یہ صدی مذاہب عالم کے لیے ایک چیلنج بنی رہی ہے۔ اگرچہ اس کے اختتام پرمذہب کے لیے ایک پر امید فضا پیدا ہوئی ہے۔ مگر اب اہل مذہب میں بے پناہ خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں۔ چنانچہ صورت حال یہ نظر آرہی ہے کہ آیندہ صدی ہر مذہب کو قبول کرنے کو تیار ہو گی، مگر اہل مذہب کا کوئی فرد اس قابل نہیں ہو گا کہ لوگ اس کی طرف مذہب کے لیے رجوع کریں۔
کسی بھی مذہب کی دعوت کے لیے اس سے بڑی رکاوٹ کیا ہو سکتی ہے کہ اس کو ماننے والے صحیح طور پر اس پر کاربند نہ رہیں۔ آج دوسرے مذاہب کی طرح اہل اسلام کی بھی یہی حالت ہے۔ انھیں خبر نہیں کہ ان کا مذہب کیا ہے۔ اب ان کے ذہنوں میں بھی مذہب وہی دیو مالائی فلسفہ ہے، جس میں کچھ دیوتا ہوتے ہیں اور کچھ دیویاں۔ ان کے ساتھ لگاؤ اصل مذہب سمجھا جاتا ہے اور ان سے بیر، ارتداد کہلاتا ہے۔ ان دیویوں اور دیوتاؤں کے ساتھ ان کا یہ لگاؤ اندھا ہوتا ہے، جس کے پیچھے کوئی استدلال نہیں ہوتا۔ پھر یہی لگاؤ انھیں ان چیزوں سے بھی ہوتا ہے، جو ان ہستیوں سے منسوب ہوتی ہیں۔ یہ لگاؤ بھی اندھا بہرا ہوتا ہے، جس کے پیچھے کوئی منطق نہیں ہوتی۔ وہ ان چیزوں کے چومنے اور چاٹنے ہی کو عقیدت و احترام سمجھتے ہیں۔ یہی ان کا مذہب ہوتا ہے اور یہی ان کا عقیدہ۔ اگر کسی نے ان کے بارے میں ذرا سا بھی مختلف رویہ اختیار کیا تو وہ اس کے خلاف توپ تفنگ لے کر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
چنانچہ آج مسلمان اسلام سے متعلق چیزوں اور ہستیوں کے ساتھ چومنے اور چاٹنے کے تعلق ہی کو حقیقی تعلق خیال کرتے ہیں، حالانکہ ان کی چومنے اور چاٹنے کی یہ تعظیم خود ساختہ ہے، حقیقی نہیں ہے۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک سن کر بوسہ تو دے لیں گے، مگر اپنی زندگی میں بے شمار موقعوں پر عمل کرتے ہوئے، جب آپ کا کوئی حکم آئے گا تو اسے رد کر دیں گے۔ اس وقت کوئی گولی وہ اپنے خلاف نہیں چلاتے۔ کوئی توپ تفنگ ان کی اس توہین پر ان کے خلاف نہیں چلتی۔ صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لے کر صبح تک، سیکڑوں مرتبہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی ایسی ایسی توہین کر جائیں گے کہ قلب و روح سیاہ ہو جائیں، مگر اس وقت انھیں کوئی پشیمانی نہیں ہوتی۔ ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ لیکن ذرا کسی نے خبر کردی کہ فلاں شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور گستاخی کردی ہے تو آستینیں چڑھ جائیں گی، محلہ اکٹھا ہو جائے گا اور ایک کہرام بپا ہو جائے گا۔ اس سارے فساد میں دین کو ایک مرتبہ پھر فراموش کر دیا جائے گا۔
