ہے۔اگر تم’’فی الواقع‘‘مومن ہو۔‘‘

تجارتی کاروبار اور لین دین میں،چونکہ اشیا،عام طور پر،تولی یا ناپی جاتی ہیں،اس لیے اس آیت میں تجارت کے اسی غالب پہلو کا ذکر کیا ہے۔اصل مقصود، ان معاملات میں،دیانت اور راست بازی کی تعلیم دینا ہے، اس لیے کہ بددیانتی اور دھوکا کوئی منفرد برائی نہیں،بلکہ یہ وہ بیماری ہے، جس سے ایک قوم کئی دوسری بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس سے رشوت، سفارش، اقرباپروری اور معاشرتی نا انصافی جیسے ناسوروجود میں آتے ہیں۔معاشرے کے افراد میں دھوکا اور ضرررسانی کے رویوں کا پایا جانا ،اس بات کی دلیل ہے کہ عدل وقسط کا وہ نظام،جس پر کائنات قائم ہے،اب انسان کے ہاتھوں درہم برہم ہونے کو ہے۔اور خالق کائنات کی صفت عدل کا تصور اس قوم میں مردہ ہو چکا ہے۔ان اخلاقی برائیوں کے ساتھ، قوم کے اندر ایسا اخلاقی بگاڑ پیدا ہوتا ہے کہ سرطان کی طرح جسم کے ریشے ریشے میں سرایت کر جاتا ہے۔زندگی اپنے مرکزثقل پر قائم نہیں رہتی، نتیجۃً تہذیب، تمدن اور معاشرے کے سارے نظام ہی میں فساد و اختلال رونما ہو جاتا ہے۔

عام طور سے،لوگ ایسے جرائم کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے،لیکن یہ جرائم ایسے ہیں کہ اگر ان کو ترک نہ کیا جائے، تو بالآخر تمدن کی کوئی اینٹ اپنی جگہ پر قائم نہیں رہتی۔اسی چیز کو قرآن مجید ’فساد فی الارض‘ کہتا ہے۔ اور وہ ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی بنیاد عدل و قسط پر رکھی ہے، اس لیے اہل ایمان کو عدل و قسط کا علم بردار بننا چاہیے۔چنانچہ وہ ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اپنے دائرۂ اختیار میں معاشرے کے نظام کو اسی عدل پر قائم رکھیں۔

کوئی دھوکے باز اور ڈنڈی مارنے والی قوم دنیا میں نہ فروغ پا سکی،نہ پا سکے گی۔چنانچہ،کسی قوم کے اندراس برائی کا پایا جانا ا س بات کو جاننے کے لیے کافی ہے کہ وہ کسی تمدن کے قیام کی صلاحیتوں سے نہ صرف محروم ہے،بلکہ یہ خدا کی سرزمین میں باعث فساد بھی ہے۔اللہ نے ایسی قوموں کو ہمیشہ صفحۂ ہستی سے مٹا دیا ہے۔ اسے یہ گوارا نہیں ہے کہ وہ عدل و انصاف سے ہٹی ہوئی کسی قوم کو عروج دے،کیونکہ اس کا اصول یہی ہے کہ وہ اعلیٰ اخلاق کے اصولوں پر قائم اقوام ہی کو دنیا میں بالا دستی عطا کرتا ہے۔

ایسے جرائم،اگر انفرادی سطح پر بھی رہیں اور آدمی ان سے چھٹکارا پانے کی کوشش نہ کرے تو ایک وقت آتا ہے کہ یہ چیزیں اس کے کردار کا حصہ بن جاتی ہیں اور دیمک کی طرح اس کے ایمان کو چاٹ جاتی ہیں۔جان لینا چاہیے کہ اس درجے تک پہنچنے کے بعد آدمی کو جہنم کی سزا بھی ہو سکتی ہے:

بَلٰی مَنْ کَسَبَ سَیِّءَۃً وَّأَحَاطَتْ بِہٖخَطِیْٓءَتُہٗفَأُولٰٓءِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُوْنَ.(البقرہ ۲: ۸۱) 

’’البتہ،جس نے کوئی برائی کمائی اور (پھر) اُس کے گناہ نے اُس کو اپنے گھیرے میںلے لیاتو وہی لوگ دوزخ والے ہیں۔وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘

چنانچہ یہ جو فرمایا کہ دھوکا دینے والا ہم میں سے نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ایسی سنگین برائی ہے،جس کا ارتکاب اہل ایمان سے کسی حال میں نہیں ہونا چاہیے۔ہر مسلمان کو اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ اگر وہ ایسا کرتا ہے توضرور اس کے ایمان میں نقص ہے، جس کی اصلاح کے بغیر وہ حقیقی فلاح نہیں پا سکتا۔

[۱۹۹۳ء]

___________________

B