عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، لا یکلمھم اللّٰہ یوم القیامۃ ولا یزکیھم ولا ینظر الیھم ولھم عذاب ألیم: شیخ زان و ملک کذاب، عائل مستکبر.(مسلم،کتاب الایمان)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین لوگ ایسے ہیں کہ اللہ قیامت کے دن نہ ان لوگوں سے بات کرے گا،اور نہ ان کو پاک کرے گا۔نہ ان کی طرف التفات فرمائے گا،ان کے لیے بس دردناک عذاب ہے: وہ بوڑھا جو بڑھاپے میں بھی زنا سے نہ بچ سکا،وہ بادشاہ جسے اس کی بادشاہت بھی جھوٹ سے نہ بچا سکی اور وہ گدا جو اپنی تنگ حالی میں بھی تکبر سے نہ رکا۔
اس حدیث میں ان مجرمین کے بارے میں اس سخت سزا کا حکم سنایا جا رہا ہے، جن کو اللہ نے گناہ سے بچنے کا بھر پور موقع عنایت فرمایا،مگر انھوں نے اس کے باوجود گمراہیوں اور آلودگیوں میں لتھڑے رہنا پسند کیا۔
شریعت اسلامی کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ عذر کے ہوتے ہوئے جرائم کی سزا کم اور بعض صورتوں میں بالکل معاف ہو جاتی ہے۔اور جب گناہ بلا عذر ہو تو اس صورت میں گناہ کی سزا اپنی آخری شکل میں دی جاتی ہے۔اس حدیث میں بھی تینوں مثالیں اس قسم کی ہیں، جن کے عذر گناہ نہ ہونے کی وجہ سے سخت سزا کی وعید ہے۔مثلاً بوڑھے شخص کے لیے کوئی وجہ نہیں کہ اپنی پیرانہ سالی اور اضمحلال قویٰ کے بعد جذبات کے ہیجان کا شکار ہو کر زنا کر بیٹھے۔
بادشاہ کی مثال میں دیکھیے کہ اسے کوئی خوف دامن گیر نہیں ہوتا جو اسے سچ بولنے سے روک دے۔اسی طرح اس انعام و فضل، جوبادشاہی کی صورت میں اللہ نے اس پر کیا ہے، اور جس کے بعد ان نعمتوں کی کوئی کمی نہیں ہے کہ جن کی حاجت اسے جھوٹ پر اکسائے اور وہ جھوٹ بولنے پر مجبور ہو۔ چنانچہ وہ ایسا کرے گاتو قطع عذر کی صورت میں، بہر حال، اسی انجام کو پہنچے گا۔
گداے متکبر کی صورت میں بھی صورت حال ایسی ہی ہے کہ اللہ نے اسے وہ مال ودولت عطا ہی نہیں کیا جو اس کے تکبر کی وجہ بنے۔مال و دولت اور جاہ و حشمت ایسی چیز ہے جو غرور و تکبر کا باعث ہو سکتی ہے،لیکن اگر آدمی کے پاس ایسی کوئی چیز نہیں کہ جو اس کے لیے لوگوں کو حقیر سمجھنے کی وجہ بنے یا خدا کے حق کے مقابلے میں ہٹ دھرمی دکھانے کا سبب ہوتو ہو سکتا ہے کہ ایسے آدمی کے لیے اس کا عذر کام آئے اور اس کی سزا میں تخفیف ہو جائے۔
یہاں ایک بات واضح رہے کہ ہر بادشاہ،بوڑھا اور فقیر اس حکم میں نہیں ہے۔یہ سمجھا نے کا ایک اسلوب ہے، جس میں مثالیں ایسی دی گئی ہیں، جن سے بات پوری طرح واضح ہو جائے۔آپ کی مراد صرف انھی بوڑھوں اور بادشاہوں اور فقیروں سے ہے۔ جو،واقعۃً، بلا عذر گناہ کریں۔یعنی کوئی شدید حاجت ،کوئی خوف اور کوئی اپچ اور امنگ اس کو گناہ پر ابھارنے والی نہ ہو۔مثال کے طور پروہ فقیر جو مال تو نہ رکھتا ہو،لیکن اپنے جسمانی حسن اور شکل و صورت کی خوبی پر نازاں ہو کر اظہار تکبر کر بیٹھے تو جرم تکبر میں تو پکڑا جائے گا،لیکن اس حدیث کے حکم کا اطلاق اس پر نہیں ہو گا،کیونکہ اب ایک عذر گنا ہ موجود ہے۔
[۱۹۹۳ء]
___________________