یہی حالت ان کی قرآن مجید کے ساتھ بھی ہے۔ اس کو معطر جزدانوں میں رکھا جائے گا، بلند طاقوں میں رکھ کر اس کی تکریم کی جائے گی اور اگر پڑھنے کی کبھی توفیق ملے توکچھ پڑھ بھی لیا جائے گا۔ لیکن اس کے احکام کسی کو آمادۂ عمل نہیں کرتے۔ کوئی اسے اپنی زندگی کا دستور نہیں بناتا۔ اس اعتبار سے صبح و شام اس کی توہین ہوتی ہے، مگر اس وقت کسی کی غیرت جوش میں نہیں آتی۔ کسی کے اندر اس کی حمیت نہیں جاگتی۔ کوئی اپنی اس توہین پر محلہ اکٹھا نہیں کرتا۔ اس لیے کہ اس حقیقی عقیدت کی جگہ اس بناوٹی عقیدت نے لے لی ہے۔ اس حقیقی غیرت کی جگہ غلط غیرت وجود میں آچکی ہے۔
اس غلط روش نے مذہب، بالخصوص اسلام کو اس صدی کی سنگین ترین جنگ سے دو چار کر دیا ہے۔ اسے نہ یونان قدیم کا فلسفہ چت کر سکا اور نہ زمانۂ جدید کا الحاد اس کا بال بیکا کر سکا، نہ کمیونزم اس کا کچھ بگاڑ سکا اور نہ سیکولرازم اس کے مبارک جسم پر کوئی چرکا لگا سکا۔ لیکن مسلمانوں کا یہ طرز عمل اس کے جسم پر ایسے گھاؤ کر رہا ہے کہ جن کے مندمل ہونے میں شاید صدیاں بیت جائیں۔
یہ جنگ سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس نے دعوت اسلام کے تمام دروازے غیر مسلموں پر تو کیا، ان جدید پڑھے لکھے مسلمانوں پر بھی بند کر دیے ہیں، جو ہر چیز کو اب ایک نئی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
اسلام تمام مذاہب عالم کے مقابلے میں سب سے زیادہ یقینیات پر مبنی ہے، مگر اہل اسلام نے اسے توہمات پر مبنی کردیا ہے۔ اس کا دامن سب سے زیادہ وسیع ہے، مگر اہل اسلام نے اسے سب سے زیادہ تنگ نظر بنا دیا ہے۔ وہ سب سے زیادہ عقلیات پر چلتا ہے، مگر اہل اسلام نے اسے تقدسات پر مبنی کر دیا ہے۔ اختلاف فہم دین کے باب میں رحمت تھا، مگر اب تفرقہ کی صورت میں عذاب الٰہی بن چکا ہے۔ دوسری امتوں کا وجود اہل اسلام کے لیے دعوت کے مواقع فراہم کرتا تھا، مگر اب ان کی غنڈہ گردی کے شوق کی تسکین کا ذریعہ ہے۔
یہ سب وہ زخم ہیں جو اس صدی کے اختتام پر اسلام کے چہرے پر لگے ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ سب زخم خود مسلمانوں نے لگائے ہیں۔
_______
اسی طرح کا ایک زخم اسلام کے مبارک چہرے پر مسلمانوں نے اس وقت لگایا، جب وہ عیسائیوں کی ایک بستی میں ’’دادشجاعت‘‘ دیتے ہوئے داخل ہوئے۔ اس کی روداد پڑھ کر مجھے دور جاہلیت میں عربوں کی وہ غارت گریاں یاد آئیں، جن میں وہ کمزور قبائل پر حملہ آور ہو تے اور قتل و غارت کے بعد ان کی املاک تباہ کر دیتے، ان کے اموال اور عورتوں کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ مجھے ایک ایک چہرے میں وہی ’’شقاوت‘‘ نظر آئی جو اسلام سے پہلے دور جاہلیت کے عرب بدووں میں تھی۔ جو ابھی اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ پھر مجھے خیال ہوا کہ یہ دور جاہلیت ہے، یہ لوگ ابھی دائرۂ اسلام میں داخل نہیں ہوئے۔
جب اخبار و جرائد میں جلی ہوئی بائیبل کے ڈھیر دیکھے تو مجھے ہسپانیہ کے صلیبی یاد آئے۔ جنھوں نے قرآن کے نسخے ڈھونڈ ڈھونڈ کر جلائے تھے۔ وہ جس خدا کے دین کی غیرت میں نکلے تھے اسی خدا کی آخری کتاب کو نذر آتش کر رہے تھے۔ ادھر یہ مسلمان بھی خدا کی آخری کتاب کے دفاع میں نکلے تھے، مگر اسی خدا کی پہلی کتابوں کو آگ لگانے کا جرم کر رہے تھے۔ مجھے خیال ہوا کہ شاید یہ مسلمان نہیں، صلیبی ہیں۔
بائیبل تورات، زبور اور اناجیل کا مجموعہ ہے۔ یہ رب العالمین کی طرف سے تین دیانتوں کا مظہر ہے۔ اس میں حضرت آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ تک انبیا علیہم السلام کا ذکر ہے۔ ان کی سیرتوں کا ماخذ ہے۔ یہی بائیبل ہے جس نے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خبر دی تھی۔ یہ زمانی اعتبار سے، قرآن سے پہلے ہے اور قرآن اس کے بعد ہے۔ یہ بھی اسی خدا کا کلام ہے، جس کا کلام قرآن ہے۔ اسے بھی وہی روح القدس لے کر آئے، جو قرآن کو لے کر آئے تھے۔ اس پر ایمان بھی اسی طرح لازم ہے، جس طرح قرآن پر۔ بائیبل کی توہین کرنا ایسا ہی جرم ہے جیسے اگر کوئی عیسائی اللہ کو، نعوذباللہ، گالی دے تو اس کے جواب میں، ہم عیسائیوں کے خدا کو گالی دینے لگیں اور یہ بھول جائیں کہ دونوں کا خدا ایک ہے۔
چنانچہ آج بائیبل مسلمانوں سے سوال کر رہی ہے کہ جس کتاب کو ماننا تمھارے ایمان کا حصہ ہے، اسے کیوں جلاتے ہو؟ وہ یہ سوال کر رہی ہے کہ آیا بائیبل کا خدا مر چکا ہے کہ تم نے اس کی توہین کر ڈالی؟ بائیبل یہ پوچھتی ہے کہ قرآن کے ماننے والو، اس کتاب کو کیوں جلاتے ہو، جس نے تمھاری کتاب کی آمد کی پیش گوئی کی تھی۔ اس کتاب کو کیوں جلاتے ہو، جو قرآن کی صداقت کی دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے۔ وہ پوچھتی ہے کہ تم نے مجھے جلاتے وقت قرآن کی ان آیتوں کا کفر کیوں کیا، جن میں میرا ذکر ہے۔ وہ پوچھتی ہے کہ کل قیامت کے دن کیا جواب دو گے، جب میں خدا کے حضور میں اپنا مقدمہ دائر کروں گی۔
_______
یہ مقدمہ تو قیامت کے دن پیش ہو گا ہی۔ اس وقت ایک اور مقدمہ خود اسلام دائر کر رہا ہے کہ میرے جسم پر یہ گھاؤ کس نے لگائے ہیں۔ کس نے میرے روشن چہرے کو بے نور کیا ہے۔ کس نے اے مسلمانو، تم سے کہا تھا کہ تورات و انجیل کو جلا دو۔ تمھیں کس نے کہا تھا کہ غارت گری کرو۔ تم نے عیسائیوں کے جتنے گھر ڈھائے ہیں، اتنے گھاؤ میرے جسم پر ہیں۔ تم نے تورات و انجیل کو آگ لگائی ہے تو میرے قرآن کی ان آیتوں سے دھواں اٹھ رہا، جن میں ان کا ذکر ہے۔ وہ میری صداقتوں کی دلیل ہے۔ تم میرے جسم کا ایک حصہ کاٹ رہے ہو۔
تم کہتے ہو، تم نے میرا دفاع کیا ہے۔ تم جھوٹے ہو۔ میں نے تمھیں کبھی ایسے دفاع کے لیے نہیں کہا۔ یہ میرا دفاع نہیں میری توہین ہے۔ تم نے میری کسی بات کی پاس داری نہیں کی۔
بتاؤ، میں نے تمھیں یہ نہیں کہا تھا کہ جب کوئی تمھارے پاس اہم خبر لے کر آئے تو اس قوم پر پل پڑنے سے پہلے اس خبر کی تحقیق کر لیا کرو، تاکہ بعد میں شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔
بتاؤ، تم نے عیسائیوں پر حملہ کرنے سے پہلے اس خبر کی تحقیق کی؟ تم نے یہ تحقیق کی کہ قرآن کا وہ نسخہ فی الواقع پھاڑا گیا تھا؟ تم نے یہ تحقیق کی کہ اسے ایک عیسائی نے پھاڑا تھا یا پوری بستی نے مل کے پھاڑا تھا؟ تم نے یہ تحقیق کی کہ قرآن کا وہ پھٹا ہوا حصہ کہاں سے آیا تھا؟ کسی عیسائی نے پھاڑا تھا یا کسی شرانگیز کی شرارت تھی۔ بتاؤ تم نے میری اس تعلیم پر عمل کیا؟ تم میری اسی تعلیم پر عمل کر لیتے تو تم تورات، زبور اور انجیل کی توہین کے مرتکب نہ ہوتے۔ کتاب الٰہی کی توہین کا یہ جرم اب تمھارے سر بھی ہے۔
بتاؤ، میں نے تمھیں یہ نہیں کہا تھا کہ کسی کے ساتھ ظلم نہ کرنا۔ اور یہ نہیں کہا تھا کہ کسی کی دشمنی بھی تمھیں انصاف سے نہ روکے۔
اب بتاؤ کہ ثبوت جرم کے بغیر تم نے ان کی املاک تباہ کیں تو یہ انصاف ہے؟ اصل مجرم کو سزا دینے کے بجائے پوری بستی کو اجاڑ دینا کیا انصاف ہے؟ بتاؤ، کیا تم نے مجرم ہی کو سزا دی ہے؟ بتاؤ، بائیبل کا کیا قصور تھا؟ کیا اس نے قرآن کو پھاڑا تھا؟ بولو، تم نے انصاف کیا؟ اگر تم میری اسی تعلیم پر عمل کر لیتے تو تم ظالم قرار نہ پاتے۔
بتاؤ، میں نے تمھیں یہ نہیں کہا تھا کہ بتوں کو گالی مت دینا۔ دوسرے ادیان کی تحقیر نہ کرنا، ورنہ وہ تمھارے خدا اور دین کی توہین کریں گے۔
اب بتاؤ، کیا انجیل و تورات بتوں سے بھی بری ہیں کہ تم نے انھیں جلا ڈالا؟ بتا ؤ،کیا اگر وہ اس کے جواب میں تمھارے قرآن کو جلا دیتے تو؟ تو پھر قرآن کو جلانے کے مجرم تم ہوتے۔
بتاؤ، کیا یہ سب کچھ میں نے تمھیں نہیں کہا تھا؟ تم نے میری کون سی بات مانی ہے؟ تم نے مجھے پوری دنیا کے سامنے رسوا کیا ہے۔ لوگ کیا کہیں گے کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کی کیسی بری تربیت کی ہے۔
سنو، کل قیامت کے دن میرے ایک ہاتھ میں تورات و انجیل ہوں گی اور دوسرے ہاتھ میں عیسائیوں کی املاک۔ تب میں قرآن کی آیات سے تمھارے خلاف مقدمہ قائم کروں گا اور اپنی مصدق کتابوں کی توہین کا بدلہ لوں گا۔
میں کہوں گا کہ مجھے مسلمانوں کی جھوٹی عقیدت سے کچھ نہیں لینا۔ انھوں نے میری تعلیمات کا خون کیا ہے۔ میری توہین کی ہے۔ یہ ہسپانیہ کے صلیبی ہیں۔ دور جاہلیت کے غارت گر ہیں۔ ان کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ یہ چنگیز اور ہلاکو ہیں۔ یہ غارت گر دین و ملت ہیں۔ نعوذ باللّٰہ من ذلک۔
[۱۹۹۷ء[
___________________